کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
تنخواہ سے کٹوتی
سوال…1..بندہ ایک ادارے میں بحیثیت معلم تعینات ہے، تعیناتی سے قبل ادارے والوں نے ایک تقرر نامہ پڑھنے کے لیے دیا، جس میں یہ شرط مذکور ہے، کہ اگر معلم پورے ماہ کے اندر پانچ بار، پانچ پانچ منٹ (یعنی25) منٹ تاخیر سے آئے، تو ان 25 منٹوں کے بدلے آپ کی ماہانہ تنخواہ سے پورے ایک یوم کی تنخواہ کٹوتی کی جائے گی، اب یہی معلم اگر پورے ماہ میں ایک ہی بار میں 25 منٹ تاخیر سے آئے اور دوسرا معلم ماہ کے اندر پانچ بار25,25 منٹ تاخیر سے آئے، ادارے والوں کی نظر میں دونوں معلم برابر ہیں، اب شرعاً ان کے لیے اس طرح برابری کرنا جائز ہے؟ ان کو صرف پچیس منٹ کی کٹوتی کرنی چاہیے یا پورے ایک یوم کی کرنی چاہیے؟
2.. ادارے والے بوقتِ تقرر معلم سے اس بات کی بالکل تصریح نہیں کرتے کہ ابتدائی چھ ماہ تک کسی قسم کی ( خواہ وہ رخصت عذر شرعی پر مبنی ہو) رخصت قابل قبول نہ ہو گی، اب معلم کو دوران تدریس کوئی عذرِ شرعی پیش آیااور اس نے رخصت لکھ کر ادارے والوں کو دی، اور ناظمِ تعلیمات نے اس پر سائن کر دیا، لیکن ماہ کے اخیر میں تنخواہ دیتے وقت ایک یوم کی کٹوتی کرتے ہیں، پوچھنے پر بتا دیا جاتا ہے کہ کٹوتی اس وجہ سے کی کہ آپ نے رخصت لی تھی شرعاً ان کا اس طرح کرنا کیسا ہے؟
3.. ایک معلم پانچ منٹ تاخیر سے آرہا ہے اور دوسرا تیسرا معلم 20 منٹ اور نصف گھنٹہ تاخیر سے آرہا ہے، لیکن ماہ کے اخیر میں تنخواہ دیتے وقت ادارے والے تینوں معلمین میں برابری کرتے ہوئے ایک یوم کی تنخواہ کی کٹوتی کرتے ہیں۔
4.. ادارے والے معلم کی تقرری کے وقت اس بات کی واضح تصریح کرتے ہیں کہ ہم آپ کو ماہانہ8000 ہزار روپے تنخواہ دیں گے، لیکن جب مہینہ پورا ہوتا ہے تو آٹھ ہزار روپے کو دنوں کے تناسب پر تقسیم کرتے ہوئے تنخواہ دیتے ہیں، بالفرض اگر ماہ 29، 30،31 کا ہو تو تنخواہ بھی اسی تناسب سے دیتے ہیں، شرعاً یہ طریقہ کیسا ہے؟
جواب…1.. صورت مسئولہ میں معلم نے جتنی مدت ( چاہے پانچ منٹ ہو یا پچیس منٹ ، ایک بار ہو یا بار بار) اپنے مقررہ وقت سے تاخیر کی ہے ، اسی تناسب سے ادارے والے شرعاً اس کی تنخواہ سے کٹوتی کر سکتے ہیں، لیکن پورے دن کی کٹوتی کرنا جائز نہیں ہے۔
2.. ادارے والوں کو اختیار ہے، چاہے معلم کو ایام رخصت ( خواہ رخصت بیماری کے سبب سے ہو یا اتفاقی ہو ، عذر ہو یا نہ ہو ) کی تنخواہ دیں یا نہ دیں، کیوں کہ تنخواہ حاضری اور کام کرنے کے عوض میں ملتی ہے، اگرچہ رخصت اپنی رضا مندی سے کیوں نہ دی ہو، البتہ رخصت کے دن کی تنخواہ دینا ادارے کی طرف سے تبرع اور احسان ہے۔
3.. تینوں میں اس طرح برابری کرنا درست نہیں ، بلکہ ہر ایک کی تنخواہ سے اس کی تاخیر کے تناسب سے کٹوتی کی جائے۔
