Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1436ھ

ہ رسالہ

6 - 18
قتال فی سبیل الله کا فلسفہ

استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
	
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿وَلاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُم بَیْْنَکُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُواْ بِہَا إِلَی الْحُکَّامِ لِتَأْکُلُواْ فَرِیْقاً مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ، یَسْأَلُونَکَ عَنِ الأہِلَّةِ قُلْ ہِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ وَلَیْْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوْاْ الْبُیُوتَ مِن ظُہُورِہَا وَلَکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَی وَأْتُواْ الْبُیُوتَ مِنْ أَبْوَابِہَا وَاتَّقُواْ اللّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون﴾․(سورہ بقرہ، آیت:189-188)
اور نہ کھاؤ مال ایک دوسرے کا آپس میں ناحق اور نہ پہنچاؤ ان کو حاکموں تک کہ کھا جاؤ کوئی حصہ لوگوں کے مال میں سے ظلم کرکے ( ناحق) او رتم کو معلوم ہے تجھ سے پوچھتے ہیں حال نئے چاند کا ، کہ دے کہ یہ اوقات مقررہ ہیں لوگوں کے واسطے اور حج کے واسطے اور نیکی یہ نہیں کہ گھروں میں آؤ ان کی پشت کی طرف سے اور لیکن نیکی یہ ہے کہ جو کوئی ڈرے الله سے او رگھروں میں آؤ دروازوں سے اور الله سے ڈرتے رہو، تاکہ تم اپنی مراد کو پہنچو

تفسیر: ناجائز طریقوں سے ایک دوسرے کا مال کھانا
آیت میں حرام مال کھانے کی ممانعت ہے، چوری ، ڈاکہ، سود، قمار، رشوت، جھوٹ، دھوکہ اورخلافِ شریعت لین دین کرکے اور ناجائز ظالمانہ ٹیکس کے ذریعے ایک دوسرے کا مال ہتھیانا، سب اسی ممانعت میں داخل ہے۔

کسی کا مال ہتھیانے کے لیے حاکم کے پاس کوئی جھوٹا مقدمہ لے جانا بھی حرام ہے، اگر کوئی شخص اپنی چرب زبانی سے عدالت میں اپنے حق میں فیصلہ کراکے کسی کا مال ہتھیا لیتا ہے، تو اس عدالتی فیصلے سے وہ مال اس کے لیے حلال نہیں ہو گا۔ چناں چہ فقہاء فرماتے ہیں ایسا فیصلہ ظاہراً تو نافذ ہو جائے گا، لیکن باطناً نافذ نہیں ہو گا۔ (البحرالرائق:6/445)

چاند کے بڑھنے گھٹنے کی حکمت
﴿یَسْئَلُونَکَ عَنِ الأہِلَّة﴾کسی نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے چاند کے گھٹنے بڑھنے کی حکمت اوراس کے فائدے کے متعلق سوال کیا تھا، اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ لوگ آپ سے چاندکے گھٹنے بڑھنے کی حکمت سے متعلق پوچھتے ہیں۔ آپ فرما دیجیے کہ یہ لوگوں کے لیے وقت معلوم کرنے کا آلہ ہے، خواہ وقت معاملات سے متعلق ہو یا عبادات سے متعلق ہو۔

معاملات یعنی بیوع ودیون وغیرہ او رعبادات ، روزہ، زکوٰة او رحج وعمرہ حساب قمری کے ساتھ ہی خاص ہیں ۔ قسم اول میں تو شمسی تقویم بھی کار آمد ہو سکتی ہے، لیکن عبادات میں تقویم قمری ہی معتبر ہے ،اسی وجہ سے اس کا محفوظ رکھنا مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے او رچوں کہ اسے محفوظ رکھنے کے لیے روزمرہ کے معاملات میں اس کا استعمال خوب معاون ہے، لہٰذا تقویم شمسی کے مقابلے میں تقویم قمری کا استعمال بہتر ہے،البتہ تقویم شمسی کا استعمال بھی جائز ہے۔ علاوہ ازیں تقویم قمری کو دو باتوں کی وجہ سے تقویم شمسی پر فوقیت حاصل ہے۔

