Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1435ھ

ہ رسالہ

3 - 16
حقیقی بر کا ت نبو ت او ر ا سبا ب نصرت و ہزیمت
غزوہ بدر، غزوہ اُحُدا ورحُنَین کے پس منظر

مولانا محمد حذیفہ وستانوی

اطا عت ر سو ل
بد ر کی کا م یا بی کے اسبا ب میں سے ایک سبب، کا مل اطا عت اور اتبا ع رسول بھی ہے کہ ہر مو قع پر صحا بہ کرا م رضو ان اللہ علیہم اجمعین نے آپ کی اطا عت کی… اور بعض کو تر دد تھا، جیسا کہ قر آ ن نے اشا رہ کیا ﴿وَإِنَّ فَرِیْقاً مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکَارِہُون﴾(الانفال: 5) کہ مو منین کا ایک گرو ہ جنگ کے لیے آما د ہ نہیں تھا، مگر جب منشا ئے رسول کو دیکھا تو صاف حضرت مقدا د بن اسود نے کہا:”لا نقول کما قال بنوا اسر ائیل لمو سیٰ:اذہب انت وربک فقاتلا انا ہا ہنا قا عدو ن ، ولکنا نقاتل عن یمینک، وعن شمالک، وبین یدیک وخلفک“ اور حضرت سعد نے کہا:”فو الذی بعثک بالحق لو استعرضت بنا ہذا البحر فخضتہ لخضناہ معک، ما تخلف منا رجل واحد، وما نکر ہ ان تلقی بنا عدونا غدا، انا لصُبُرٌ فی الحرب، صُدُ قٌ فی اللقاء، لعل اللہ یریک منا ما تقرہ عینک، فسر بنا علی برکة اللہ․ (ابن ہشام،ومسلم )

کیسا خلوص بھر ا کلا م ہے مہا جر ین وانصا ر کا ، یہی مسلما ن کی کامیابی کاا ہم زینہ ہے ، حضرا تِ صحا بہ کر ا م  میں عشقِ رسول بھی کو ٹ کو ٹ کر بھر ا ہو ا تھا اور اطا عتِ رسو ل کا جذبہ بھی اسی کے بقد ر تھا؛ بلکہ جذ بہ عشق سے زیا د ہ جذبہ اطاعت تھا اور یہی اللہ کی جا نب سے مطلو ب بھی ہے : ﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰہَ فَا تَّبِعُوْ نِی یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ﴾․

اپنے ماتحت کا معقول مشورہ قبول کرنا
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بد ر میں پہنچ کر پڑ اوٴ ڈالا، تو حضرت حبا ب بن منذ ر نے دریا فت کیا کہ، یا رسو ل اللہ یہ پڑا وٴ وحی کی بنیا د پر ہے ، یا آپ کی اپنی صوابدیدپر ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا نہیں ،میر ی اپنی رائے پر، حضرت حبا ب ابن المنذ ر نے کہا کہ مید ا ن حرب میں پڑ ا وٴ کے اعتبا ر سے فلا ں جگہ زیاد ہ منا سب ہے ۔ آپ نے ا ن کے مشور ے کو قبول کیا اور ان یہ کہہ کر حوصلہ افزا ئی کی کہ” لقد اشرت بالرائی “ کہ تم نے عمد ہ مشورہ اور رائے دی ۔

اسی طر ح حضرت سعد بن معا ذ  نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عریش کی رائے دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی قبول کیا ۔

معلو م ہو ا کہ ما تحت کی رائے بھی امیر کو قبول کر نی چا ہیے ، آج ہمارا حال یہ ہے کہ امیر جو کہہ دے، وہ پتھرکی لکیر اور کسی کو اچھی رائے دینے کی ہمت بھی نہیں ہو تی اور اگر دے تو قبو ل بھی نہیں کی جاتی ، اسو ہ رسو ل سے مردم سا زی ہو تی ہے اور ہما رے یہا ں جو طر یقہ ہے اس سے حوصلہ شکنی ہو تی ہے، اللہ ہمیں اسو ہ رسو ل کو اختیا ر کرنے کی تو فیق عطا فر مائے ۔

