سفرِ دیوبند احساسات ومشاہدات
ضبط وترتیب: مفتی معاذ خالد
گزشتہ دنوں امیر جمعیت علمائے ہند حضرت مولانا سیّد ارشد مدنی مدظلہ العالی کی دعوت پر پاکستان کے جید علما ء کرام کے ایک وفد نے عالم اسلام کے مشہور ادارے اور برصغیر کے مدارس کی علمی اور تاریخی بنیاد” دارالعلوم دیوبند“ کا دورہ کیا۔جامعہ فاروقیہ کراچی کے ناظم اعلی، استاد حدیث اور ماہنامہ الفاروق کے مدیر حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب، مولانا خلیل احمد صاحب ناظم تعلیمات ،جامعہ فاروقیہ اور مفتی حماد خالد استاد جامعہ فاروقیہ بھی اس وفد کے ہم راہ تھے۔ دارالعلوم دیوبند کے عالم اسلام پر گہرے اور عظیم الشان علمی اثرات، بے مثال قربانیوں اور بیش بہا خدمات کی بناء پر مسلمانانِ عالم کے دلوں میں جو عقیدت موجود ہے، اس کے پیش نظر طلبائے جامعہ فاروقیہ کی دلی خواہش تھی کہ اس سفر کی روئیداد ان کے سامنے بھی آجاتی۔ چناں چہ حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب نے جامعہ کے طلبا کے ایک عظیم اجتماع میں اس سفر کی تفصیلات ارشاد فرمائیں۔ موضوع کی اہمیت اور دلچسپی کے حوالے سے قارئین الفاروق کو بھی اس میں شریک کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)
بہت آرام دہ گاڑیوں کا انتظام تھا۔ ان میں ہمیں واہگہ بارڈر سے 23 کلو میٹر کے فاصلے پرامر تسر شہر لے جایا گیا۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ بارڈر سے لاہور اور امر تسر کی مسافت بالکل یکساں ہے، یعنی بارڈر سے امر تسر بھی 23 کلو میٹر ہے اور بارڈر سے اِدھر لاہور بھی 23 کلو میٹر ہے۔ بہ ہرکیف، امرتسر شہر پہنچ گئے۔
امر تسر ایک تاریخی شہر ہے۔ آپ نے جامعہ اشرفیہ لاہور کے بانی حضرت مولانا مفتی محمد حسن امر تسری رحمة الله علیہ کا نام سنا ہوگا۔ حضرت تھانوی کے خلیفہ ہیں۔ وہ امرتسر ہی کے تھے۔
ہمیں امر تسر میں ایک بہت گنجان بازار لے جایا گیا جس کا نام ہال بازار ہے۔ مسجد خیر الدین ایک تاریخی مسجد ہے۔ حضرت سید عطا ء الله شاہ بخاری رحمة الله علیہ نے اسی مسجد میں تعلیم حاصل کی۔ اسی طرح حضرت مولانا مفتی محمد حسن امرتسری رحمة الله علیہ نے جامعہ اشرفیہ کی بنیاد بھی اس مسجد خیر الدین میں رکھی۔ اسی طرح بہت اہم بات یہ ہے کہ جمعیت علماء ہند کی تاسیس بھی مسجد خیر الدین میں ہوئی۔ وہاں ہم نے ظہر کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد وہاں بہت بڑے اجتماعی کھانے کا اہتمام تھا۔ ساتھیوں نے کھانا کھایا، اس کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ چار بج کر پچاس منٹ پر آپ کی ٹرین ہے جو امر تسر سے دلی جائے گی۔ امرتسر سے دلی تک کا راستہ تیز رفتار ٹرین کے ذریعے چھے گھنٹے کا ہے۔
چناں چہ کھانے سے فارغ ہوئے تو ٹرین کا وقت قریب آچکا تھا۔ پھر ہمیں گاڑیوں کے ذریعے اسٹیشن لے جایا گیا۔ امرتسر ریلوے اسٹیشن پر ”شتابدی ایکسپریس“ نامی ٹرین میں ہم کل چوبیس افراد کی ریزرویشن پہلے سے تھی۔ ان میں بعض میزبان تھے جن میں دیوبند سے آئے ہوئے حضرت مولانا اسجد مدنی دامت برکاتہم اور دیگر علما شامل تھے۔ وہ حضرات بھی ہمارے ساتھ تھے۔
