Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1436ھ

ہ رسالہ

7 - 18
فتنے کے اسباب

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ایک بیان کی تسہیل
تسہیل: محترم سید عروہ عرفان

غرض، رسموں کا معاملہ یہ ہوگیا ہے کہ ان سے فخر و غرور کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ موت کو بھی غرور اور فخر کا ذریعہ بنادیا ہے۔

شریعت میں اعمال کا اعتبار نیت پر ہے۔ جب رسوم میں لوگوں کی نیتیں ایسی ہیں توبتائیے کہ انھیں کیسے جائز کہا جائے؟ میں نے بعض شہروں میں دیکھا ہے کہ میت کے اوپر چادر ڈال دیتے ہیں، مگر وہ کسی غریب کو نہیں دیتے۔ بلکہ اسے کچھ دیر میت پر رکھ کر گھر میں دھر لیا جاتا ہے۔مزید مزے دار بات یہ ہے کہ اسے منحوس سمجھ لیا جاتا ہے۔ مگر ہمارا نفس بڑا شریر ہے، اپنا نفع کہیں جانے نہیں دیتا۔ چناں چہ گاڑھے لٹھے کے کپڑے تو منحوس سمجھ لیے جاتے ہیں، مگر مردے کا روپیہ پیسہ، اس کا گھر اورجائداد وغیرہ جیسی قیمتی اشیا منحوس نہیں سمجھی جاتیں۔

چناں چہ میت کے روپے پیسے میں اکثر غبن کیا جاتا ہے۔ جس کے ہاتھ جو لگا، دوسروں کو پتا ہی نہیں چلتا۔ اسی طرح مکان اور جائداد میں ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اکیلا ہی سب کا مالک بن بیٹھوں۔ کاش، اگر یہ گاؤں بھی منحوس ہوجاتے تو آج ہمیں (مدرسے والوں کو) ترکے سے چندہ ہی میں مل جاتے مگر یہ نفس بڑا عقل مند ہے۔ یہ انھی چیزوں کو منحوس سمجھتا ہے جو گھٹیا قیمت کی ہوں۔ اگر کسی نے اطلس و کمخواب کے کپڑے چھوڑے ہوں تو انھیں منحوس نہیں سمجھتا، دو ایک بار استعمال ہی کیوں نہ کرلیے ہوں۔ الغرض، مردے پر دوشالہ ڈالنے کا مقصد تکبر ہوتاہے۔ یہ ہماری غفلت کا ٹھکانہ ہے کہ ہم نے موت کو بھی مایہٴ فخر بنالیا ہے۔ کسی نے درست کہا ہے:
        کسی کی جان گئی، آپ کی ادا ٹھہری

میت تو بے چاری جان سے گئی اور آپ کو ایک مشغلہ ہاتھ آگیا کہ اس وقت بھی دل کی خواہشیں پوری کی جاتی ہیں اور غرور و نمود کا سامان کیا جاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو میت کے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ رنگ سفید تھا۔ مگر ہم لوگ خلافِ سنت رنگ برنگ کے کپڑے میت پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ کپڑے محض غرور اور دکھلاوے کے لیے ڈالے جاتے ہیں اور کسی غریب کو نہیں دیے جاتے۔

اور اگر کسی غریب کو دے بھی دیا تو اس لیے کہ لوگ کہیں کہ یہ تو بڑا حوصلے والا اور جرأت والا ہے کہ باپ کی میت پر اتنا قیمتی دو شالہ تھا، وہ اتار کر اللہ کے لیے دے دیا۔ بلکہ اگر غورکریں تو اندازہ ہوگا کہ جو سفید کپڑا بھی میت پر ڈالا جاتا ہے، وہ بھی فخر اور نمود کے لیے ڈالاجاتا ہے، کیوں کہ اوپر کی یہ چادر کفن میں داخل نہیں ہے۔ کفن تو اتنا ہے کہ جس میں مردہ لپٹا ہوا ہے۔ یہ زائد چادر کفن کا حصہ نہیں ہے۔ (اس کا مقصد صرف اکرام میت ہے او ربس)۔