بقد ر وسعت اسبا ب اختیا ر کر نا اور صحیح نظا م مر تب کر نا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قر یش کے لشکر کی تعد ا د معلو م کی ، جاسوس چھو ڑ کر ان کے ارا دو ں سے آ گا ہ ہوئے ، اس سے معلو م ہو ا کہ اللہ سے دعا اور اللہ پر اعتما د کے ساتھ سا تھ، بقد ر وسعت اسبا ب اور صحیح انتظا م بھی اختیار و مرتب کر نا چاہیے ۔

آج یہ بھی ہما ری زندگی میں نہیں ، اگر کہیں اسبا ب اختیا ر کر نے اور نظا م مر تب کر نے کا ما حو ل ہے، تو کلی اعتما د اسی پر ہے اورتو کل اور دعا کا فقدا ن ہے؛ جب کہ یہ مو من کی شا ن کے بالکل خلاف ہے ، اسبا ب اختیار کرنا بقد ر وسعت اور مسبب الا سباب سے لَو لگا کر، اس کو موٴ ثر حقیقی گر دا ننا، یہی تو مو من کی امتیا زی شا ن ہے ، اللہ ہمیں صفا تِ رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کو کلی طو ر پر اختیار کرنے کی تو فیق عطا فر مائے ۔

ہر حالت میں امیر کااسلا می مسا وا ت اختیار کرنا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسا وا ت اور عد ل کے دامن کو کبھی نہیں ترک کیا، مگر مسا وا ت کا وہ مفہوم ،جو اسلا م نے مقر ر کیا ہے، وہ نہیں جو آ ج مغرب نے گم ر ا ہی کو عا م کر نے کے لیے اختیا ر کیا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اونٹ پر سوا ر ی کے وقت، اپنی بار ی میں حضرت علی اور ان کے سا تھی سے یہ کہنا (جب دو نو ں نے آپ کو سو ا ر رہنے کو کہا) ”ما انتماباقوی منی، ولا انا اغنی عن الاجرمنکما“ کہ نہ تو تم دو نوں مجھ سے زیاد ہ قوی ہو اور نہ میں تمہار ے ما نند اجر سے بے نیا ز ہو ں ۔ اللہ اکبر !

زندگی کا مقصد اللہ کی رضا اور اعلاء کلمة اللہ
ان سب کے ساتھ جو ایک اہم عا مل تھا، وہ یہ کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا مقصد” اخلاص کے ساتھ اسلام کی سر بلند ی اور اللہ کی رضا جوئی“جو پورے طور پر واقعہ بدر میں شروع سے لے کر اخیر تک نمودا ر ہوتی رہی اورذرہ برابر دنیوی غر ض شامل نہ تھی ،مگر افسو س آج ہمار ا حال، اس معاملے میں قا بل اصلاح ہی نہیں، نا قا بل بیا ن بلکہ قا بل رحم ہے؛ کہیں دین کے نام پر ،کہیں ریلیف کے نام پر، کہیں تعلیم کے نا م پر، کہیں امدا د کے نام پر، تو معلو م نہیں کس کس دینی و ملی کا م کے نا م پر؛ آ ج ہمار ا بڑ ا طبقہ محض اپنا اُلّوسید ھا کر رہا ہے ، میں نہیں کہتا کہ سب کا یہ حال ہے، مگر اکثر کا یہی حال ہے ، اس سے انکا ر کی گنجائش کم ہے ۔