ایک تو یہ کہ ہمارے اسلاف اسی تقویم کو استعمال کیا کرتے تھے، لہٰذا استعمال کرنا ہمارے لیے اتباع سلف کی وجہ سے باعث تبرک ضرور ہو گا۔

اور دوسری بات یہ کہ چاند کا روزانہگھٹنا بڑھنا ہر انسان پر واضح ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ہر انسان کے لیے تاریخ کا انداز کرنا انتہائی سہل ہوتا ہے ، جب کہ سورج کا یہ معاملہ نہیں وہ ایک ہی حالت پر رہتا ہے لہٰذا اسے دیکھ کر تاریخ کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ۔

﴿وَلَیْْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوْاْ الْبُیُوت﴾ مشرکین جب حج وعمرہ وغیرہ کا احرام باندھ لیتے تو اپنے گھروں میں دروازے سے داخل ہونا برا خیال کرتے تھے لہٰذاجب کوئی شخص حالت احرام میں گھر میں داخل ہونا چاہتا تو گھر کی پشت سے نقب لگا کر داخل ہوتا تھا، اس عمل کو وہ نیکی شمار کیا کرتے تھے۔

آیت میں مشرکین کی اسی اعتقادی غلطی کی اصلاح کی گئی ہے کہ گھروں میں پشت کی جانب سے داخل ہونا نیکی نہیں ،بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرے اور حکم فرمایا گیا کہ گھروں میں معمول کے موافق دروازوں سے آیا کرو۔گھر میں دروازے سے داخل ہونا امر مباح ہے، اسی طرح گھر کی پشت کی جانب سے داخل ہونا بھی امر مباح ہے ،لیکن قریش نے پہلی صورت کو حرام اور دوسری صورت کو لازم قرار دیا تھا، حق تعالیٰ شانہ نے ان کے اعتقاد کی نفی شناعت کے انداز میں ظاہر فرمائی۔

اس سے معلوم ہوا کہ کسی مباح فعل کو اپنی طرف سے لازمی بنا لینا یا اپنے اوپر حرام کر لینا بدعت اور واجب الترک ہے اوراسی سے ان ہزاروں بدعات کا حکم بھی معلوم ہو گیا جو ہمارے زمانے میں مروّج ہیں۔

﴿وَقَاتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّہَ لاَ یُحِبِّ الْمُعْتَدِیْنَ، وَاقْتُلُوہُمْ حَیْْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ وَأَخْرِجُوہُم مِّنْ حَیْْثُ أَخْرَجُوکُمْ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلاَ تُقَاتِلُوہُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّی یُقَاتِلُوکُمْ فِیْہِ فَإِن قَاتَلُوکُمْ فَاقْتُلُوہُمْ کَذَلِکَ جَزَاء الْکَافِرِیْنَ، فَإِنِ انتَہَوْاْ فَإِنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ ، وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ لِلّہِ فَإِنِ انتَہَواْ فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَی الظَّالِمِیْن﴾․ (سورہ بقرہ، آیت:193-190)
اور لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو لڑتے ہیں تم سے اور کسی پر زیادتی مت کرو،بے شک اللہ تعالیٰ ناپسند کرتاہے زیادتی کرنے والوں کواور مار ڈالو ان کو جس جگہ پاؤ اور نکال دو ان کو جہاں سے انھوں نے تم کو نکالا اور دین سے بچلانا مار ڈالنے سے بھی زیادہ سخت ہے اور نہ لڑو ان سے مسجد الحرام کے پاس، جب تک کہ وہ نہ لڑیں تم سے اس جگہ، پھر اگر وہ خود ہی لڑیں تم سے تو ان کو مارو، یہی ہے سزا کافروں کیپھر اگر وہ باز آئیں توبے شک اللہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہےاور لڑو ان سے یہاں تک کہ نہ باقی رہے فساد اور حکم رہے خداتعالیٰ ہی کا،پھر اگر وہ باز آئیں تو کسی پر زیادتی نہیں، مگر ظالموں پر