یہاں ایک اہم نکتہ سمجھنے کا ہے کہ اکثر لوگ اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ اوپر کی یہ چادر ترکے میں سے نہ ہو، حالاں کہ یہ بہت ضروری بات ہے۔ مگر عام دستور یہ ہے کہ چادر بھی ترکے ہی میں سے منگائی جاتی ہے، کیوں کہ یہ بات عام ہے کہ تجہیز و تکفین کا خرچہ ترکے میں سے کرنا سب سے مقدم ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے، مگر اوپر کی اضافی چادر کو بھی کفن کا حصہ سمجھ کر اسے بھی مقدم سمجھ لیتے ہیں۔ حالاں کہ وہ کفن میں داخل نہیں ہے۔لہٰذا، ورثا کی اجازت کے بغیر اس کی قیمت ترکے میں سے دینا حلال نہیں ہے۔اور زیادہ تر یہی ہوتا ہے کہ ورثا متعدد ہوتے ہیں اور ان سے اجازت نہیں لی جاتی۔ اگر ایک دو سے اجازت لے لی گئی تب بھی اس کا اعتبار نہیں، اس لیے سب ورثا کی اجازت ضروری ہے۔

اگر کسی کا زیادہ ہی جی چاہے تووہ اس کی قیمت اپنے طور پر دے دے، ترکے میں سے نہ دی جائے۔

ترکے کے مال میں لوگ بالکل بھی احتیاط نہیں کرتے۔ جو لوگ میت کے گھر جاتے ہیں، وہ مرنے والے کی تمام چیزیں بلا تکلف استعمال کرتے ہیں، حالاں کہ مرنے کے بعد اس کی تمام چیزیں میت کی ملکیت سے نکل کر اس کے ورثا کو منتقل ہوگئیں۔ اب ان اشیا کا استعمال وارثوں کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے۔ اہل تقویٰ نے تو یہاں تک احتیاط کی ہے کہ ایک بزرگ رات کے وقت اپنے دوست کی عیادت کو گئے اور اُن کے سامنے ان دوست کا انتقال ہوگیا تو ان بزرگ نے وہ چراغ فوراً گل کردیا۔ پھر ایک شخص کو پیسے دیے کہ جاکر بازار سے تیل لے آؤ، کیوں کہ اس چراغ کا تیل میت کے مرتے ہی ورثا کی ملکیت میں چلا گیا، جن میں سے بعض موجود ہیں اور بعض ورثا غائب ہیں۔ اس لیے اب اس چراغ سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے۔

آپ کو یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوتی ہوگی، مگر اس حیرت کی وجہ یہ ہے کہ آپ کو ان امور کا پتا ہی نہیں اور نہ ان کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اگر آپ کو حلال اور حرام کا خیال ہوجائے تو پھر آپ کا بھی احتیاط کا یہی حال ہو۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ رات کے وقت حضرت علی کرم اللہ وجہ ان کو ملنے آئے۔ حضرت عمر نے انھیں اندر بلالیا اور ان کے آتے ہی چراغ گل کردیا۔ حضرت علی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے میرے آتے ہی یہ چراغ کیوں بجھا دیا؟ حضرت عمر نے فرمایا، اس چراغ میں بیت المال کا تیل ہے اور میں اس وقت بیت المال ہی کا کام کررہا تھا۔ اب چوں کہ ہم اور آپ باتیں کریں گے اور یہ کام بیت المال کا نہیں ہے، اس لیے اس تیل کی روشنی میں بات چیت نہیں کرسکتے۔