4.. معلم کی تقرری کے وقت ادارے والوں نے جب ماہانہ8000 روپے تنخواہ دینے کی تصریح کی ہے، تو پھر آخر میں دنوں کے تناسب سے تنخواہ دینا درست نہیں، بلکہ معلم کو مہینے کے اعتبار سے چاہے وہ28 کا ہو یا31 کا، پوری تنخواہ 8000 ہزار روپے دینا ضروری ہے، ایک دن کم یا زیادہ ہونے کا اعتبار نہیں ہے، البتہ اگر یومیہ اجرت مقررکردی جائے تو پھر دنوں کے تناسب سے تنخواہ دینا درست ہے۔
شناختی کارڈ پر اپنے آپ کو غیر مسلم لکھوانا
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں کہ ہم ملک برما کے باشندے ہیں، ہمارے یہاں حکومت کافروں کے زیر دست ہے اور یہاں کے قانون کے مطابق جب لوگ شناختی کارڈ بنواتے ہیں تو اس شناختی کارڈ میں اپنا دین ومذہب بھی لکھوانا پڑتا ہے، مگر مسلمانوں کے اس مذہب کے خانے میں اسلام لکھوانا بسا اوقات بہت سی مشکلات کا سبب بنتا ہے، اور بسا اوقات شناختی کارڈ تک نہیں مل سکتا اور بسا اوقات پیسے بہت زیادہ وصول کیے جاتے ہیں اور بسا اوقات بآسانی مل بھی جاتا ہے ،پھر اس حالت میں مذہبی خانے میں غیر مسلم لکھوانے کے متعلق مندرجہ ذیل صورتیں پائی جاتی ہیں:
1.. زید نے اپنی مرضی او راختیار سے مذہبی خانے میں غیر مسلم لکھوا دیا تاکہ مذکورہ بالا مشکلات کا شکار نہ بنے، معلوم ہونے کے باوجود کہ ایسا لکھوانا شرعاً ممنوع او ربڑا گنا ہ ہے۔
2.. زید کی مرضی او راختیار کے بغیر آفس کے ارکان نے مذہبی خانے میں غیر مسلم لکھ دیا اور زید نے تبدیل کروانے کی کافی کوشش کی مگر انہوں نے تبدیل نہیں کیا بالآخر زید نے اس پرد ستخط کردیے۔
3.. زید نے اپنی مرضی سے غیر مسلم لکھوا دیا، لیکن اس کو مسئلہ معلوم نہیں تھا کہ ایسا لکھوانا منع ہے، مگر جب مسئلہ معلوم ہوا تو تبدیل کروانے کی بہت کوشش کی ، لیکن نہیں ہو سکا۔
4.. زید کی مرضی اور اختیار کے بغیر آفس کے ارکان نے مذہبی خانے میں غیر مسلم لکھ دیا او رزید نے اپنی مرضی او راختیار سے اس پر دستخط کردیے۔
5.. کسی کافر کو کفر کی حالت میں کافر لکھوایا، بعد میں مسلمان ہوا تو تبدیلی کروانا بھی مشکل ہے، تو اس صورت میں زید کیا کرے۔
مذکورہ بالا صورت میں سے کس صورت میں زید خارج از اسلام ہوتا ہے ؟ اگر خارج از اسلام ہوا ہے تو توبہ کرنے کی کیا صورت ہو گی؟ یعنی زبان اور صدق دل سے توبہ کرنے کے بعد اس شناختی کارڈ کو استعمال کرنا جائز ہے یا تبدیلی ممکن ہو تو تبدیل کروانا ضروری ہے یا مشکلات کی وجہ سے خراب کر دینا ( مٹادینا، پھاڑنا) ضروری ہے؟
نیز تبدیلی کروانے میں بعض دفعہ کئی ہفتے یا مہینے لگ جاتے ہیں، اس دوران شناختی کارڈ کو استعمال میں رکھنا کیسا ہے؟
مذکورہ بالا صورتیں سب کی سب واقع ہیں فرضی ایک بھی نہیں ہے، او راس مسئلے کا جواب بھی انتہائی مطلوب ہے، لہٰذا مدلل ومحقق جواب دے کر مشکور وماجور فرمائیں۔