ربط:علامہ رازی رحمہ الله اس آیت کا ربط بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں، گزشتہ آیات میں مسلمانوں کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا، ان آیات میں تقوے کی سب سے اعلیٰ قسم جو نفس پر انتہائی شاق گزرتی ہے، اسے بیان کیا جارہا ہے ،وہ ہے الله کی راہ میں الله تعالیٰ کے دشمنوں کو قتل کرنا، اس لیے حکم دیا جارہا ہے الله کی راہ میں قتال کرو۔(التفسیر الکبیر، البقرہ، ذیل آیت:190)

شان نزول
ذوالقعدہ 6ھ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کے قصد سے اپنے ہم را ہ مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت لے کر نکلے،لیکن مشرکین مکہ(جو اس وقت تک مکہ پر قابض تھے)نے مسلمانوں کو عمرہ کی ادائیگی سے روک دیا اور جنگ کے لیے آمادہ ہوگئے۔بالآخر معاہدہ کے ذریعے طے پاگیا کہ اس سال مسلمان بغیر عمرہ کیے واپس مدینہ چلے جائیں گے اور آئندہ سال آکر عمرہ کریں گے۔

پھر جب ذوالقعدہ 7ھ میں معاہدہ کی رو سے مسلمان عمرے کی غرض سے مکہ مکرمہ جانے لگے تو یہ خوف لاحق ہوا کہ اگر کفار مکہ اس سال معاہدے کا پاس نہ رکھتے ہوئے آمادہ پیکار ہوگئے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اگر قتال کریں تو محترم مہینے یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب کی بے حرمتی اور حدود حرم کی بے حرمتی لازم آئے گی ہے۔ اور اگر قتال کا جواب قتال سے نہ دیں تو یہ خلاف حکمت ہو گا، مسلمانوں کی اس پریشانی میں الله تعالیٰ کا یہ حکم نازل ہوا۔

تفسیر: الله کی راہ میں قتال کرنے کا حکم
وَقَاتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ :یعنی لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو تم سے لڑیں اور حد سے تجاوز نہ کرو۔

اس آیت میں مسلمانوں کو اجازت دی گئی کہ اگر مشرکین محترم مہینوں کی حرمت پامال کرتے ہوئے تم سے جنگ کریں تو تم بھی ان سے لڑو، لیکن تمہاری یہ لڑائی اغراض نفسانیہ کے لیے نہیں، بلکہ خالص رضائے الہٰی کے لیے ہونی چاہیے اور ا س کا بھی خاص خیال رکھو کہ تم حد سے تجاوز نہ کرو۔

حد سے تجاوز کرنے کا مفہوم اکثر مفسرین کے نزدیک یہ ہے کہ جو لڑائی میں شریک ہو اسی سے لڑو اور جو لڑائی سے الگ تھلگ ہو اس سے مت لڑو۔ یعنی راہبوں،(جو جنگ سے کنارہ کش رہتے ہیں)بچوں ،عورتوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرو، کیوں کہ وہ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، جنگ کی اطلاع کیے بغیر حملہ نہ کرو، لاشوں کا مثلہ نہ کرو، بغیر کسی جنگی مصلحت کے درختوں کو نہ جلاؤ، حیوانات کو قتل مت کرو، مال غنیمت میں خیانت مت کرو، عہد شکنی نہ کرو۔ عورتیں ، بچے، بوڑھے اگر لڑائی میں شریک ہوں یا لشکریوں کو لڑائی پر ابھارتے ہوں اور اپنے لشکر کو فرار پر عار دلاتے ہوں تو ان کا قتل بھی جائز ہے۔ (احکام القرآن للقرطبی البقرہ ذیل آیت:190) بعض مفسرین نے ”وَلاَ تَعْتَدُواْ“ کی تفسیر ان الفاظ میں کی ہے۔ صرف رضائے الہی کے لیے لڑو، قومیت، عصبیت اور شہرت کے لیے نہ لڑو۔ (ایضاً) بعض متقدمین نے اس آیت کو جہاد کی اجازت پر نازل ہونے والی پہلی آیت قرار دیا ہے (تفسیر ابن کثیر، البقرہ، ذیل آیت:190) لیکن جمہور علماء کے نزدیک اجازت قتال کی پہلی آیت سورة حج کی آیت نمبر(39) ہے۔