ہوسکتاہے، آپ کو اس پر بھی تعجب ہوا ہو۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ آپ کو شریعت کے اصول اور قواعد معلوم نہیں ہیں اور جو معلوم ہیں، ان پر عمل نہیں ہورہا۔ شاید کسی کو یہ احتمال ہو کہ اتنی احتیاط کیسے ہوسکتی ہے کہ یہ تو طاقت سے باہر ہے؟ سن لیجیے کہ طاقت سے باہر تو نہیں، ہاں! دشوار ضرور ہے۔ مگر دشواری اس وقت تک ہے جب کہ آپ نے ہمت نہیں کی۔ ہاں!ہمت کرکے عمل شروع کیجیے، اِن شاء اللہ تعالیٰ قدم قدم پر غیب سے اعانت ہوگی۔ میں آپ کو اپنا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں کہ ہمت اور ارادے پر اللہ تعالیٰ کیسی کیسی مدد فرماتے ہیں۔

بارہ اکبر پور ایک مقام ہے، جس کے قریب ایک چھوٹا سا اسٹیشن لالپور ہے۔ ایک دفعہ میں بارہ سے وہاں پہنچا۔ بارش ہورہی تھی، اس لیے وقت سے بہت پہلے پہنچ گیا۔ اتفاق سے جس وقت وہاں پہنچا،اس وقت بھی بارش ہونے لگی۔ بارش اس قدر شدید تھی کہ اسٹیشن پر لگا سائبان بوچھاڑ سے نہ بچا سکتا تھا۔ اکبر پور میں ایک منصف صاحب میرے جاننے والے تھے۔ انھیں اطلاع ہوگئی تو انھوں ں ے اسٹیشن ماسٹر کو لکھ دیا کہ یہ ہمارے دوست ہیں، ان کی راحت کا کافی انتظام کیا جائے۔ اس غریب اسٹیشن ماسٹر نے ہمارے لیے ایک بڑا کمرا کھلوادیا۔ شام ہوئی تو چوکیدار سے کہا کہ کمرے میں روشنی کردو۔ اس وقت میرے دل میں یہ خیال آیا کہ غالباً اس وقت ہمارے لیے سرکاری تیل جلا کر روشنی کی جائے گی، جو شرعاً جائز نہیں ہے، کیوں کہ سرکاری تیل سرکاری کاموں کے لیے دیا جاتا ہے، نہ کہ ذاتی مسافروں کی خاطر مدارات کے لیے۔

اب اگر اسٹیشن ماسٹر مسلمان ہوتا تو میں بے تکلف اس سے یہ بات کہہ دیتا کہ ہمارے لیے سرکاری تیل کا جلانا جائز نہیں، مگر وہ ہندو تھا۔ میں نے سوچاکہ میں اس کے سامنے شرعی مسئلہ بیان کروں گا تو نہ معلوم کیا سمجھے اور مذاق اڑانے لگے۔ غرض، جب کوئی تدبیر نہ سمجھ آئی تو میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اس وقت آپ ہی مجھے گناہ سے بچا سکتے ہیں۔ میری کوشش تو بے کار ہے۔ میں دل ہی دل میں دعا کررہا تھا کہ اچانک اسٹیشن ماسٹر نے ملازم سے کہا کہ دیکھو، سرکاری تیل نہ جلانا، یہ ہماری ذاتی لالٹین رکھ دینا۔

اس سے معلوم ہوگیا کہ اگر انسان ہمت اور ارادہ کرے تو اللہ تعالیٰ مدد کرتے ہیں۔ اس لیے آپ گھبرائیں نہیں، بلکہ ہمت سے کام لینا چاہیے۔

دنیا کے کاموں میں تو ہم ہمت نہیں ہارتے، بڑے سے بڑا اور مشکل سے مشکل کام شروع کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ”السعی منی والاتمام من اللہ“ کہ میرا کام کوشش کرنا ہے، پورا کرنا اللہ کا کام ہے۔ چناں چہ اس نیت کی برکت سے کام یاب ہوتے ہیں۔ مگر دین کے کاموں میں ہمت نہیں کرتے۔