اگر ہمارے تمام دینی وملی ادار ے اور بس، ایک ہی مقصد طے کر لیں کہ اسلا م کے صحیح اصول کے مطابق ،اللہ کی رضا کے خا طر ملت اور دین کی خدمت کرنی ہے ، تو میں سمجھتا ہو ں امت کے اختلاف وانتشا ر کی نا قا بل بیا ن کیفیت ختم ہو سکتی ہے ، بد ر جیسے نتا ئج اب بھی پیدا ہو سکتے ہیں، اگر کوئی کہے کہ مذ کور ہ امور سے کیا ہو گا؟ تو میرا خیال ہے کہ اگر ہم نے مذ کورہ اسبا ب اختیار کیے، تو وہی بد ر کا سما اب بھی قائم ہو سکتا ہے ۔

خلا صہ کے طور پر یہ اسبابِ نصر پیش کیے جا تے ہیں :
(1)… ایمان ِقوی (2)…اخلا ص (3)…اطاعت ِکا ملہ ،یعنی منہج نبوی کی تشریح سلف صالحین کی روشنی میں مکمل پیر و ی (4)…اللہ پر کا مل اعتماد اور تو کل (5)…ادعیہ ما ثورہ اور گڑگڑ ا کر دعا ؤں کی عا د ت (6)…دعا کے آ دا ب کی رعا یت اور اجا بتِ دعا کا یقین (7)…صحیح اسلامی اصو ل کے مطا بق شوریٰ (8)…اہل امیر کا انتخا ب (9)…امیر کی کا مل اطاعت (10)…ما تحت کی معقو ل رائے کو قبو ل کرنا اور حوصلہ افز ائی کر نا (11)…اسلا می مسا و ا ت کی رعا یت ،نہ کہ مغر بی گم را ہ کن مسا وا ت کو اپنا نا (12)…ملت اور دین کی خد مت محض رضا الٰہی اور اعلائے کلمة اللہ کی خاطر(13)… مسلما نو ں کو اتحا د واتفا ق کی اصول شریعت کے مطا بق مکمل کوشش (14)…ہر حال میں،رنج و غم ،خو شی اور مسر ت ،اچھے اور برے، تمام حالا ت میں شریعت کی مکمل پیر وی (15)…فر ائض وواجبا ت کا مکمل اہتمام، جیسے صحا بہ کا روزے کی حالت میں بھی جنگ … لہٰذا نماز، رو زہ، زکوٰة اور کلمہ کے تقاضو ں کو ہمیشہ پورا کرنا (16)…صبر او ر ثبا ت قد می کا مظا ہر ہ کرنا، جیسا کہ صحا بہ نے بد ر میں کیا ۔

آئیے! اب غز وا تِ احداور غز وہ حنین میں عا رضی طور پر ہوئی ہزیمت کا مختصر جائزہ لیتے ہیں؛ تا کہ اسبابِ نصرکو اختیار کر یں اور اسبابِ ہزیمت سے خلا صی حاصل کریں ۔

قبل اس کے کہ اسبا بِ ہز یمت سے واقف ہو ں ،اسباب نصر کی صورت میں اللہ کی طرف سے کیا نعمتیں ملتی ہیں اسے بھی جا نتے چلیں :
جب بند ے اللہ کی مکمل تا بع د ا ری کر تے ہیں اور اس کے بتلائے ہوئے راستہ پر چلتے ہیں؛ جیسا کہ انبیا اور صحا بہ نے چل کر بتلا یا؛ تو اللہ کی مدد ایسے آتی ہے، جیسے بد ر میں اور دیگر مختلف مو ا قع پر آئی ۔
1.. اللہ کی خا ص غیبی مدد فر شتو ں اور با رش کی صور ت میں۔
2..مو من کی نظر میں کفار کی قلت ان کی کثر ت کے با و جو د ۔
3..اللہ کاکفار کی دلو ں میں رعب ڈال دینا۔
4.. اللہ اپنی اطا عت کی بر کت سے صلاحیت پیدا کر دیتا ہے۔
5..صالحین کو اللہ ہمیشہ کا م یا ب رکھتا ہے ۔
6.. اللہ مسلما نو ں کو ہمت اور طا قت سے نو ا ز تا ہے۔
7.. مو من کو آخر ت اور شہا دت ،دنیا کے مقا بلہ میں محبو ب ہو جاتی ہے۔
8.. مو من شکر نعمت پر آ مادہ ہو جا تا ہے ۔
9..مو من کے دل میں اللہ اور مسلما نوں کی خا طر، ہر طرح کی قربا نی کا جذ بہ بیدا ر کر دیتا ہے۔
10..ثبات قد می، یعنی ہر حال میں قضا و قد ر پر راضی رہنے اور صبر کے ساتھ سا تھ فر ائض، واجبات، سنن و مستحبا ت کی روشنی پر عمل کر نے کا، جذ بہ پیدا کر تے ہیں ۔