سفر بہت خوش گوار تھا۔ حیرت اور تعجب یہ ہوا کہ جب ہم اس ٹرین میں سوار ہوئے تو ہوائی جہاز بھی اس سے آرام دہ نہیں ہوتا جتنا آرام اس ٹرین میں تھا۔ بہت ہی آرام دہ ، اعلیٰ اور شان دار سفر ․․․ بڑی بڑی سیٹیں جنہیں آگے پیچھے کرنے کی سہولت تھی۔ سامنے ٹرے لگی ہوئی تھی اور دائیں طرف پانی کی بوتل رکھنے کی ایک جگہ بنی ہوئی تھی۔ دو سیٹیں، بیچ میں راستہ، پھر دو سیٹیں․․․ اس طرح پورا ہال تھا۔ اس میں برتھ نہیں تھے، صرف سیٹیں تھیں۔
ٹرین ٹھیک وقت پر چار بج کر پچاس منٹ پر روانہ ہوئی۔ نہایت تیز رفتار اور نہایت بے آواز۔ اندر کوئی آواز نہیں تھی۔ مسلسل کھانا، پینا، مشروبات، یہ سب اس ٹکٹ میں شامل ہیں جو ٹکٹ اس ٹرین کا دلی تک تھا۔ چناں چہ پہلے کافی دی گئی، پھر تھوڑی دیر بعد چائے دی گئی۔ اس کے تھوڑی دیر بعد کچھ مشروبا ت لائے گئے۔ اس کے بعد پھر کھانے کا وقت ہو گیا تو پھر کھانے کیلئے پوچھا گیا کہ کیا کیا کھانا آپ حضرات پسند کریں گے؟ چونکہ وہ ہندوستان ہے، اس لیے ہمارے میزبانوں کا اور ہمارا، سب کا فیصلہ یہ تھا کہ ہم صرف سبزی یا دال ان سے منگوائیں، گوشت وغیرہ نہ منگوائیں۔ بہت لذیذ اور بہت اچھا کھانا دیا گیا۔
رات گیارہ بجے ہم دلی پہنچے۔ نئی دلی کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو وہاں بہت بڑا مجمع ریلوے اسٹیشن پر موجود تھا۔ دارالعلوم دیوبند کے استاذ الحدیث، مخدوم العلماء حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم بذاتِ خود وفد کے استقبال کیلئے تشریف لائے تھے۔ بہت بڑا استقبال تھا۔ بہت ہی عجیب وغریب قسم کے مناظر دیکھنے میں آئے۔ آنکھوں میں خوشی کے آنسو، ایک دوسرے سے ملنا۔ اس طرح اس قافلے کو اسٹیشن سے باہر لایا گیا۔
یہاں گاڑیوں کا انتظام تھا۔ ان گاڑیوں کے ذریعے جمعیت علماء ہند کے قائم کردہ لودھی روڈ پر اسلامک کلچر سینٹر میں ہمیں لے جایا گیا جو کسی فائیو اسٹار ہوٹل سے کم نہ تھا۔ وہاں رات کا قیام ہوا۔ عشاء کی نماز ہوئی۔ وہاں رات کا آرام ہوا۔ لیکن آرام سے پہلے بتا دیا گیا کہ فجر کی نماز کے بعد سب حضرات تیار رہیں کیوں کہ آگے کچھ مقامات ہیں ہمیں وہاں لے جانا ہے۔
گیارہ بجے تو ہم دلی اسٹیشن پہنچے تھے۔ پھر آگے آپ سوچ لیجیے کہ مہمان خانہ پہنچنے میں، اپنے اپنے کمروں تک پہنچنے میں، اور بستر تک پہنچنے میں بھی اچھا خاصہ وقت لگا۔ ڈھائی بج گئے۔ او رحکم یہ تھا کہ فجر کی نماز کے بعد فوراً تیاری رہے۔ چناں چہ الحمدلله سب حضرات فجر کے بعد تیار تھے۔ گاڑیاں آگئیں۔ وہاں سے پھر شیخ المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمہ اللہ کے مزار پر حاضری دی۔ آپ جانتے ہیں کہ حضرت نظام الدین اولیا کے مزار کے ساتھ بنگلے والی مسجد اور دعوت وتبلیغ کا عالمی مرکز نظام الدین ہے، ہمیں لے جایا گیا۔
وہاں پہلے تو حضرت مولانا زبیر الحسن صاحب کی تعزیت کیلئے پورا وفد گیا جن کا ابھی قریب ہی میں انتقال ہوا ہے۔ حضرت مولانا زبیر کے صاحب زادگان سے ملاقات ہوئی، اور جو دیگر اکابر جو وہاں موجو دتھے، مثلا حضرت مولانا احمد لاٹ صاحب، مولانا ابراہیم صاحب اور حضر ت مولانا قاری محمد عثمان صاحب استاذ الحدیث دار العلوم دیوبندوغیرہم سے ملاقات ہوئی۔ خاصی دیر اُن حضرات کے پاس بیٹھک رہی۔ حال احوال ہوا۔ پھر، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمہ اللہ کی قبر پر حاضری دی۔