ہمت وہ چیز ہے کہ جب زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ورغلایا اور انھیں زلیخا کاارادہ معلوم ہوا تو وہاں سے اٹھ کر بھاگنا چاہا۔مگر یہ دیکھ کر سخت گھبرائے کہ یہاں تو سات دروازے ہیں اور ہر دروازے پر ایک مضبوط تالا پڑا ہوا ہے۔ اب دیکھیے، اس وقت ہماری ہمت کہاں بڑھ سکتی تھی؟ اگر ہم ہوتے تو بھاگنے کا کبھی خیال ہی نہ کرتے، مگر نبی کی ہمت تو ہمت ہی ہے۔ یوسف علیہ السلام نے سوچا کہ مجھے قفل تک تو بھاگنا چاہیے۔ اس کے بعد جو چاہے، سو ہو، مجھے اپنی ہمت کی حد تک تو کام کرلینا چاہیے۔ آگے خدا کا کام ہے۔ چناں چہ وہ زلیخا کے پاس سے بھاگے اور زلیخا ان کے پیچھے انھیں پکڑنے کو دوڑی۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی اس ہمت کا نتیجہ یہ ہوا کہ حق تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی۔ لہٰذا، جس دروازے پر پہنچتے، اس کا تالا خود بہ خود گرجاتا۔ بعض لوگ اسے خلافِ عقل کہتے ہوں گے کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ دروازوں میں تالے پڑے ہوں اور ان کی چابی بھی ان کے پاس نہ ہو تو بھاگنا فضول حرکت تھی۔ اس وقت محض بھاگنے سے تالے کیوں کر کھل سکتے ہیں۔ مگر․․․
        عقل در اسباب می دارد نظر
        عشق میگوید مسبب را نگر
یعنی عقل اسباب کو دیکھتی ہے اورعشق مسبب کو دیکھتا ہے۔ چناں چہ عارف کی نظر اسباب پر نہیں ہوتی، وہ مسبب الاسباب کو دیکھتا ہے۔ پھر اس کے بھروسے پر وہ کام شروع کردیتا ہے، جو بہ ظاہر طاقت سے باہر ہوتا ہے۔ مگر حق تعالیٰ کی مدد سے انھیں کام یابی ہوتی ہے۔

ہمارے اہل عرفان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گنوار نے کبھی یہ دیکھا تھا کہ لال جھنڈی کے ہلنے سے ریل رک گئی۔ اس نے ریل کے انجن میں بیٹھے ڈرائیور کو نہیں دیکھا۔ وہ یہ سمجھا کہ اس لال جھنڈی میں کچھ خاصیت ہے۔ وہاں ایک عاقل بھی کھڑا تھا۔ اس نے لال جھنڈی دیکھتے ہی یہ سمجھ لیا کہ اس میں تو ریل کو روکنے کی طاقت نہیں، اب یہ دیکھنا چاہیے کہ یہ لال جھنڈی کسے دکھائی گئی ہے۔ چناں چہ اس کی نظر ڈرائیور پر پڑی اور اس عاقل نے اندازہ لگالیا کہ یہ ڈرائیور ہے، جو اس لال جھنڈی کو دیکھ کر انجن کو روک دیتا ہے اور پوری ریل ٹھہر جاتی ہے۔ اب وہ عاقل اس گنوار کو بتاتا ہے کہ یہ لال جھنڈی ریل کو نہیں روکتی، بلکہ یہ ڈرائیور اس لال جھنڈی کو دیکھ کر ریل کو روکتا ہے۔ اب وہ گنوار اس عاقل کی بات کو خلافِ عقل سمجھے گا اور کہے گا کہ اگر ڈرائیور ہی ریل کو روکتا تو ہمیں وہ نظر آتا۔ ہمیں تو جھنڈی ہی نظر آتی ہے، اس لیے جھنڈی ہی ریل کو روکتی ہے۔