کفار سے قتال کرنا عقل سلیم کا تقاضا ہے
بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز کا خالق ومالک الله تعالی کی ذات ہے، بادشاہی صرف اسی کی ہے، حکم صرف اسی کا چلتا ہے، کائنات کا ذرہ ذرہ خوشی ناخوشی اسی کے حکم کے سامنے نیاز جبین جھکائے ہوئے ہے ،تاہم الله تعالیٰ نے انس وجن کو اپنے احکام کا مکلف بنانے کے بعد بطور امتحان تصدیق وتکذیب کا اختیار بھی دے رکھا ہے، تصدیق کرنے والے اہل ایمان کہلاتے ہیں ، تکذیب کرنے والے اہل کفر کہلاتے ہیں ۔ اہل ایمان اپنے خالق ومالک کی بادشاہی کو صدق دل سے تسلیم کرتے ہیں، اس کے احکام بجا لاتے ہیں ،اس لیے اہل ایمان اس کائنات کے حقیقی بادشاہ کا وفادار گروہ ہے۔

کفار اپنے خالق ومالک کے احکام کو خاطر میں نہ لا کر آمادہ بغاوت رہتے ہیں ۔ اس لیے یہ غدار اور باغیوں کا گروہ ہے۔ اپنے حقیقی آقا اور بادشاہ بلکہ اپنے خالق ومالک کی غدار ی کرنے والے مجازی بادشاہ کی بغاوت کرنے والوں سے زیادہ مستوجب سزا ہیں۔ دنیا کے مجازی بادشاہ تو اپنے باغیوں سے زندگی کا حق بھی چھین لیتے ہیں ،لیکن الله تعالیٰ کی رحمت عامہ نے ان کے کفر کے حقیقی عذاب کو آخرت پر چھوڑ کر دنیا میں اپنے وفادار گروہ مسلمانوں کے ماتحت زندگی گزارنے اور اپنی نعمتوں سے مستفید ہونے کا حق دیا ہے۔ اگر کفار مسلمانوں سے امان لے کر زندگی نہ گزاریں تو پھر ان کے خون کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، چناں چہ فقہائے کرام نے یہ شرعی قاعدہ بیان فرمایا ہے”لِاَنّ دَم الکافرِ لاَ یَتقوّم إلاّ بالْاَ مَانِ“ ․(۱الدر المختار:4/803)

امام شافعی رحمہ الله تعالی کتاب الُامّ میں لکھتے ہیں:
الله تبارک وتعالی نے مؤمن کا خون او رمال حرام کیا ہے، سوائے اس صورت میں کہ وہ مرتد ہو جائے او رکافر کا خون او رمال مباح رکھا ہے، سوائے اس صورت میں کہ وہ جزیہ ادا کرے، یا کچھ مدت کے لیے مسلمانوں سے امان حاصل کر لے۔ ( کتاب الُامّ:1/301)

بلکہ تمام فقہاء نے اس قاعدے کو اپنی فقہی کتب میں بیان کیا ہے۔(دیکھیے،المغنی7/651، کشف القناع5/585، مطالب اولی النّھی 6/280، فتح القدیر4/278)

امان کی تین صورتیں ہیں
1... ذمّی بننا: مسلمانوں کے امیر کو سالانہ مخصوص رقم دے کر اسلامی ملک میں رہائش اختیار کرنا۔ اس کے بدلے میں ذمی کی جان ومال کی حفاظت مسلمانوں کے ذمے ہوجاتی ہے۔
2... مستامن: مسلمان کسی کافر کو کچھ مدت کے لیے پناہ دے۔ اس سے بھی کافر کی جان ومال محفوظ ہو جاتا ہے۔
3... دارالاسلام کا کسی دار الحرب سے دس سال یا اس سے کم مدّت تک کے لیے صلح کا معاہدہ ہو جائے ،اس صورت میں بھی کفارکو امان حاصل ہو جاتی ہے ۔