یہاں سے فراغت کے بعد ہم دلی ہی کے ایک علاقہ ”مہندیان“ میں موجود قبرستان ”مہندیاں“ گئے۔ یہ بڑا عظیم الشان قبرستان ہے۔ اس قبرستان میں حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمة الله علیہ اور ان کا اچھا خاصا خانوادہ جیسے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ، شاہ رفیع الدین محدث دہلوی، شاہ عبد القادر محدث دہلوی ، شاہ عبد الغنی محدث دہلوی دفن ہیں۔ اس کے علاوہ مجاہد اعظم حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہید کے صاحبزادے شاہ محمد عمر اور دیگر اکابر ولی اللہٰی خاندان کے مزارات بھی یہیں ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ کے والد محترم حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب بھی یہاں مدفون ہیں۔ اور حضرت شاہ محمد رفیع الدین رحمة الله علیہ آرام فرما ہیں۔ ان حضرات کی قبریں کچی ہیں، لیکن ایک پختہ کمرا نما ایک ہال سی جگہ ہے اس کے اندر یہ تمام قبریں ہیں۔
حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمٰن عثمانی اور تحریکِ آزادی کے مجاہد اعظم حضرت مولانا حفظ الرحمٰن سیوھاروی اور استاذ الکل فی الکل حضرت مولانا مملوک علی صاحب کی خدمت میں بھی حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔ اسی قبرستان سے متصل حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے والدِ محترم کا قائم فرمودہ مدرسہ جامعہ رحیمیہ بھی ہے ۔ اس کی زیارت سے بھی مشرف ہونے کا اللہ تعالیٰ نے موقع عطا فرمایا ۔
یہاں سے نکلتے ہی مولانا مفتی عتیق الرحمٰن عثمانی اور تحریکِ آزادی کے مجاہد اعظم حضرت مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی اور استاذ الکل فی الکل حضرت مولانا مملوک علی رحمة الله علیہ کی قبر تھی۔ حضرت مولانا مملوک علی رحمة الله علیہ حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی رحمة الله علیہ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة الله علیہ اور دیگر کئی بہت بڑے بڑے اکابر کے استاد ہیں۔
اس قبرستان سے فراغت کے بعد ہم دوپہر تک اسی مہمان خانے آگئے جہاں سے ہم صبح فجر کے بعد چلے تھے۔ ابھی ہم وہاں پہنچے ہی تھے کہ پیغام آگیا کہ سب تیار رہیں، اب دیوبند کا سفر ہے ۔ اگرچہ تھکاوٹ بہت تھی، رات کو بھی دیر ہوگئی تھی، صبح فجر کے بعد سے بھی مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ہو رہا تھا لیکن دیوبند کا نام آتے ہی سب کے چہرے کھل گئے، ساری تھکاوٹ ختم ہوگئی، اور سب پوری بشاشت اور انشراح کے ساتھ تیار ہو گئے۔ گاڑیاں آگئیں اور حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم اور حضرت مولانا اسجد مدنی دامت برکاتہم اور دیگر علماء کی قیادت و معیت میں وہاں سے دیوبند کی طرف روانگی ہوئی۔