غز وہ احد
غزوہ احد مد ینہ کے قر یب و اقع ایک پہاڑی کے دامن میں ماہ شوال3ھ میں وا قع ہو ا ۔

کفار مکہ غز وہ بد ر کا بد لہ لینا چا ہتے تھے اور ملک شا م کے تجا رتی راستہ کو بھی ہم وا ر کر نا چا ہتے تھے ، ساتھ ہی اپنی کھو ئی ہوئی وقعت کو بحا ل کر نا اور مسلمانو ں کو مزیدمستحکم اور مضبو ط ہو نے سے روکنا چا ہتے تھے ؛لہٰذا 3000 فوجی، 700 زرہیں، 200 گھو ڑ ے لے کر وہ احد میں کو د پڑ ے تھے؛ مسلمانوں کی تعد ا د ایک ہز ا ر مجا ہد ین اور دو گھوڑے اور سو ز ر ہوں پر مشتمل تھی۔

غزوہ احد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا داخل مد ینہ جنگ کر نے کا تھا ،مگر صحا بہ کی بڑ ی تعدا د مید ا ن سے نکل کر جنگ پر آ ما د ہ تھی؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رعا یت کی اور اپنی رائے پر عمل نہیں کیا ،گو یا آ غا ز ہی میں کچھ کمی ہو گئی تھی ، بہر حال رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین جھنڈ ے ،ایک حضرت مصعب بن عمیر کے ہاتھ میں مہا جر ین میں سے ،اور ایک اسید بن حضیر کے ہاتھ میں جو ا وس میں سے تھے اور ایک حبا ب ابن المنذ ر کے ہاتھ میں جو خز ر ج میں سے تھے، تھما دیا ، اور احد کی طرف چل دیے، راستہ میں ثنیة الودا ع کے پا س ایک اسلحہ سے لیس دستہ کو دیکھا ،تو پو چھا یہ کو ن ہیں؟ صحا بہ نے کہا یہ عبد اللہ بن ابی ابن سلو ل یہو د کے قبیلہ بنو قینقا ع سے 600 سپا ہی لے کر آیا ہے۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے در یا فت کیا کہ وہ مسلما ن ہو چکے ہیں ؟ صحا بہ نے کہا نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف کہہ دیا :”قولوالہم فلیرجعوا، فانا لا نستعین بالمشر کین علی المشرکین․ (ابن سعد بحو الہ السیرة النبویة : 365)

انہیں کہو کہ لو ٹ جا ئیں، ہم مشر کین کے مقا بلہ میں مشر کین سے مدد نہیں لیتے ۔

اسلا می لشکر جب مقا م شو ط پر پہنچا، تو عبد اللہ ابن ابی ابن سلو ل 300 منا فقین کو لے کر یہ کہہ کر وا پس ہو گیا کہ بچو ں کی با ت ما نی گئی اور میر ی رائے پر عمل نہیں کیا گیا ؛کیوں کہ اس کی رائے بھی مد ینہ میں رہ کر جنگ کرنے کی تھی ۔

بہرحال اس مو قع پر صحا بہ میں اختلاف ہو گیا، کچھ منا فقین کی جانب داری تو کچھ مخا لفت کر نے لگے ،قر آ ن نے اسی مو قع کے لیے کہا ﴿فَمَا لَکُمْ فِی الْمُنَافِقِیْنَ فِئَتَیْنِ وَاللّٰہُ اَرْکَسَہُمْ بِمَا کَسَبُوا﴾․(النساء: 88)