قتال فی سبیل الله کا فلسفہ
اسلام ایک کامل دین ہے، نظام حیات ہے، جو پوری کائنات کے انس وجن کی تا قیامت راہ نمائی کے لیے نازل کیا گیا ہے، چوں کہ اس کے مخاطب ہر زمان ومکان کے انسان ہیں او راس کی فطری دعوت سے ہر سلیم الفطرت انسان متاثر ہوتا ہے، اس لیے عالم کفر اس کو پھیلتا پھولتا ہوا نہیں دیکھ سکتا، جہاں کہیں اسلام کی روشنی پھوٹتی ہے، وہاں ظلمتوں کے رکھوالے فوراً متحرک ہو جاتے ہیں۔آزادی رائے اور آزادی عمل کے علم برداروں کو داڑھی، نماز، برقعے، مساجد اور ان کے مینار بھی ناگوار گزرتے ہیں۔ کفار کی اسی ذہنیت کا پردہ چاک کرتے ہوئے الله تعالیٰ نے اہل ایمان کو چودہ سو سال پہلے متنبہ فرما دیا ہے:﴿وَلاَ یَزَالُونَ یُقَاتِلُونَکُمْ حَتَّیَ یَرُدُّوکُمْ عَن دِیْنِکُمْ إِنِ اسْتَطَاعُواْ﴾․ (البقرہ:217) اور کفار ہمیشہ تم سے لڑتے ہی رہیں گے ،یہاں تک کہ تم کو پھیر دیں تمہارے دین سے اگر قابو پاویں) چوں کہ یہ امت گم راہی پر جمع نہیں ہو سکتی، اس لیے نہ یہ امت من حیث المجموع ارتداد اختیار کرے گی اور نہ ہی کفار جنگ وجدال ترک کریں گے ، کفار کے غلبے کو ملیا میٹ کرکے ان کے جارحانہ اعمال سے امّت مسلمہ کو محفوظ رکھنے کا راز اقدام میں مضمر ہے۔

اقدامی جہاد اور دفاعی جہاد
اقدامی جہاد، یعنی از خود جنگ کی ابتدا کرتے ہوئے کافروں کے علاقوں پر حملہ کرنا، یہ فرض کفایہ ہے۔
علامہ شامی رحمہ الله فرماتے ہیں: ”مسلمانوں کے امام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سال میں ایک دفعہ یا دودفعہ دارالحرب کی طرف لشکر بھیجے اور رعایا کافریضہ ہے اس سلسلے میں امام کا تعاون کرے، اگر امام کوئی لشکر نہیں بھیجتا تو اس کا گناہ امام پر پڑے گا۔“ (ردّالمحتار:3/138)

دفاعی جہاد
اس سے مراد کفار کو مسلمانوں کی مقبوضہ سر زمین سے نکالنے کے لیے جہاد کرنا ہے ۔ یہ جہاد فرض عین ہے ۔ چناں چہ علامہ شامی رحمہ الله فرماتے ہیں:
اگر دشمن اسلامی سرحد پر حملہ آور ہو جائے تو وہاں کے لوگوں پر جہاد فرض عین ہو جاتا ہے ، اسی طرح اس کے قرب جوار کے مسلمانوں پر بھی جہاد فرض عین ہو جاتا ہے ، البتہ جو لوگ ان سے فاصلے پر دشمنوں سے دور رہتے ہوں، جب تک ان کی ضرورت نہ پڑے، مثلاً مقامی مسلمان دشمن کے سامنے بے بس ہو جائیں، یا سستی کی وجہ سے جہاد کے لیے اٹھ کھڑے نہ ہوں تو اس صورت میں اس علاقے کے قرب وجوار کے لوگوں پر جہاد نماز اور روزے کی طرح فرض عین ہو جاتا ہے، پھر اس کا دائرہ اس کے بعد والے علاقوں تک حسب ضرورت پھیلتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ اسی طرح سے مشرق ومغرب میں رہنے والے ہر مسلمان پر جہاد فرض عین ہو جاتا ہے۔“ (رد المحتار3/238)

وَاقْتُلُوہُمْ حَیْْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ
گزشتہ آیت میں قتال کی اجازت دے کراب حکم دیا جارہا ہے کہ مشرکین سے حرم میں بھی قتال کرو۔ (التفسیر الکبیر، البقرہ، ذیل آیت:191)

