Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1435ھ

ہ رسالہ

13 - 16
قادیانیت، سام راجی تحریک

طالب علم مسعود عظمت، جامعہ فاروقیہ کراچی
	
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جب برطانوی استعمار نے برصغیر ( پاک وہند) پر قبضہ کر لیا تو اس نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے جہاں مسلمانوں پر مختلف قسم کی پابندیاں لگائیں وہاں مسلمانوں کو اپنے دین سے برگشتہ کرنے کے لیے اور دین سے گم راہ کرنے کے لیے اسلام پر فکری انداز سے حملہ آور ہوئے۔ اس کے لیے برطانوی استعمار نے یورپ سے عیسائیت کی تبلیغ کے لیے پادریوں اور عیسائی مشنریوں کو ہندوستان بلوایا اور ہر بڑے شہر میں ان کے مراکز قائم کر دیے، پھر ان مشنری لوگوں نے عیسائیت کی تبلیغ کے لیے ہر چوک وچورا ہے پر کھڑے ہو کر مناظرے کیے اور تقریریں کیں۔

ان لوگوں نے جب مسلمانوں کے اندر عیسائی مذہب کے خلاف نفرت کو دیکھا اور حکومت وعیسائی مبلغین کے خلاف عوام کے غم وغصہ کو دیکھا تو ان کی سوچ کاانداز بدل گیا ۔ مسلمانوں کو جہاد سے برگشتہ کرنے کے لیے اور حکومت سے وفادار رہنے کے لیے ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو مسلمانوں کے اندر ہی سے اٹھے اور مسلمانوں کو برطانوی حکومت کا وفادار بنا دے، تاکہ استعمار کی حکومت کو طول دیا جاسکے، چناں چہ اس کے لیے کوششیں شروع کر دیں، 1858ء میں ملکہ وکٹوریہ کے اعلان میں یہ کہا گیا کہ مذہبی عقائد کی تبلیغ کے معاملے میں برطانوی حکومت غیر جانب دار رہے گی، اس اعلان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان کے اندر کئی لوگوں نے اپنے فرقوں وجماعتوں کی بنیاد رکھی، مسلمانوں کے اندر مادہ پرست، اہل قرآن، عدم تشدد کی تحریک اور اس طرح کئی دوسرے فرقوں نیجنم لیاان فرقوں کے جنم لینے پر مسلمانوں کے اندر آپس میں اختلاف رونما ہو گئے اور یہ اختلافات تاج برطانیہ کی حکومت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئے۔

اسی دوران جب ملکہ وکٹوریہ نے اعلان کے ذریعے اپنے اپنے مذہب ومسلک کی تبلیغ کی اجازت دی تو مسلمانوں کے اند رایک ایسے فرقہ نے جنم لیا، جس کی وجہ سے مسلمانوں کے اندر شدید اختلاف رونما ہوا اور مسلمانوں کے دین ومذہب کو خراب کیا ،اس فرقہ کا بانی مرزا غلام احمد قادیانی (ملعون) تھا، جس کا تعلق پنجاب میں گورداسوپور کے علاقے سے تھا۔ اس کا خاندان سمرقند سے ہجرت کرکے پنجاب آیا تھا، مرزا غلام احمد کی پیدائش1835ء میں ہوئی، اس کا والد برطانوی حکومت کا وفادار ملازم تھا،1857ء کی جنگ آزادی میں تین لوگوں نے برطانوی استعمار کا ساتھ دیا اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں حصہ لیا ،ان لوگوں میں مرزا غلام احمد قادیانی کا خاندان پیش پیش تھا اور اس خدمت کے عوض اس خاندان نے برطانوی حکومت سے جاگیر وصول کی۔

ایک انگریز برطانوی وفادار خاندانوں کے بارے میں اپنی کتاب (پنجاب کے رؤساء) میں لکھتاہے کہ ” نو نہال سنگھ، شیر سنگھ اور دربار لاہور کے دور دورے میں غلام مرتضیٰ ہمیشہ فوجی خدمات پر مامور رہا ( مرزا غلام احمد کا والد)۔ 1841ء میں یہ جرنیل ونچورا کے ساتھ منڈی اور کلو کی طرف بھیجا گیا اور 1843ء میں ایک پیادہ فوج کا کمیدان بنا کر پشاور روانہ کیا گیا ، ہزارہ کے مفسدے میں اس نے کارہائے نمایاں کیے اور جب 1858ء کی بغاوت ہوئی تو اپنی سرکار کا نمک حلال رہا اور اس کی طرف سے لڑا( تحریک احمدیہ)۔