یہ گو یا دوسری چو ک تھی ، ”آپسی اختلاف“ ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر بن حز ا م نے ان کو سمجھا نے کی کوشش کی کہ ایسے جنگ کے مو قع پر تم اپنی قو م اور نبی کو چھو ڑ کر جارہے ہو؟ مگر عبد اللہ بن ابی ابن سلو ل نے ایک نہ سنی، قر آ ن نے ﴿وَمَا اَصَابَکُمْ یَومَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ﴾ (آل عمرا ن :166،167) میں اسی گفتگو کی طر ف اشار ہ کیا ۔

اس مو قع پر مخلص مو منین میں سے بنو سلمہ جوخز رج سے تھے اور بنوحارثہ جو ا و س سے تھے ،انہو ں نے بھی منا فقین کے ساتھ مد ینہ لو ٹ نے کا ارادہ کیا؛مگر اللہ نے ان کے اخلاص کی بر کت سے انہیں ایسا کر نے سے روک دیا ﴿اِذْ ہَمَّتْ طَا ئِفَتَانِ مِنْکُمْ﴾(آل عمر ا ن: 123)سے اسی طرف اشار ہ ہے ۔

خلا صہ یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جبل احد کے پا س پہنچ گئے اور صف بند ی کی ؛اسلا می فو ج کا رخ مدینہ کی طرف اور پشت احد کی طر ف رکھا اور پچا س مجا ہد ین کے ایک دستہ کو ،حضرت عبد اللہ بن جبیر کی اما رت میں، ایک چھو ٹی سی” پہا ڑی حنین “ پر ما مو ر کیا، جو احد کے بالکل سا منے تھی ؛تا کہ اگر مشرکین پیچھے سے حملہ کر نے کی کوشش کر یں، تو یہ لو گ انہیں پیچھے د ھکیل دیں اور ان کو صا ف الفاظ میں کہا ” ان رأیتمو نا تخطفنا الطیر فلا تبرجوا مکانکم ہذا، حتی ارسل الیکم“․ (بخاری ) احمد اور حاکم کی روایت میں یہ الفا ظ ہے ” احموا ظہورنا فان رأیتمونا نقتل فلا تنصرونا، وان رأیتمونا قد غنی فلا تشرکونا“ اگر ہمیں پر ندے اچکے، یا ہم قتل کیے جا رہے ہوں، یا غنیمت جمع کر رہے ہو ں، خواہ کسی بھی حا لت میں ہوں؛ جب تک میں تمہیں کسی کے ذریعہ نہ بلا ؤں وہا ں سے ہٹنا نہیں ۔ یہا ں بھی صراحت النص کے بعد بعض نے اجتہا د کیا، اس طرح اپنے امیر کی با ت نہ مانی۔” یہ تیسری چو ک تھی“ ۔