پھرجہاں ان کو پاؤ قتل کرو اور سرزمین حرم سے بھی انہیں نکال باہر کرو ،جیساکہ انھوں نے تمہیں ہجرت پر مجبور کیا تھا ،کیوں کہ یہ لوگ الله کی بندگی سے روکنے اور شرک جیسے فتنے میں ملوّث ہیں،پس کفار کا زور آور ہونا، طاقت ور ہونا، تمہارا انہیں قتل کرنے اور جلا وطن کرنے سے زیادہ مضر ہے۔ لہٰذایہ مت سوچو کہ قتل کرنا اتنی بڑی بات ہے، اشہر حرم میں کیسے کریں؟

حرم میں قتال کی اجازت تب ہے جب یہ حرم میں پہل کریں، یا حرم سے باہر نکلنے پر آمادہ نہ ہوں۔ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ الله تعالی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

کفار کے ساتھ جب کہ شرائط جواز کے پائے جائیں ابتداءً قتال ( یعنی اقدامی جہاد) شروع کرنا درست ہے ۔

جزیرہ عرب کے اندر جس میں حرم بھی آگیا، کفار کو وطن بنانے کی اجازت نہیں، اگر بزور رہنا چاہیں تو غیر حرم میں تو قتال کرکے بھی دفع کرنا جائز ہے۔

جمہور ائمہ دین کا اجماع ہے کہ”اشھر حرم“ ( محرم، رجب ، ذوالقعدہ، ذوالحجہ) میں قتال جائز ہے اور جن آیات سے ممانعت معلوم ہوتی ہے وہ منسوخ ہیں، لیکن افضل اب بھی یہی کہ ” اشھر حرم“ میں ابتدا بالقتال نہ کرے۔

کفار عرب اگر اسلام نہ لاویں تو ان کے لیے صرف قتل کا قانون ہے، اگر وہ جزیہ دینا چاہیں تو نہ لیاجاوے گا۔ (بیان القرآن، البقرة، ذیل آیت:191)

﴿فَإِنِ انتَہَوْاْ فَإِنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ﴾ اگر کفار شرک وکفر سے باز آجائیں او رایمان قبول کر لیں تو ان کے سابقہ کرتوتوں کو نظر انداز کیا جائے گا، ان کے قبول ایمان کی قدر کی جائے گی”انتَہَوْاْ“ جنگ سے باز آجانا کافی نہیں، بلکہ کفر وشرک سے باز آجائیں تب مغفرت ورحمت کے مستحق ہوں گے۔

جہاد کا حکم تا قیامت باقی ہے
﴿وَقَاتِلُواہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَةٌ﴾ چوں کہ جزیرہ عرب کے بارے میں یہ مقرر ہو چکا کہ یہ تمام عالم اسلام کا محور و مرکز ہوگا، اب یہاں سجدہ کیا جائے گا تو صرف حاکم اعلیٰ ہی کو،پکارا جائے گا تو صرف رب لا شریک ہی کو ، اگر کوئی کلمہ پڑھا جائے گا تو وہ صرف اسلام ہی کا پڑھا جائے گا۔لہٰذا اب یہ خطہ شرک و کفر کی غلاظت کا متحمل نہیں ہو سکتا ،پس کفار سے لڑو یہاں تک کہ شرک ان علاقوں میں نہ رہے اور دین صرف اللہ کا رہے۔(کذافی روح المعانی :البقرة:193)

چناں چہ کفار عرب کے لیے دو ہی راستے رہ گئے تھے یا تو وہ اپنے کفر و شرک سے باز آکر قبول اسلام کی راہ اپنائیں ،اس صورت میں ان پر اسلام کی طرف سے کوئی سختی نہیں، بلکہ وہ بھی دوسرے مسلمانوں کے بھائی ہیں،یا پھرمقتول ہونا پسند کریں ۔تیسرا راستہ(یعنی اپنے کفر و شرک پر قائم رہتے ہوئے اسلامی حکومت کو جزیہ ادا کرکے مسلمانوں کی ماتحتی میں بھی رہنے کی اجازت نہیں ہے) یہ حکم مشرکین عرب کے ساتھ مخصوص ہے۔

”وَاقْتُلُوہُمْ“ میں ”ہُمْ“ کی ضمیر کس کی طرف راجع ہے ؟اس سے مطلق کفار بھی مراد ہو سکتے ہیں، مشرکین عرب بھی۔ تابعین کی اکثریت اور فقہائے احناف نے اس ضمیر کا مرجع مشرکین کو قرار دیا کہ ان کے لیے اسلام قبول کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ۔ اگر اسلام قبول نہیں کرتے تو پھر جزیرہ عرب میں شرک کے خاتمے تک ان سے قتال کرو ۔ اس صورت میں”فِتْنَة“ سے شرک مراد ہو گا۔