تنقیح… مستفتی سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ مشکلات سے مراد دنیاوی مفاد کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے، مثلاً اگر شناختی کارڈ پر مسلمان لکھا ہو تو کافروں جیسے مفاد حاصل نہیں کرسکتے۔
جواب… صورتِ مسئولہ میں جن صورتوں کے بارے میں پوچھا گیا ہے ان کے جواب سے پہلے بطور تمہید چند باتوں کا جاننا انتہائی ضروری ہے:
اول یہ کہ شریعت میں اکراہ کسے کہتے ہیں ؟ دوم یہ کہ شریعت میں اکراہ کب متحقق ہوتا ہے؟ سوم یہ کہ اکراہ میں وہ کون سے اقوال ہیں جن کے احکام جدوہزل ( حقیقت ومذاق) میں یکساں ہیں؟ تفصیل ملاحظہ ہو:
اول… اکراہ کے معنی یہ ہیں کہ کسی شخص کو ایسے قول یا فعل پر مجبور کیا جائے جس کے کہنے یا کرنے پر وہ راضی نہ ہو، پھر اس کے دو درجے ہیں : اکراہ ملجیٴ، کہ اگر اکراہ کرنے والوں کے کہنے پر عمل نہ کیا تو قتل کر دیا جائے گا یا اس کا کوئی عضو کاٹ دیا جائے گا، یعنی ایسا اکراہ جو انسان کو مسلوب الاختیار اورمجبور محض کر دے ، ایسے اکراہ کی حالت میں کلمہٴ کفر کا زبان سے کہہ دینا، بشرط کہ دل ایمان پر مطمئن ہو، جائز ہے۔
اکراہ کا دوسرا درجہ اکراہ غیر ملجیٴ ہے، اس میں دل سے تو آمادہ نہیں لیکن ایسا بے اختیار بھی نہیں کہ انکار نہ کر سکے، یعنی اس میں قتل یا عضو کے تلف ہونے کی دھمکی نہیں ہوتی، اکراہ غیر ملجیٴ میں اقرار کفر کرنا جائز نہیں ہوتا۔
دوم… اکراہ کے متحقق ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ اکراہ کرنے والا جس کام کی دھمکی دے رہا ہو ، وہ اس پر قادر بھی ہو اور جو شخص مبتلا ہے، اس کو غالب گمان ہو کہ اگر اس کی بات نہیں مانی تو جس چیز کی دھمکی دے رہا ہے ، وہ اس کو ضرور کر ڈالے گا۔
سوال… اکراہ غیر ملجیٴ میں وہ اقوال جن کا جدوہزل ( حقیقت ومذاق) یکساں ہے تو اس میں مجبور کردہ پرہونے والے اکراہ کا اعتبار نہیں کیا جاتا اور وہ ایسا ہوتا ہے جیسے اس نے خود اپنے اختیار سے وہ لفظ کہا ہے، البتہ اکراہ ملجیٴ میں اس کا یہ قول فاسد شمار ہو گا اور اس کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا، کلمہ کفر یا اقرارِ کفر ان اقوال میں سے ہے جن کا جد وہزل یکساں ہے، لہٰذا اکراہ غیر ملجیٴ میں انہیں ادا کرنے سے ، اگرچہ تصدیق قلبی ہو، انسان کافر ہو جاتا ہے۔
مذکورہ بالاتفصیل کی روشنی میں یہ بات واضح ہو گئی کہ اگر کسی انسان پر کلمہ کفر کہنے یا اقرار کفر کرنے کے لیے اکراہ کیا جائے لیکن یہ اکراہ ملجیٴ نہ ہو، یعنی اس کی جان جانے یا کسی عضو کے تلف ہونے کا اندیشہ نہ ہو، تو ایسے شخص کے لیے اقرار کفر کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے ،اقرار کی صورت میں وہ شخص دائر اسلام سے خارج ہو جائے گا۔