بہر حال جنگ شروع ہوئی، ایک مو قع پر مسلما ن غالب آ گئے تو ”جبل الر ما ة “ والے دستہ نے ما ل غنیمت کے حصو ل کے لیے اختلاف کیا اور امررسول کے با وجو د، اپنی جگہ امیر کی با ت نہ ما ن کر چھو ڑ دی، حضرت خا لد، جو ابھی اسلا م میں داخل نہیں ہوئے تھے ، جب انہو ں نے دیکھا کہ ’ ’ جبل رما ة “ پر بہت مختصر سی جما عت رہ گئی ہے، توہ وہ پیچھے مڑ کے آئے اور ا چا نک حملہ آو ر ہو گئے، اس حملہ کی او ل مر حلہ میں مسلما ن تا ب نہ لا سکے اور منتشر ہو گئے ، ایسے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی افو ا ہ عا م ہو گئی ، تو مسلما نو ں کے حوصلے اورزیادہ پست ہوگئے اور بعض مید ا ن چھو ڑ کر بھا گنے لگے اور بعض وفا تِ رسول کی خبر سن کر ما رے غم کے حو ا س با ختہ ہو گئے اور ہتھیار ڈال کر جنگ سے کنا رہ کش ہو گئے؛ مگر پھر حضرت کعب بن ما لک نے آ و از دی کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقید حیات ہیں۔ تو کچھ حو صلہ ملا؛ ایسے حالا ت میں تقریباً ستر صحا بہ شہید ہوگئے ، مشرکین نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر نے کی بھر پو ر کوشش کی ،مگر جا ں نثار صحا بہ نے ان کی تمام کو ششو ں کو نا کا م بنا دیا، جس میں حضرت طلحہ بن عبید اللہ ،حضرت سعد بن ابی وقا ص، حضرت ابو طلحہ انصاری، حضرت قتا د ہ، حضرت ابو دجا نہ رضو ا ن اللہ علیہم اجمعین پیش پیش تھے ؛مگر چوں کہ جنگ بڑ ی گھمسا ن سے ہور ہی تھی؛ لہٰذا صحا بہ کی تمام تر کوششو ں کے باوجو د رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوگئے اور آپ کے چہر ے پر سخت زخم آئے؛ بلکہ دو دندا نِ مبارک شہید ہو گئے ۔حضرت فا طمہ اور حضرت علی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخمو ں کی مر ہم پٹی کی ، بعض مسلما ن عو رتو ں نے بھی اس غز وہ میں بڑ ی خدمت انجام دی، مثلاً حضرت ام عمار ہ، حضرت حمنہ بنت جحش، ام سلیم ،حضرت عائشہ ، نسیبہ بنت کعب، ما زنیہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ۔

بعد میں جب مسلما ن ایک با ر پھر جم گئے اور دلیر ی سے لڑ نے لگے، تو مشر کین نے را ہِ فرا ر اختیار کر لی، یہ کہہ کر کہ اب ہم دو بارہ آئند ہ سا ل جنگ کر یں گے ، ابو سفیا ن نے ’ ’ اعلی حُبُل “ حبل کی جے ہو کا نعرہ لگا یا ، صحابہ نے حضور اقد س صلی اللہ علیہ وسلم کے اشار ے پر اللہ اعلیٰ و اجل سے جواب دیا ، ابو سفیا ن نے ” لنا عزی ولاعزی لکم “کہا تو صحابہ نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشار ے پر ” اللہ مو لانا ولا مو لیٰ لکم “ سے جواب دیا اور اخیر میں جب ابو سفیا ن نے کہا کہ یو م بیوم بدرو الحرب سجا ل تو حضرت عمر نے کہا ” لا سواء، قتلانا فی الجنة وقتلا کم فی النا ر“ (ابن ہشا م، واقد ی ، بیہقی ، مسند احمد ،بخاری، ابن ابی شیبہ بحوالہ السیرة النبیویة : 38)