یہی حالت ہماری ہے کہ ہم نے آگ سے بہت سی چیزوں کو جلتے دیکھا ہے، پانی سے ٹھنڈک کا احساس پہنچتے دیکھا ہے تو بس انھی چیزوں کو فاعل (کرنے والا) سمجھنے لگے۔ مگر عارف کی نظر تو مسبب پر ہوتی ہے۔ چناں چہ وہ دیکھ رہا ہوتاہے کہ ان اسباب کے اختیار کرنے پر جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتاہے، تب یہ اثر کرتی ہیں، ورنہ کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ عارف خدا تعالیٰ کو فاعل سمجھتا ہے اورکہتا ہے کہ آگ اور پانی میں کوئی طاقت نہیں، سب کچھ اللہ کرتا ہے۔

اور اللہ تعالیٰ نظر نہیں آتا، اس لیے تم نے ظاہری اسباب کو موثر سمجھ لیا ہے۔ اگرچہ عارف کو بھی ظاہری آنکھوں سے اللہ تعالیٰ نظر نہیں آتے، مگر وہ دل کی نگاہ سے اللہ تعالیٰ کو ضرور دیکھ چکا ہوتا ہے۔ لہٰذا، ہمارا یہ کہنا کہ چابی کے بغیر تالا کیسے کھل سکتا ہے؟ ایسا ہی ہے جیسے گنوار کہتا تھا کہ لال جھنڈی کے بغیر ریل نہیں رک سکتی۔ اور یہ سمجھتا ہے کہ یہ عاقل اسے بے وقوف بنارہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ جھنڈی نہیں روکتی، یہ تو ڈرائیور کا کام ہے۔ حالاں کہ وہ عاقل جانتا ہے کہ یہ کتنا بے وقوف ہے؟

اسی طرح، عارفین اس بات میں ہمیں جانتے ہیں کہ جب ہم کہتے ہیں کہ تالا خود بہ خود نہیں کھل سکتا۔ وہ فرماتے ہیں کہ چابی کے بعد بھی تالا کھولنے والے حق تعالیٰ ہی ہیں۔ وہ اگر چاہیں تو بغیر چابی کے بھی تالا کھول سکتے ہیں۔ اسی خیال سے حضرت یوسف علیہ السلام دروازوں کی طرف دوڑ پڑے، کیوں کہ ان کی نظر خدا پر تھی۔ وہ جانتے تھے کہ لوہے کی نرمی اور آگ کی گرمی، سب خدا کے اختیار میں ہے۔ اگر وہ چاہیں تو آگ سے بھی لوہے کو نرم نہ کریں اور اگر وہ چاہیں تو آگ کے بغیر ہی لوہے کو نرم کردیں۔

البتہ یہ اس کافضل ہے کہ اس نے ایک خاصیت کو خاص چیزوں میں عمومی طور پر غالب کردیا ہے کہ لوہے میں سختی غالب ہے اور آگ میں گرمی غالب ہے۔ چناں چہ اکثریہی ہوتاہے کہ آگ پر لوہے کو گرم کیے بغیر لوہا نرم نہیں ہوتا، تاکہ آپ آسانی سے دنیا کے کام کرسکیں۔ اگر ہمیشہ لوہا خود بہ خود گرم ہوجایا کرتا تو دنیا بھر کے تالے اور اوزار بے کارہوجاتے۔

مگر اس سے یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اس کے خلاف ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہیں تواس کے خلاف بھی ہوسکتا ہے۔ مگر وہ ایسا نہیں کرتے، البتہ کبھی کبھی کربھی دیا کرتے ہیں، اس لیے اسے ”خرقِ عادت“ یا ”معجزہ“ کہا جاتا ہے۔ اسی لیے حضرت یوسف علیہ السلام کے لیے تالوں کا خود ہی گرجانا ان کا معجزہ شمار کیا جاتا ہے۔البتہ کسی عام مسلمان کے لیے ایسا ہوجائے تو اسے کرامت کہا جائے گا۔