دیوبند کا راستہ دلی سے تقریباً ساڑھے چار پانچ گھنٹے کا ہے۔ دلی سے نکلیں تو ایک شہر آتا ہے غازی آباد۔ غازی آباد سے نکلنے کے بعد یہ راستہ آتا ہے۔ پھر میرٹھ ہے، اور میرٹھ سے نکلنے کے بعد شہر کھتولی ہے۔ کھتولی اصل میں ”خطہ دلی“ ہے جسے مقامی زبان نے بگاڑ کر کھتولی کر دیا۔ یہ کھتولی اس لیے ہے کہ کھتولی سے تھوڑے سے فاصلے پر ایک مقام ہے جس کا نام ہے پُھلت۔ پُھلتوہ جگہ ہے جہاں حضرت شاہ ولی الله رحمة الله علیہ کی پیدائش ہوئی۔ گویا حضرت شاہ ولی الله رحمة الله علیہ کی پیدائش کھتولی کی ایک مضافاتی بستی پُھلت میں ہوئی ہے، اس لیے اس کا نام خطہ ولی ہے جسے بگاڑ کر کھتولی کر دیا گیا ہے۔
بہ ہرحال، کھتولی میں قیام ہوا۔ قیام سے مراد یہ کہ عصر کی نماز وہاں پڑھنی تھی۔ وہیں حضرت مولانا ارشد مدنی دامت برکاتہم کے ایک معتقد کا سڑک پر ہی ایک بہت بڑا ہوٹل تھا۔ اس ہوٹل کا نام”چیتل گرینڈ“ ہے۔ سڑک دو طرفہ تھی۔ سڑک کے اس طرف بھی ان کا ہوٹل اسی نام سے تھا اور سڑک کے دوسری طرف بھی اسی نام سے بہت بڑا ہوٹل تھا۔ بڑا خوب صورت۔ اس کے آگے باغیچے میں عمارت تھی۔ انہوں نے اس عمارت کے اندر چاندنیاں بچھائی ہوئی تھیں، صفیں بچھائی ہوئی تھیں۔ مہمان حضرات جب پہنچے تو وضو کرنے بعد عصر کی نماز پڑھی، عصر کی نماز کے بعد پھر انھی صاحب کی طرف سے عصرانہ کا انتظام تھا۔
پھر دیوبند کی طرف سفرشروع ہوا۔ چناں چہ مغرب سے تقریباً آدھا گھنٹے پہلے ہم دیوبند پہنچے۔
دیوبند پہنچنے کی کیفیت اور اس کا منظر بیان کرنے کی صلاحیت مجھ میں نہیں ہے ۔یوں لگتا تھا کہ پورا شہر استقبال کو امڈ آیا ہے۔ دیوبند شہر جیسے ہی شروع ہوا، ہزاروں افراد ہزاروں گاڑیاں کہ چل نہیں پا رہی تھیں، اور اس کے ساتھ نعرے ”علماء پاکستان زندہ باد“، ”سربہ کف، سر بلند، دیوبند دیوبند“ وغیرہ مختلف قسم کے نعرے تھے۔
جیسے جیسے دارالعلوم قریب آتا گیا، پھر طلباء، علماء ․․․ وہ منظر اتنا عجیب وغریب تھا کہ بیان کرنا آسان نہیں ہے۔ اس کی کیفیت، اس کی صورتِ حال بس آپ یوں سمجھئے کہ جولوگ خوشی خوشی استقبال کیلئے آئے ہوئے تھے، ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور جن کا استقبال کیاجارہا تھا ان کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔
اس طرح یہ قافلہ دارالعلوم کی حدود میں داخل ہوا۔ مہمان خانہ دارالعلوم دیوبند کے اندر ہے ۔ ماشاء الله بہت عظیم الشان، قافلہ اس کے مرکزی دروازے پر پہنچا۔ مرکزی دروازے کے بالکل برابر ہی لفٹ کا انتظام بھی ہے۔ جو معذور حضرات تھے جیسے حضرات مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب وھیل چیئر پر تھے، ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب بھی وہیل چیئر پر تھے، حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی صاحب ضعیف اور کمزور ہیں تو ان حضرات کو لفٹ کے ذریعے اوپر لے جایاگیا۔ جو حضرات صحت مند تھے، اور پیدل چل سکتے تھے، وہ سیڑھیوں سے اوپر پہنچے۔ مغرب کی نماز کا وقت ہوچکاتھا اس لیے سب سے پہلے مغرب کی نماز ادا کی گئی۔
اس کے بعد اس مہمان خانے میں قائم ایک خاصی بڑی نشست گاہ میں جس میں صوفے لگے ہوئے ہیں،تمام مہمان اور میزبان اکھٹے بیٹھے۔ سفر کے احوال اور آپس میں ایک دوسرے کی خیر خیریت دریافت کی گئی۔
میزبانوں کو اندازہ تھا کہ مسلسل سفر کی وجہ سے مہمانوں کی یعنی ہماری حالت اچھی نہیں ہے۔ میری طرح سبھی تھکے ہوئے تھے۔ کراچی سے لاہور گئے، صبح کو بارڈر گئے، پھر بارڈر سے امر تسر گئے، پھر دلی گئے، دلی میں پھرتے رہے۔ اس کے بعد پھر دیوبند روانہ ہوئے۔ یہ مسلسل سفر چل رہا تھا، اس لیے تھکاوٹ بہت زیادہ تھی۔ چنانچہ ہمارے میزبانوں نے مغرب کی نماز کے بعد فوراً دسترخوان لگوا دیا۔