بہر حال واقعہٴ احد کی یہ مختصر معلو ما ت تھی، اب وا قعة ً احد سے متعلق دو چیزیں بیا ن کی جا رہی ہے ۔ ایک تو واقعہ احد کے ذیل میں قر آ ن نے جو اسباب ہز یمت بلکہ امہا ت اسبا ب ہز یمت بیان کیے ہیں ، وہ اور دوسرے اللہ کی حکمت ومصلحت مومنین کو عا رضی ہز یمت سے د و چا ر کر نے میں کیا ہے ؟چوں کہ یہ مو ضو ع بہت پر خطر ہے ، اس لیے اسلا م کے اولین معما ر حضرات صحابہ کا تعلق اس سے ہے اور صحا بہ پر حر ف گیر ی تو کجا، ان سے بدظن ہو نا بھی محرو می کے لیے کا فی ہے اور میں ایسا کو ئی خطر ہ مو ل لینا نہیں چا ہتا، کیوں کہ ویسے ہی بند ہ سر اپا گنا ہو ں میں ڈو با ہو ا ہے اور ہمار ے پا س یہی ایک سہارا ہے، جس سے ہمیں اپنی نجا ت کی امید ہے اور وہ ہے انبیا ء اور صحا بہ سے محبت، چا ہے نقلی ہی کیو ں نہ ہو ۔
        احب الصالحین ولست منہم
        لعل اللہ یرزقنی صلاحا
بہر حال سیرة المصطفیٰ جو ار دو میں سیرت کی تفصیلی اور محقق کتا ب ہے، جس میں اہل سنت و الجما عت کے مسلک اور اصول کی کا مل تا بع دا ر ی کی گئی ہے ، لہٰذا اس کے حو الے سے کچھ چیزیں اختصارکے ساتھ پیش خدمت ہے:
غزوہ اُحد کی عارضی ہزیمت کے اسباب اور حکمتیں
حق جل وعلانے غزوہ احد کے بیان ﴿وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَہْلِکَ تُبَوِّیٴ الْمُوٴمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَال﴾ سے ساٹھ آیتیں نازل فرمائیں، جن میں سے بعض آیات میں مسلمانوں کی ہزیمت وشکست کے اسباب اور علل ، اسرار وحکم کی طرف اشارہ فرمایا، جو مختصر توضیح کے ساتھ ہدیہ ناظرین ہیں۔

1...تاکہ معلوم ہوجائے کہ اللہ کے پیغمبر کا حکم نہ ماننے، ہمت ہار دینے اور آپس میں جھگڑنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔
﴿وَلَقَدْ صَدَقَکَمُ اللّٰہُ وَعْدَہ اِذْ تَحُسُّونَہُمْ بِاذْنِہ حَتّٰی إذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الاَمْرِ وَعَصَیْتُمْ مِنْ بَّعْدِ مَا أرَاکُمْ مَا تُحِبُّونَ مِنْکُمْ مَنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَنْ یُّرِیْدُ الٰاخِرَةِ ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْہُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ وَاللّٰہُ ذُوْ فَضْلٍِ عَلَی الْمُوٴمِنِیْن﴾․
”اور تحقیق اللہ تعالیٰ نے تم سے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا،جب کہ تم اللہ کے حکم سے کافروں کو قتل کر رہے تھے اور آپس میں جھگڑنے لگے اور حکم عدولی کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمہاری محبوب چیز، یعنی فتح ونصرت تم کو دکھادی، بعض تم میں سے دنیا چاہتے تھے اور بعض، خالص آخرت کے طلب گار تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تم کو ان سے پھیر دیا، یعنی شکست دی، تاکہ تمہارا امتحان کرے اور تمہاری اس لغزش کو اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا اور اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان پر بڑا فضل کرنے والا ہے ۔“

2... اور تاکہ پکے اور کچے کا اور جھوٹے اور سچے کا امتیاز ہوجائے اور مخلص اور منافقین صادق اور کاذب کا اخلاص اور نفاق، صدق اور کذب ایسا واضح اور روشن ہوجائے کہ کسی قسم کا اشتباہ باقی نہ رہے۔

اللہ تعالیٰ کے علم میں اگر چہ پہلے ہی سے مخلص اور منافق ممتاز تھے، لیکن سنتِ الٰہیہ اس طرح جاری ہے کہ محض علمِ الٰہی کی بنا پر جزا اور سزا نہیں دی جاتی۔ جوشے علم الٰہی میں مستور ہے، جب تک وہ محسوس اور مشاہد نہ ہوجائے اس وقت تک اس پر ثواب اور عقاب مرتب نہیں ہوتا۔ (سیر ة المصطفیٰ : 2/252تا 253)