جب اللہ تعالیٰ اسباب کے خلاف بھی کرسکتے ہیں تو پھر آپ ہمت کیوں ہارتے ہیں؟جو کام آپ کو مشکل نظر آتاہے، وہ اللہ کے لیے تو مشکل نہیں ہے۔ آپ خدا پر نظر کرکے کام شروع کیجیے۔ اسی کو مولانا رومی فرماتے ہیں:
        گرچہ رخنہ نیست عالم را پدید
        خیرہ یوسف دارمی باید دو ید
یعنی اگرچہ اس جہاں میں اللہ تک پہنچنے کا راستہ کوئی نظر نہیں آتا، مگر تم یوسف علیہ السلام کی طرح دوڑو تو سہی، اِن شاء اللہ تمھارے دوڑتے ہی راستہ نکل آئے گا۔ جیسے یوسف علیہ السلام کے دوڑنے سے پہلے راستہ بند تھا اور ان کے دوڑتے ہی فوراً راستہ کھل گیا۔ اور اگر بالفرض تمھاری کوشش کے بعد بھی راستہ نہ ملے تو تم قصور وار نہ ہوگے۔ یہ نفع کچھ کم ہے کہ تم پر الزام نہیں دھرا جائے گاکہ تم نے کوشش ہی نہ کی۔ لیکن کام شروع کرنے سے پہلے باتیں بنانا اور یہ کہنا کہ یہ تو بہت مشکل کام ہے، کیسے کریں؟ یہ سب کم ہمتی کے بہانے ہیں۔

جب حضرت شاہ غلام رسول صاحب کانپوری اپنے شیخ کی خدمت میں بیعت کے لیے حاضر ہوئے تو انھوں نے استخارہ کے لیے فرمایا۔ تھوڑی دیر مسجد میں بیٹھ کر حاضر ہوگئے۔ پوچھا، استخارہ کرلیا؟ کہا، جی ہاں، کرلیا۔ فرمایا، تم تو بہت جلدی آگئے، تم نے کیسے استخارہ کرلیا؟ عرض کیا، حضرت، میں نے اپنے نفس سے کہا تھا کہ تو جو بیعت ہوتا ہے، یہ غلامی ہے، خواہ مخواہ اپنی آزادی کو چھوڑ کر غلامی کی قید میں کیوں پھنستا ہے؟ میرے نفس نے جواب دیا کہ اس قید سے مجھے خدا مل جائے گا۔ میں نے کہا، تیرا کیا اجارہ ہے کہ تجھے خدا مل ہی جائے گا؟ اگر نہ ملا تو؟ نفس نے جواب دیا، اگر خدا نہ بھی ملا تو اسے یہ تو معلوم ہوجائے گا کہ اس نے مجھے طلب کیا تھا۔ بس، یہی کافی ہے۔

یہ مقصود ہے۔ اللہ تعالیٰ کو طلب کی اطلاع تو یقینا ہوتی ہے، اس میں کچھ شبہ نہیں ہو ہی سکتا۔ اور یہی مقصود ہے۔ اب شیطان کو وسوسہ ڈالنے کا کوئی راستہ نہیں مل سکتا۔ لہٰذا، ہمیں بھی ذکر و طاعات سے اسی فائدے کا قصد اور نیت کرنی چاہیے کہ حق تعالیٰ کو ہماری طلب کی خبر ہوجائے۔ اب ملنے یا نہ ملنے کا اختیار ہمارے پاس نہیں ہے۔ خوب فرماتے ہیں:
        کار خود کن کار بیگانہ مکن

کہ تم اپنے کام کرو، دوسرے کی فکر میں نہ پڑو۔ طلب کرو، آگے وصال یا عدم وصال اللہ کا کام ہے۔ تم اس کے پیچھے نہ پڑو۔ شیخ نے یہ عجیب استخارہ سن کر فرمایا کہ بھائی تمھارا استخارہ سب سے بڑھ کر ہے۔ آؤ، بیعت ہوجاؤ۔