یہ تھا اس خاندان کا کردار کہ ایک طرف تو مسلمانانِ برصغیر اپنی آزادی کی جنگ میں سردھڑ کی بازی لگا رہے ہیں، دوسری طرف مرزا غلام احمد کاخاندان تاج برطانیہ کا دم بھر رہا ہے انگریزوں سے اس خاندان کے تعلقات دیرینہ تھے، ان کے خاندان کو جو جاگیر عطا ہوئی تھی وہ کسی طرح ضبط ہو چکی تھی، چناں چہ مرزا غلام احمد نے اس کے حصول کے لیے کوششیں شروع کر دیں، لیکن اس کے حصول میں بری طرح ناکام ہوا۔ آخر کار مرزاکے باپ نے 1864ء کو سیالکوٹ کچہری میں انہیں کلرک کی نوکری دلوا دی، وہاں پر اسکاٹ لینڈ کے پادریوں سے تعلقات بنائے اور ان سے مذہبی وسیاسی معاملات میں گفت گو شروع کی، سیالکوٹ ہی میں ان کی ملاقات ایک پادری ومبلغ بٹلر ایم اے سے ہوئی اور دوستی پروان چڑھی، بعد میں یہ دوستی ایک جماعت او رتنظیم کی شکل میں سامنے آئی اور عیسائی خیالات مسلمانوں کے اند رپھیلانے کے کام آئی۔

غلام احمد قادیانی نے جب سیالکوٹ میں ملازمت اختیار کی تو وہاں پر متعین برطانوی ڈپٹی کمشنر سے بھی ان کے تعلقات بن گئے او راپنی فصاحت بلاغت کے زو رپر اس کو رام کر لیا، ڈپٹی کمشنر پر کنز نے برطانیہ کے لیے ایک وفادار ملازم تلاش کر لیا ،تاکہ آگے چل کے یہ برطانوی حکومت کے لیے آلہ کار بن سکے او رحکومت کے لیے کام کرسکے۔ ڈپٹی کمشنر پرکنز ایک یہودی تنظیم فری میسن سے تعلق رکھتا تھا اور لاہور کے لاج آف ہوپ کا ایک رکن تھا۔ مرزا نے جب 1868ء کو ملازمت چھوڑ ی اس وقت اس دن کے احترام میں پرکنز نے کچہری میں چھٹی کرد ی۔

شروع شروع میں مرزا غلام احمد نے عیسائیوں سے مناظرے کیے او راپنے آپ کو مسلمانوں کا نمائندہ بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا ،ان مناظروں کی وجہ سے مرزا کا مقصد اپنے آپ کو مسلمانوں کے اندر مشہور اور ان کی حمایت حاصل کرنا تھا۔ پھر1878ء میں مرزا غلام احمد نے اس وقت توجہ حاصل کی جب اس نے دعوی کیا کہ (نعوذ بالله) مجھ پر وحی آتی ہے اور الله تعالیٰ کی طرف سے میں (غیر تشریعی) نبی اور رسول ہوں۔ پھر آگے چل کر 1883ء میں مرزا غلام احمد نے اپنی وحی کو چھپوایا اس میں اس نے اپنے آپ کو نبی اور پیغمبر ظاہر کیا ، اس کے نبی کا دعوی کرنے سے مسلمانوں کے اندر ایک ہیجان پیدا ہو گیا اور مسلمانوں کے اندر اس کے خلاف غم وغصہ پایا جانے لگا، چناں چہ علماء وخطباء نے اس کے خلاف تحریر وتقریر کے ذریعے لوگوں کو جھوٹے اور کذاب نبی کے بارے میں بتانا شروع کر دیا، انگریز کی پشت پناہی کی بنا پر مرزا غلام احمد اپنے مذہب کا پر چار کرنے لگا، جس کی وجہ سے کئی لوگ مرتد ہو گئے… برصغیر میں اس فتنہ کی پرورش تاج برطانیہ کے دور میں ہوئی ، چناں چہ یہ فتنہ آئے روز پھیلنے لگا ،مرزا غلام احمد نت نئے دعوی کرتا کبھی مسیح موعود… ہونے کادعوی کرتا اورکبھی کہتا کہ میں ہی وہ مہدی ہوں، جس کا اسلامی کتابوں میں ذکر آتا ہے۔

اس نے اپنے عقائد کو پھیلانے کے لیے اور مسلمانوں کو گم راہ کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے رسالے شائع کرنا شروع کر دیے پھر1884ء میں براہین احمدیہ نامی ایک کتاب شائع کی، اس میں مرزا نے اپنے آپ کو مسلمانوں کا نمائندہ بنا کر پیش کیا، پھر اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے خاندان کو سام راج کا سب سے مخلص اور وفادار خاندان کے طور پر پیش کیا، مرزا غلام احمد جہاں ایک طرف اپنے آپ کو ظلی اور بروزی نبی کہتا تھا ،دوسری طرف برطانوی استعمار کو ایک نعمت عظیمہ بھی خیال کرتا تھا۔ اس نے اپنے پیروکاروں کو پرزور تاکید کی کہ وہ ان کے ساتھ بھرپور تعاون کریں، کیوں کہ اسی میں ان کی نجات اور خدا کی رضا مندی ہے یہ صرف برطانوی سام راجیوں کا استحقاق ہے کہ وہ اسلحہ لہرائیں اور توپیں چلائیں۔