3... اور تاکہ اپنے خاص محبین اور مخلصین اور شائقینِ لقائے خداوندی کو شہادت فی سبیل اللہ کی نعمتِ کبریٰ اور منتِ عظمیٰ سے سرفراز فرمائیں، جس کے وہ پہلے سے مشتاق تھے اور بدر میں فدیہ اسی امید پر لیا تھا کہ آئندہ سال ہم میں سے ستر آدمی خدا کی راہ میں شہادت حاصل کریں گے، جیسا کہ گزرا۔ اس نعمت اور دولت سے حق تعالیٰ اپنے دوستوں ہی کو نوازتا ہے، ظالموں اور فاسقوں کو یہ نعمت نہیں دی جاتی۔

قال تعالیٰ: ﴿ وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَاءَ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِین﴾․
”اور تاکہ اللہ تعالیٰ مومنین مخلصین کو ممتاز کردے اور تم میں سے بعض کو شہید بنائے اور اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں سے محبت نہیں رکھتے۔“

4... اور تاکہ مسلمان اس شہادت اورہزیمت کی بدولت گناہوں سے پاک اور صاف ہوجائیں اور جو خطائیں ان سے صادر ہوئی ہیں، وہ اس شہادت کی برکت سے معاف ہوجائیں۔

5... اور تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو مٹادے، ا س لیے کہ جب خدا کے دوستوں اور محبین اور مخلصین کی اس طرح خوں ریزی ہوتی ہے، تو غیرتِ حق جوش میں آجاتی ہے اور خدا کے دوستوں کا خون عجیب رنگ لے کر آتا ہے، جس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ جن دشمنانِ خدا نے دوستان خدا کی خوں ریزی کی تھی، وہ عجیب طرح سے تباہ اور برباد ہوتے ہیں۔
        دیدی کہ خون ناحق پروانہ شمع را
        چندان اماں ندارد کہ شب را سحر کند

کما قال تعا لیٰ:﴿ وَلِیُمَحِّصَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا وَیَمْحَقَ الْکَافِرِیْن﴾
” اور تاکہ اللہ تعالیٰ مومنین کا میل کچیل صاف کردے اور کافروں کو مٹا دے۔“

6... اور تاکہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعا لیٰ کی سنت یہ ہے کہ دنوں کو پھیرتے رہتے ہیں، کبھی دوستوں کو فتح ونصرت سے سرفراز کرتے ہیں اور کبھی دشمنوں کو غلبہ دیتے ہیں۔

﴿وَتِلْکَ الَایَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ﴾
”اور ان دنوں کو ہم لوگوں میں باری باری پھیرتے رہتے ہیں۔“

مگر انجام کا غلبہ دوستوں کا رہتا ہے ﴿والعاقبة للمتقین﴾اس لیے کہ اگر ہمیشہ اہلِ ایمان کو فتح ہوتی رہے، تو بہت سے لوگ محض نفاق سے اسلام کے حلقہ میں آ شامل ہوں، تو مومن اور منافق کا امتیاز نہ رہے اور یہ نہ معلوم ہو کہ کون ان میں سے خاص اللہ کا بندہ ہے اور کون ان میں سے عبدالدینار والدرہم ہے۔

اور اگر ہمیشہ اہلِ ایمان کو شکست ہوتی رہے تو بعثت کا مقصد(اعلائے کلمة اللہ) حاصل نہ ہو، اس لیے حکمتِ الٰہیہ کا مقتضیٰ ہے کہ کبھی فتح ونصرت ہو اور کبھی شکست اور ہزیمت تاکہ کھرے کھوٹے کا امتحان ہوتا رہے۔

قال تعالیٰ:﴿مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَذَرَ الْمُوٴْمِنِیْنَ عَلیٰ مَا أنْتُم عَلَیْہِ حَتّٰی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبْ﴾” اللہ تعالیٰ مومنین کو اس حالت پر نہیں چھوڑنا چاہتے، یہاں تک کہ جدا کردے ناپاک کو پاک سے اور انجام کار غلبہ اور فتح حق کو ہو۔“ (جاری)

Flag Counter