استخارہ پر ایک اور حکایت یاد آئی کہ ہمارے قریب ایک بزرگ تھے مولانا مظفر حسین صاحب۔ اپنے تقویٰ میں بے مثل تھے۔ ان سے ایک صاحب باطل نے کسی معاملے میں یہ اعتراض اہل حق کے بارے میں کیا کہ آپ کو یہ سب تگ و دو کرنے سے کیا ملا؟ تو مولانا مظفر حسین صاحب نے فرمایا، کہ کچھ نہیں ملا، مگر․․․
        سودا قمار عشق میں شیریں سے کوہ کن
        بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو کھو سکا
        کس منھ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز
        اے رو سیاہ، تجھ سے تویہ بھی نہ ہو سکا
اس لیے مقصدکے لیے ہمت اور کوشش کرنا ہی بہت بڑی کام یابی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے احکام آپ کو مشکل محسوس ہوتے ہیں، ان کی ادائیگی میں ہمت کرنی چاہیے۔ اگر اس کے بعد بھی آپ کام یاب نہ ہوں تو آپ ذمے دار نہ ٹھہریں گے۔

اس دنیا کے کاموں میں آپ کا طرزِ عمل یہی ہے کہ آپ ہمت اور سعی کرنا ہی بڑی بات سمجھتے ہیں۔ بسا اوقات کسی کا کوئی عزیز بیمار ہوا، طبیب کے بتانے پر اس کی صحت سے مایوس ہوگئے۔ لیکن اس مایوسی کے باوجود کبھی علاج معالجہ کرنا چھوڑا ہے؟ کبھی نہیں۔ عام دستور یہی ہے کہ باوجود مایوسی کے بھی علاج کے ذریعے کوشش کرنا نہیں چھوڑتے۔ آپ خود اس پر غور کرلیجیے کہ علاج معالجہ سے تن درست ہونے کی امید نہ ہو، تب بھی علاج کرتے ہیں کہ کچھ نہ کرنے سے بعد میں یہ ارمان رہ جائے گاکہ شاید ہم ایسا کرلیتے تو کچھ بہتری ہوجاتی اور صحت مل جاتی۔ البتہ، علاج میں پوری سعی کرنے کے بعد کچھ خلش باقی نہ رہے گی۔

چلیے، یہ مان لیتے ہیں کہ بعض احکام پر عمل میں کام یاب نہیں ہوسکتے، مگر آپ محض ارمان اور دل کی خلش پوری کرنے کے لیے ہی سہی، ان احکام پر عمل کرنے کی ہمت تو کرلیجیے۔ اِن شاء اللہ تعالیٰ، ہمت کے بعد معلوم ہوگا کہ سب باتیں آسان ہیں، کیوں کہ اُس وقت آپ کو اللہ تعالیٰ کی مدد کھلی آنکھوں نظر آئے گی۔ وہ قدم قدم پر آپ کا ساتھ دے گا۔

میں نے اسٹیشن ماسٹر کا جو قصہ آپ سے عرض کیا، اس وقت مجھ میں جو تھوڑی سی ہمت پیدا ہوئی اوروہی اضطراب پیدا ہوا کہ مجھ سے خلافِ شریعت کام ہوجائے گا اور اس بابو (اسٹیشن ماسٹر) سے یہ شرعی مسئلہ بیان کرنا بے کار ہے، اس لیے میں نے ہمت کرکے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ اس ہمت کا اثر یہ ہوا کہ حق تعالیٰ نے فوراً مدد فرمائی اور اس ہندو کے منھ سے وہ بات کہلوادی کہ سرکاری تیل نہ جلانا۔

صاحبو، کوئی عمل کرکے تو دیکھو!یہ جو خیال پیداہوتا ہے کہ تقویٰ اختیار کرنا تو بہت مشکل ہے۔ مگریہ مشکل عمل سے پہلے پہلے ہی ہے۔ عمل کے بعد سب آسان ہوجاتا ہے۔
        بہر کارے کہ ہمت بستہ گردد
        اگر خارے بود گلدستہ گردد
کہ جس کام کے لیے ہمت باندھ لی جائے، اگر کانٹا بھی ہے تو وہ گل دستہ بن جائے گا۔ چناں چہ ہمت کریں گے تو شرعی احکام میں احتیاط کرنا آسان ہوجائے گا۔ ہمارے سلف نے خاص کر میت کے مال کے حوالے سے بڑی احتیاط کی ہے۔ جب ایک پیسے کے تیل میں اتنی احتیاط کی گئی تو یہ چادر کفن کے اوپر ترکے کے مال میں سے ڈالنا اور وہ بھی رسم کے طور پر، کیوں کر جائز ہوسکتی ہے؟