علامہ قرطبی رحمہ الله نے سورة انفال کی آیت :﴿وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَتَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّیْن لِلّہِ﴾․ (انفال:39) کی طرح اس آیت میں بھی ”ھم“ سے مطلق کفار مراد لیے ہیں۔ سورة انفال کی مذکورہ آیت میں مطلق کفار سے قتال کے حکم سے علامہ جصاص رحمہ الله نے ہر قسم کے کافروں سے قتال کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے۔ (احکام القرآن للجصاص، الانفال ذیل آیت:39) اس صورت میں”فِتْنَة“ سے کفار کا غلبہ، ان کی شان وشوکت مراد ہو گی، یعنی کفار کی شان وشوکت توڑنے تک ان سے قتال جاری رکھو، کیوں کہ کفار کی شان وشوکت، ایک عظیم فساد ہے اور دنیا کو فساد سے پاک کرنا اسلام کا مقصد ہے۔

لیکن علامہ آلوسی رحمہ الله اس صورت میں ایک اور توجیہ پیش کرتے ہیں کہ ”ھم“ کی ضمیر کا مرجع عام کفار ہیں اور ”فِتْنَة“ سے کفرو شرک ہی مراد ہے، دنیا سے شرک وکفر حضرت مہدی  عليه السلام کے ظہور کے بعد ختم ہو گا۔ لہٰذا آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ ظہور مہدی تک کفار سے قتال جاری رکھو۔ (روح المعانی، الانفال: ذیل آیت39)

﴿الشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدَی عَلَیْْکُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَیْْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَی عَلَیْْکُمْ وَاتَّقُواْ اللّہَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ،وَأَنفِقُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَلاَ تُلْقُواْ بِأَیْْدِیْکُمْ إِلَی التَّہْلُکَةِ وَأَحْسِنُوَاْ إِنَّ اللّہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْن﴾․(سورہ بقرہ، آیت195-941)

حرمت والا مہینہ بدلہ (مقابل) ہے حرمت والے مہینے کا اور ادب رکھنے میں بدلہ ہے، پھر جس نے تم پر زیادتی کی تم اس پر زیادتی کرو جیسی اس نے زیادتی کی تم پر اور ڈرتے رہو الله سے اور جان لو کہ الله ساتھ ہے پرہیز گاروں کے اور خرچ کرو الله کی راہ میں اور نہ ڈالو اپنی جان کو ہلاکت میں اور نیکی کرو، بے شک الله دوست رکھتا ہے نیکی کرنے والوں کو

تفسیر
﴿الشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَام﴾یعنی حرمت والے مہینے بدلہ ہیں، ان حرمت والے مہینوں کا جو حدیبیہ کے سال گذر چکے، ان مہینوں میں کفار نے ان کی حرمت کوپامال کیا اور جنگ کے لیے کھڑے ہو گئے تھے،لہٰذا ان کے بدلے مسلمانو! تم بھی اس سال ان مہینوں کی حرمت کا خیال لا کر مت گھبرانا بلکہ انہیں لڑائی کا پورا پورا جو اب دینا، یہ حرمتیں تو عوض اورادلا بدلا کی چیزیں ہیں ۔اگر فریق مخالف (کفار)ان کا احترام کرتے ہوئے جنگ بندی کریں تو تم بھی ایسا کرو، ورنہ انہیں منھ توڑ جواب دینے میں کسی قسم کا تامل نہ کرو۔یعنی اگر وہ تم پر زیادتی کریں تو تم بھی ان پر اسی طرح زیادتی کرو جیسی انھوں نے کی اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ اللہ متقی لوگوں کے ساتھ ہے۔