مرزا صاحب کہتے ہیں کہ : چوں کہ میری زندگی کا زیادہ ترحصہ برطانوی حکومت کی وفاداری کے پر چار میں گزرا ہے، جہاد کی مذمت اور برطانوی حکومت کی وفاداری کے پرچار میں میں نے اپنی کتابیں لکھی ہیں کہ اگر ان کو اکٹھا کیا جائے تو پچاس الماریاں بھر جائیں۔ (تحریک احمدیہ)

پھر ایک او رکتاب میں سوال پوچھتے ہوئے کہتا ہے ” میں پوچھتا ہوں کہ جو کچھ میں نے سرکار انگریزی کی امداد حفظ وامن اور جہادی خیالات کو روکنے کے لیے برابر سترہ سالوں تک پورے جوش سے، پوری استقامت سے کام کیا، کیا اس کام کی او راس خدمت نمایاں کی اور اس مدت دراز کی دوسرے مسلمانوں میں جو میرے مخالف ہیں ،کوئی نظیر ہے؟ کوئی نہیں۔

مرزا غلام احمد نے درست کہا کہ جس طرح اس نے انگریز کی وفاداری کا دم بھرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، اس طرح کوئی دوسرا مسلمان نہیں کر سکتا تھا، ایسا کام صرف اور صرف انگریز کا خود کاشتہ پودا اور انگریز کا وفادار ہی کر سکتا تھا۔ جس شخص کے اس طرح کے نظریات وخیالات ہوں وہ کبھی مسلمانوں کا خیر خواہ بن سکتا ہے؟ نہیں۔ بلکہ ایسا شخص خودغرض اور اپنے مفاد کی خاطر ہر حد کو پھلانگ سکتا ہے۔ 1901ء میں مرزا غلام احمد نے باقاعدہ نبوت کا دعوی کر دیا اور یہ اعلان کیا کہ صرف احمدیت ہی سچا اسلام ہے مرزا غلام احمد کے بغیر اسلام ایک بے جان وجود ہے۔ مرزا غلام احمد مجدد مہدی مسیح موعود، ظلی، نبی ،کرشن، اوتار او رتمام مذاہب کے آنے والے ہیں ۔ یہ اعلان بھی کیا کہ مسلمانان عالم جو مرزا صاحب کے دعاوی پریقین نہیں رکھتے بلاشبہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔مرزا غلام احمد کی اہلیہ ام المؤمنین اور اس کے ساتھی صحابہ کرام ہیں۔قادیان مدینة المسیح اور اس کے رسول اور حقیقی نبی کا پایہ تخت ہے۔

پھر آخر میں ایک ایسا دعوی کیا، جس کی کوئی اصل وبنیاد ہی نہیں تھی کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر سری نگر میں ہے او ران کی موت طبعی واقع ہوئی ہے۔ حالاں کہ الله تعالیٰ نے ان کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا تھا۔ مرزا غلام احمد کی وفات 1908ء میں ہوگئی، لیکن اس کی جماعت مسلسل مسلمانوں کو گم راہ کرنے میں مصروف رہی اور آج تک ہے ۔ مسلمانوں کا کامل ایمان ویقین ہے کہ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم الله تعالیٰ کے آخری نبی ورسول ہیں او رجو ان کی نبوت ورسالت کاانکار کرے وہ بھی کافر اور جو ختم نبوت کا انکار کرے بالاتفاق اجماع امت وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ انگریز کی وفاداری کو نباہتے ہوئے مرزا غلام احمد کے پیروکاروں نے ہمیشہ مسلمانوں کو سازشوں کے ذریعے نقصان پہنچایا۔ خلافت عثمانیہ کے خلاف ہندوستان سے برطانوی حکومت وانگریز کی مدد کے لیے قادیانی جماعت سے جاسوس بھیجے جاتے تھے، جنہوں نے خلافت اسلامیہ کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا اور جب خلافت عثمانیہ ختم ہوگئی تو ہندوستان کے اندر ان لوگوں نے جشن منایا چراغاں کیا، اپنے بغض وعناد کو ظاہر کرنے کے لیے جلسے جلوس کیے، جس طرح شروع سے اس جماعت کے بانی کی وفاداریاں انگریز کے ساتھ تھیں، آج بھی اسی راہ پہ چلتے ہوئے ان کی وفاداریاں انگریز کے ساتھ ہیں، پاکستانی آئین میں قادیانیوں کو کافر قرار دیا گیاہے ،لیکن ابھی ہمارا کام ختم نہیں ہوا، ہر میدان وہرمحاذ پر ان کے خلاف کام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ مسلمانوں کے ایمان کو بچایا جاسکے۔

Flag Counter