یہی حکم جنازہ کی جائے نماز کا بھی ہے کہ وہ کفن سے خارج ہے، ترکہ میں سے نہیں ہونی چاہیے۔

ان رسوم کا ایک نتیجہ تو یہ ہوا کہ ان سے میت کے مال میں بہت سی بے احتیاطیاں ہونی لگیں۔ ان کا گناہ بہت سخت ہے۔ پھر تفاخر (غرور اور دکھلاوا) کا گناہ مزید ہوا، جو ان سب رسوم کا مقصد ہے۔ ایک اور نقصان یہ ہوا کہ جن لوگوں کو کفن کی چادر اور جائے نماز دی جاتی ہے، تیجے اور دسویں کا کھانا کھلایا جاتا ہے، ان کی ہمتیں بالکل ہی پست ہوگئیں۔ انھوں نے اسے اپنا پیشہ بنالیا اور وہ اسی انتظار میں رہتے ہیں کہ دیکھیں! آج کون مرتا ہے اور ہمیں کیا کھانا اور کپڑا ملتا ہے!!

ان رسوم کی وجہ سے ایسی نحوست ہوئی کہ دینے والوں کا بھی پٹرا کردیا اور لینے والوں کو بھی تباہ کردیا۔ اب لینے والے ایسا پست ہمت ہوئے کہ وہ کسی کے اچھا ہونے سے خوش ہوں نہ ہوں، مرنے پر خوش ضرور ہوتے ہیں۔ ایک طبیب نے مجھ سے درخواست کی کہ دعا کیجیے کہ میرا کام چل جائے۔ میں نے کہا کہ بھائی، میں تمھارے لیے دعا کروں اور مخلوق کے لیے بد دعا کروں کہ لوگ خوب بیمار ہوں، تاکہ وہ تمھارے پاس علاج کے لیے آئیں۔ کہنے لگے، بیماروں کی تو کمی نہیں، بس یہ دعا کردیجیے کہ یہ لوگ میری طرف آئیں۔ میں نے کہا، اچھا دعا کردوں گا۔

ہمارے ہاں ایک قوم ”چارج“ ہے، جو ہندوؤں کے مُردے اٹھایا کرتے ہیں۔ ایک دفعہ طاعون کے زمانے میں ہمارے ایک ملازم نے اس قوم کے ایک آدمی سے پوچھا کہ کہو جی، آج کل کیا حالت ہے؟ کہا، خوب موج چل رہی ہے۔ دنیا تو تباہ ہورہی تھی اور اس کمبخت کے ہاں موج تھی۔

اسی قوم کا ایک قصہ ہے کہ اس سے کسی نے اپنا قرض مانگا۔ اس نے وعدہ کیا کہ پرسوں ادا کردوں گا۔ اس نے پوچھا کہ پرسوں تیرے پاس کہاں سے پیسہ آجائے گا؟ کہنے لگا، فلاں مہاجن سخت بیمار ہے، آج کل کا مہمان ہے، پرسوں تک ضرور مرجائے گا۔ اس وقت میری آمدن ہوگی تو میں تجھے تیرا قرض لوٹا دوں گا۔اب بھلا بتائیے کہ جو شخص کسی کے مرنے کو بنیاد بنا کر کسی سے قرض کھا بیٹھا ہے، وہ اس کے ٹھیک ہونے کی دعا کیا خاک کرے گا۔ مُردوں کا مال کھا کھا کر ان لوگوں کی طبیعتیں بے حس اور لالچی ہوگئی ہیں۔ (جاری)

Flag Counter