ایک بات جو بہت اہم ہے ․․․وہ یہ کہ بارڈر سے لے کر دارالعلوم دیوبند پہنچنے تک اور دیوبند سے واپس بارڈر پہنچنے تک، پورے سفر میں جو بات بہت ہی عجیب ہے اور ہمارے لیے بہت بڑا سبق ہے، وہ یہ کہ بڑے بڑے اکابر جن میں حضرت مولانا ارشد مدنی دامت برکاتہم، حضرت مولانا اسجد مدنی دامت برکاتہم، دارالعلوم دیوبند کے کبار اساتذہ حضرت مولانا سعید احمدپالنپوری دامت برکاتہم (جو اس وقت صدر المدرسین او راستاذ الحدیث ہیں)، حضرت مولانا ریاست علی بجنوری دامت برکاتہم (جو ترانہ دارالعلوم کے خالق ہیں)، حضرت مولانا عبدالخالق مدراسی دامت برکاتہم (جو وہاں کے نائب مہتمم ہیں)، حضرت مفتی ابوالقاسم نعمانی دامت برکاتہم (دارالعلوم دیوبند کے مہتمم) پورے سفر میں ہر وقت ساتھ رہے۔ اگر مہمان چائے پی رہے ہیں تو بھی سامنیموجود ہیں کہ کسی چیز کی کمی تو نہیں ہے؟ چائے آپ کو پسند آئی یا نہیں آئی؟ دستر خوان پر بیٹھے ہیں تو سب اکابرموجود ہیں۔ بعض دفعہ تو ہم شرمند ہو جاتے کہ یہ تو ہمارے اساتذہ کے بھی اساتذہ ہیں، لیکن عاجزی ایسی کہ ہماری خدمت میں لگے ہوئے ہیں، اور مسلسل خدمت کے لیے کمر بستہ ہیں۔
دوسری بات یہ کہ ان کی مہمان نوازی حقیقی تھی، تصنع نہیں تھا۔
ایک اور اہم چیز جو ہم نے اس پورے سفر میں دیکھی، وہ سادگی تھی․․․ کوئی تکلف نہیں تھا۔
بہرحال، رات کے کھانے سے فارغ ہوئے، عشاء کی نماز ہوئی، پھر پتانہیں چلا کہ تکیے پر پہلے سر رکھا یا نیند پہلے آئی۔ یہاں تک کہ فجر کی نماز کا وقت ہوگیا۔ فجر کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد پھر یہ پیغام پہنچا کہ فوراً ناشتا ہو گا اورپھر ناشتے کے بعد آپ سب پھر سفر کیلئے تیار رہیں۔ ہم سب تیار ہو گئے ۔ پتا چلا کہ ہمیں نانوتہ، گنگوہ، انبیٹھہ، سہان پور اور رائے پور جانا ہے۔
آپ سب جانتے ہیں کہ نانوتہ میں حضرت مولانامحمد یعقوب نانوتوی جو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے استاذ ہیں، دارالعلوم کے اس زمانے کے صدر مدرس تھے، ان کی قبر ہے۔ اسی طرح اوربہت سے بڑے بڑے اکابر کی قبریں ہیں۔ چنانچہ نانوتہ پہنچے اور وہاں ان حضرات کے ہاں حاضر ہوئی۔
نانوتہ سے فارغ ہونے کے بعد وہیں حضرت مولانا ارشد مدنی دامت برکاتہم کے صاحب زادے حضرت مولانا اظہر مدنی کے قائم کردہ ایک مدرسے جانا ہوا۔ وہاں ان حضرات کی طرف سے اکرام کا بھی انتظام تھا۔
یہاں سے فارغ ہونے کے بعد گنگوہ کا سفر ہوا۔ آپ کو علم ہے کہ گنگوہ میں فقیہ النفس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نور اللہ مرقدہ کی قبر ہے۔ ان کی قبر پر حاضری ہوئی۔ یہاں عجیب پُر انوار کیفیت محسوس ہوئی۔ یہیں حضرت گنگوہی کی صاحبزادی صفیہ اور آپ کے صاحبزادے حضرت مولانا حکیم مسعود احمد اور حضرت کے پوتے حضرت مولانا حکیم عبدالرشید محمود عرف حکیم ننو میا ں خلیفہ ء مجاز حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی بھی آرام فرما ہیں۔ اللہ ان حضرات کے درجات کو بلند سے بلند تر فرمائے۔ آمین !