قتال فی سبیل الله کے لیے مال بھی خرچ کرو
﴿وَأَنفِقُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ﴾ جہاد و قتال کے ذکر کے بعد مناسب تھا کہ مسلمانوں کو اس عمل میں خرچ کرنے پر ابھارا جائے، کیوں کہ یہ جہاد ہی ایک ایسا فریضہ ہے، جس کے ذریعے دین اسلام کا دفاع ممکن ہے، لہٰذا فرمایا اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور انفاق مال سے کنارہ کشی اختیار کر کے خود کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں مت ڈالو، کیوں کہ بظاہر تو خرچ کرنے سے کنارہ کشی میں مال محفوظ نظر آتا ہے، لیکن اس کا نتیجہ ہلاکت ہے، اس لیے کہ اگر مجاہدین کو خرچ نہ ملا تو وہ کمزور ہوں گے ،ان کی کمزوری کی وجہ سے کفار ان پر اور پھر تمام بلاد اسلامیہ پر چڑھ دوڑیں گے اور فساد پھیلا ئیں گے، پس یہ ہلاکت قتال فی سبیل الله میں مال خرچ نہ کرنے کی وجہ سے پیش آئے گی۔

جہاد سے متعلق چنداحکام
ابتداء بالقتال:کفار کے ساتھ ابتداًقتال شروع کرنا درست ہے، بشرطیکہ جواز کی شرائط پائی جائیں اور شرائط جواز کتب فقہ میں بالتفصیل مذکور ہیں۔ آیت میں جو ابتداءً قتال شروع کرنے کی ممانعت ہے وہ صرف اس وقت پیش آمدہ خاص حالات کی وجہ سے ہے کہ اس وقت مسلمان صرف عمرہ کرنے جارہے تھے، حرمت والے مہینے تھے اور کفار کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ بھی تھا۔

لہٰذا معاہدہ کی حالت میں اب بھی ابتدائے قتال درست نہیں، ہاں! اگر کسی خاص مصلحت کی وجہ سے معاہدہ برقرا رکھنا درست معلوم نہ ہو تو صاف اطلاع کی جائے کہ ہم وہ معاہدہ برقرارنہیں رکھتے، پھر قتال جائز ہے۔اور اگر کفار خود ہی معاہدہ کا پاس نہ رکھتے ہوئے معاہدہ توڑ ڈالیں تب بھی ان سے قتال درست ہے۔چناں چہ جب کفار مکہ نے اس عہد کو توڑ ڈالا تو ان سے قتال کیا گیا، یہاں تک کہ مکہ فتح ہو کر دارالاسلام ہوگیا۔ (مأخوذاز بیان القرآن :البقرہ:190)

جزیرہ عرب میں کفار کی رہائش
جزیرہ عرب، جس میں حرم بھی داخل ہے، میں کفار( یہود ونصاری، دہریے اور مشرکین) کو وطن بنانے کی اجازت نہیں اور اگر زبر دستی وہاں قیام کریں تو قتال کر کے انہیں وہا ں سے نکالنالازمی ہے، یہ تو جب ہے کہ وہ حرم سے باہر ہوں۔ (کذافی ردّالمحتار:مطلب فی احکام الکنائس والبیع:دارالفکر بیروت 41/2)

لیکن اگر کافر یا کوئی مجرم حرم میں ہو تو اولاً ان سے قتال نہ کیا جائے، بلکہ بغیر قتال کے کوئی تدبیر ایسی اختیار کی جائے کہ وہ خود حرم سے نکل آئیں، پھر انہیں گرفتار یاقتل کیا جائے ،لیکن اگر وہ اس طرح نہ نکلیں اور آمادہ قتال ہو جائیں تو اس وقت ان سے قتال کرنا بھی جائزہے۔(کذافی الدُر المختار:کتاب الحج، 9/165) اور آیت میں جوجزیرہ عرب میں رہائش پذیر کفار سے ابتدائے قتال کی ممانعت ہے، یہ اس حکم سے پہلے کا ہے، کیوں کہ کفار کو جزیرہ عرب سے نکالنے کا حکم بعد میں نازل ہوا۔

کفارِ عرب اگر اسلام قبول نہ کریں تو انہیں صرف قتل کیا جائے گا، اگروہ جزیہ دینا چاہیں تب بھی ان سے نہیں لیا جائے گا۔(کمافی رد المحتار:مطلب:بیان معنی الغنیمة والفیٴ 4/139 ،دارالفکر بیروت)

Flag Counter