جواب…صورت مسئولہ میں سائل نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ مشکلات سے مراد دنیوی مفاد کے حصول میں مشکلات مراد ہیں او رجان یا کسی عضو کے تلف ہونے کا اندیشہ نہیں ہے، یعنی اکراہ ملجیٴ متحقق نہیں ہو رہا، لہٰذا اگر صورت حال واقعتا صورت مسئولہ کے مطابق ہے تو ایسی صورت میں سوال میں مذکور اول الذکر چار صورتوں میں زید خارج از اسلام ہو گیا، زید کو چاہیے کہ صدق دل سے توبہ کرے، تجدیدِ ایمان اور تجدید نکاح کرے اور ایسے شناختی کارڈ کو استعمال نہ کرے اور فوراً اسے تبدیل کروالے ، ورنہ پھر آگے سرکاری یا نجی محکموں میں پوچھ گچھ کے دوران اسے اپنے شناختی کارڈ کے مطابق کفر کا اقرار کرنا پڑے گا، البتہ پانچویں صورت میں زید مسلمان ہی رہے گا کیوں کہ یہاں اقرار کفر نہیں پایا جارہا۔
ایک اہم بات یہ بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جس کافر ملک میں مسلمان اقلیت میں ہوں، ان پر ظلم ہو رہا ہو اور ان میں سے بعض مسلمان دنیوی مفاد کے حصول کے لیے اپنے آپ کو کافر ظاہر کریں، تو ایسا کرنے سے تو سرکاری اعداد وشمار میں مسلمانوں کی تعداد او رکم ہو جائے گی اوران پر ظلم وستم اور بڑھ جائے گا، ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کی تعداد بہت کم رہ جائے گی اور پھر آہستہ آہستہ مسلمانوں کی شناخت بالکل ہی ختم ہو جائے گی، لہٰذا ہر ایسے قدم سے اجتناب کیا جائے جس میں وقتی یا دنیوی فائدہ تو نظر آئے لیکن حقیقت میں اس میں بہت بڑا نقصان پوشیدہ ہو۔
آپ کے لیے زیادہ بہتر یہ ہے کہ آپ اپنے مقامی علماء سے رابطہ کریں اور ان کی راہ نمائی میں اپنے فیصلے کریں، پاکستان کے علماء کے سامنے برما کے مکمل حالات نہیں ہیں، ہم نے اپنے طور پر جاننے کی کوشش بھی کی لیکن مکمل وضاحت اور تفصیل سامنے نہ آسکی، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ آپ اس قسم کے مسائل میں اپنے مستند مقامی علماء سے بھی رجوع کریں۔
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ برما کے مظلوم ہمارے مسلمان بھائیوں کی غیبی نصرت ومدد فرمائے اور ان کی جان، مال،عزت اور آبرو کی حفاظت فرمائے۔ آمین
ڈیوٹی کے اوقاتِ کار تقسیم کرنا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام وعلمائے عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں پولیس میں ملازم ہوں او رمیری ڈیوٹی وائرلیس سیٹ پرہوتی ہے ،وہاں تین اور ساتھیوں کی بھی ڈیوٹی ہوتی ہے، ہر ساتھی کی ڈیوٹی چھ گھنٹے ہوتی ہے، اور سال میں 40 روز چھٹی ہمارا حق ہے، اب ہم یوں کرتے ہیں کہ تین ساتھی چھٹی پر رہتے ہیں اور ایک ساتھی چوبیس گھنٹے ڈیوٹی کرتا