وہاں سے فارغ ہونے کے بعد انبیٹھہ جانا ہوا۔ یہ گنگوہ کے ساتھ لگا ہوا نہیں ہے، بلکہ تمام علاقے فاصلے فاصلے پر ہیں۔
انبیٹھہ میں حضرت مولانا خلیل احمد سہان پوری ( صاحب بذل المجھود) اور دیگر اکابرین کی قبروں پر حاضری ہوئی۔
وہاں سے فراغت کے بعد سہان پور جانا ہوا۔ سہارن پور میں دوپہر کے کھانے کی دعوت شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمة الله علیہ کے صاحب زادے حضرت مولانا محمد طلحہ کاندھلوی کے ہاں تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ دعوت حضرت شیخ الحدیث رحمة الله علیہ کے کچے مکان میں تھی۔ اس گھر کا نام ہی کچا مکان ہے جس میں حضرت کا قیام رہا او رحضرت کی اکثر کتب کی تصنیف بھی اسی گھر میں ہوئی۔
اگر آپ نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہوتو آپ کو اس سے پتا چلے گا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے دو نمایاں دَور گزرے ہیں۔ ایک حضرت شیخ الہند محمود حسن دیوبندی رحمة اللہ علیہ کا دور ہے، اور دوسرا حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمة الله علیہ کا دور ہے۔ حضرت شیخ الہند رحمة الله علیہ کے دور میں بھی ایک اتحاد ثلاثہ تھا جس میں تین دوست تھے: حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوری رحمة الله علیہ، حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوری رحمة الله علیہ اور حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمة الله علیہ۔ یہ آپس میں بہت گہرے دوست تھے۔ ان کی آپس میں بہت زیادہ قربت تھی۔ اگر آپ بہت باریکی کے ساتھ مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ تحریک ریشمی رومال اسی اتحاد ثلاثہ کا نتیجہ تھی۔
اس کے بعد دوسرے دور میں بھی ایک اتحادِ ثلاثہ ہے۔ اس میں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمة الله علیہ ، حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمة الله علیہ اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمة الله علیہ شامل ہیں۔ ان کا بھی آپس میں بہت گہرا تعلق تھا۔ حضرت مدنی رحمة الله علیہ اورحضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمة الله علیہ او رحضرت شیخ الحدیث رحمة الله علیہ آپس میں بہت گہرے دوست تھے۔ یہ حضرات کثرت سے حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمة الله علیہ کے اسی مکان پر تشریف لاتے تھے جو ”کچا مکان“ کے نام سے مشہور ہے، اور حضرت شیخ الحدیث کے صاحبزادے حضرت مولانا محمد طلحہ کاندھلوی نے پاکستانی وفد کی ضیافت اسی کچے میں رکھی تھی۔ یہ کچا مکان اب بھی اُسی حالت میں ہے۔ کوئی ردوبدل، کوئی تبدیلی نہیں ہے۔
یہ میری رائے ہے کہ ہر طالب علم کے پاس حضرت شیخ الحدیث رحمة الله علیہ کی ”آپ بیتی“ ضرور ہونی چاہیے۔ اگر اپنے اکابر کا تعارف آپ چاہتے ہیں اور دیوبند کا مزاج آپ سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے حضرت شیخ الحدیث کی آپ بیتی ضرور پڑھیں۔ سر سری نہیں․․․ نشان لگا کر کہ آج اتنی پڑھی، کل اتنی پڑھی․․․ اس طرح۔ اسے اپنے سرہانہ رکھیں اور ضرور مطالعہ کریں۔(جاری ہے)