ہے، یا پھر دو ساتھی گھر ہوتے ہیں اور دو ساتھی ڈیوٹی کرتے ہیں 12،12 گھنٹے، اس طرح تقسیم ہم نے خود کی ہے، سرکاری طور پر نہیں ہوئی، اس سے ہمیں یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی چھٹیوں کا حق بھی وصول کر لیتے ہیں اور کچھ زائد چھٹیاں بھی کر لیتے ہیں، جب کہ سرکار کا اس میں فائدہ یہ ہے کہ وہاں پر رہنے والے ساتھی ایک یا پھر دو آدمیوں کا راشن، بجلی، پانی استعمال کرتے ہیں، اگر چاروں ساتھی وہاں رہیں تو چار کا استعمال ہوگااور ہمارا جو کام ہے یعنی کہ وائرلیس سیٹ سے پیغام وصول کرنا اور پیغام بھیجنا اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوتی، نہ تو سرکار کا نقصان ہوتا ہے اور نہ ہی عوام کا، تو مذکورہ صورت میں ہر ساتھی دو دو مہینے گھر لگاتا ہے یا کبھی اس سے بھی زیادہ، لیکن باری باری، ہماری اس صورت حال کا ہمارے بعض افسروں کو علم ہے او ربعض کو نہیں ۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ ان مہینوں کی تنخواہ جو ہم گھر میں حکومت کی اجازت کے بغیر گزارتے ہیں، حلال ہے یا نہیں؟ اگرچہ سرکار کی طرف سے اس کی اجازت نہیں ہوتی لیکن سرکار نے جو کام سپرد کیاہے اس میں بھی کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوتی، اس لیے بعض ساتھی اس تنخواہ کو حلال سمجھتے ہیں او ربعض ساتھی اس کو حرام سمجھتے ہیں، کیوں کہ یہ تنخواہ بغیر کسی کام کے ہوتی ہے، لیکن یا درہے کہ جن دنوں ایک ساتھی ڈیوٹی دیتا ہے تو وہ اپنے باقی ساتھیوں کی ڈیوٹی بھی ایمان داری سے دیتا ہے۔
براہِ کرم اس خلش کو دور فرمائیں او ربتلائیں کہ ہمارا فعل کیسا ہے؟اورہماری تنخواہ کا کیا حکم ہے؟
جواب… واضح رہے کہ ملازمین ( خواہ سرکاری ہوں یا پرائیویٹ) اجیر خاص ہوا کرتے ہیں ، اجیر خاص کا حکم یہ ہے کہ ملازم خود حاضر ہو کر اپنی ڈیوٹی سر انجام دے اور پورا وقت حاضر ہو کر ڈیوٹی پر رہے، یا اس سے زیادہ دو ملازمین کا اپنے طور پر باری مقرر کرنا جائز نہیں۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں حکومت کی طرف سے آپ میں سے ہر ایک ساتھی پر چھ گھنٹے ڈیوٹی دینی اور حاضر ہونا لازم اور ضروری ہے، ہر ایک اپنے چھ گھنٹوں میں ملازم شمار کیا جائے گا اور اسی مدت کی تنخواہ کا مستحق ہو گا، مقررہ وقت میں غیر حاضری جائز نہیں اور نہ غیر حاضری کے وقت کی تنخواہ لینا حلال ہے، باقی رہا یہ کہ چند افسران کو اس صورت حال کا علم ہے اور چند کو نہیں، تو صرف معلوم ہونا کافی نہیں اور افسران کے تسامح سے چند ملازمین کا حاضر ہونا اور چند کا غائب رہنا جائز نہیں، البتہ اگر حکومت کی طرف باقاعدہ قانونی طور پر اس کی اجازت مل جائے، تو پھر اس طرح کرنا جائز ہو گا اور تنخواہ بھی حلال ہو گی۔