میری تمام سرگزشت، کھوئے ہوؤں کی جستجو
مولانا محمد رحیم سمیجو تھری
حضرت فقیہ العصر، شیخ الحدیث مولانا عبدالغفور قاسمی رحمہ الله کا شمار اسلاف میں ہوتا ہے، پاک وہند پہ انگریز سام راج کا دور تھا کہ ضلع ٹھٹھہ کے ایک قصبہ کجو نامی میں 1361ھ بمطابق1942ء میں مولانا محمد قاسم صاحب میمن کے گھر الله رب العزت نے ایک بچہ عطا فرمایا والدین نے نومولود کا نام عبدالغفور رکھا، اسی عبدالغفور نامی بچے کو دنیا فقیہ العصر شیخ الحدیث عبدالغفور قاسمی کے نام سے جانتی ہے۔
تعلیم
حضرت والا نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں اپنے والد گرامی اور دیگر اساتذہ سے حاصل کی، پھر سجاول میں دارالعلوم ہاشمیہ میں بھی زیر تعلیم رہے، جہاں آپ کے اساتذہ مولانا نور محمد سجاولی، مولانا عبدالله میمن تھے اور حضرت والا نے ظاہر پیر کے مدرسہ انوریہ حبیبیہ میں حضرت مولاناحبیب الله گھانوی او رحضرت مولانا منظور احمد نعمانی مرحوم سے بھی تعلیم حاصل کی، دورہ حدیث کے لیے دنیا کی معروف اسلامی درس گاہ جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی تشریف لے گئے، 1964-65ء میں یہاں سے دورہ حدیث کیا، حضرت مولانا سید محمدیوسف بنوری، مولانا مفتی ولی حسن ،مولانا محمد ادریس میرٹھی ایسے فاضل یگانہ روز گار شخصیات سے تعلیم حاصل کی۔
دورہ حدیث کے امتحان میں اوّل پوزیشن حاصل کی اور یوں اپنے اساتذہ کی نظروں میں لائق ترین اور قابل فخر شاگرد قرار دیے گئے۔
حضرت والا کو حضرت الاستاذ مولانا محمد یوسف بنوری اپنے جامعہ میں مدرس رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن مولانا نور محمد سجاولی کے کہنے پر آپ دارالعلوم ہاشمیہ آگئے اور یہاں سے اپنی تدریسی خدمات کا آغاز کیا۔
قیام مدارس
حضرت والا نور الله مرقدہ نے سجاول، ٹھٹھہ، بدین، تھرپاکر اور سندھ کے خطہ میں محنت سے مدارس اسلامیہ اور مکاتب قرآنیہ قائم فرمائے اور بہتسی مساجد بنوائیں،جن کی نگرانی اور سر پرستی حضرت والا خود ہی فرمایا کرتے تھے۔ علاوہ ازیں تنظیم ”اصلاح المدارس“ کے نام سے 95 مدارس ہیں، جن کی سرپرستی حضرت والا فرماتے تھے۔
علمی کمال
حضرت والا نور الله مرقدہ نے تحصیل علوم دینیہ سے فراغت کے بعد اپنی زندگی بطور معلم شروع کی تھی جو تمام مشاغل میں بہترین مشغلہ ہے ۔ حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”انما بعثت معلماً“ میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔چناں چہ زندگی کے آخری لمحات تک یہ فریضہ انجام دیتے رہے ۔ ابتدائی عربی فارسی کی کتابوں سے لے کر دورہ حدیث تک تعلیم دی ۔بے حد کام یاب اور مقبول اساتذہ میں سے تھے۔ جس طرح وعظ وتقریر مؤثر ہوتی تھی اسی طرح حضرت والا کادرس بھی نہایت مؤثر اور دل نشیں ہوتا۔ بڑے انہماک اور نہایت شوق وذوق سے پڑھاتے تھے۔ حضرت والا نور الله مرقدہ اس دور کے بہترین انسان ، عالم ربانی ، بے مثال رہبر اورراہ نمائے کامل تھے، مسلم وغیر مسلم اور ہر ایک مکتب فکر کے لوگ آپ کو الله کا ولی کامل اور محبوب سمجھتے تھے۔ ایک بار حضرت والا برطانیہ میں ختم نبوت کانفرنسوں کے سلسلے میں مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کے ہم سفر تھے۔ جب مولانا محمدیوسف لدھیانوی نے سائیں قاسمی صاحب کے بیانات سنے تو فرمایا قاسمی صاحب! لگتا ہے کہ آپ کو کسی بڑی بزرگ ہستی کی دعائیں ہیں !تو سائیں قاسمی صاحب نے ان سے کہا کہ ہاں! مجھے میرے استاد اور مرشد مولانا نور محمد سجاولی کی دعائیں ہیں۔
حضرت والا کے ہزاروں شاگرد ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں، جنہوں نے ان سے علم وعمل کا فیض حاصل کیا اور اب ملک بھر میں اپنے عظیم الشان استاد کا مشن آگے بڑھارہے ہیں۔
علاوہ ازیں آپ کے خاص شاگردوں میں مولانا محمد صالح صاحب الحداد، مفتی نذیر احمد عمرانی صاحب، مولانا محمد عیسی سموں، مولانا حسین شاہ سجاولی صاحب (مدیر ماہنامہ الفاروق سندھی)، مولانا محمد ابراہیم سومرو، مولانا مرحوم محمد عمرمگسی، مولانا عبدالرؤف پنھور، مولانا علی محمد مگسی، مولانا محمد اسماعیل میمن، مفتی آدم سمیجو، مفتی حماد الله سمیجو ، مولانا عبیدالله تھری، مفتی امتیاز احمد سمیجو، مولانا الله نواز سمیجو اور راقم الحروف شامل ہیں، جو اپنے مرحوم استاد کافیض لوگوں تک پہنچا رہے ہیں۔
عملی کمال
حیرت انگیز طور پر تھوڑے وقت میں حضرت والا بہت سے کام انجام دے لیا کرتے تھے۔الله والوں کے وقت میں ایسی ہی برکت ہوا کرتی ہے، جو عام انسانوں کی سمجھ سے بالاتر ہوتی ہے۔ چناں چہ حضرت والا کے معمولات کو دیکھنے سے عقل حیران رہ جاتی ہے کہ ایک شخص تنہا اتنا کام کیسے انجام دے لیتا ہے؟ کثرت اسفار، اصلاح وتبلیغ ، واردین وصادرین کی حاجت برآری، مہمانوں کی ضیافت، بے کسوں کی امداد اور یتیموں، بیواؤں اور لاوارثوں کی کفالت اور تمام اذکار ومعمولات کی بجا آوری، اساتذہ وطلباء کی نگرانی، مطالعہ کتب، دو مدرسوں کے برابر تدریسی کام اور تصنیف وتالیف کا اہم مشغلہ، یہ سب آپ کے روزہ مرہ کے معمولات تھے۔ حضرت والا کی زندگی درس وتدریس، عبادت وریاضت اور قرآن کریم سے شغف تھی۔
تواضع وانکساری
دنیا سے بے رغبتی اور استغنا کا بہترین نمونہ تھے ، طلباء، علماء ،اولاد ہر طبقہ کی اصلاح کا جذبہ حضرت والا نور الله مرقدہٴ میں بدرجہ اتم موجود تھا۔
وعظ ونصیحت
حضرت والا نور الله مرقدہ کی تمام زندگی رشد وہدایت، اصلاح وتبلیغ، وعظ وتذکیر میں گزری، آپ کا وعظ وبیان نہایت مؤثر ہوا کرتا تھا۔ آپ اپنے وعظ میں معاصی سے اجتناب اور اعمال صالحہ کی ترغیب نہایت دل سوزی کے ساتھ مؤثر انداز میں بیان فرماتے۔ آپ کے وعظوں سے بہتوں کی اصلاح ہوتی، بہت سے لوگ رسومات فاسدہ اور بدعات سے تائب ہوئے۔کتنوں کے معاملات واخلاقیات درست ہوئے اور کتنوں میں حسن معاشرت کا سلیقہ آگیا۔ تحریک نظام مصطفی، تحریک تحفظ ختم نبوت، تحریک ناموس رسالت اور امریکی دہشت گردی کے خلاف تحریک میں ان کا بہت بڑا کردار رہا۔
محاسن واخلاق کریمانہ
حضرت والا نور الله مرقدہ کو الله پاک نے بے پایاں محاسن وخوبیوں سے نوازا تھا، گویا کہ حضرت والا اخلاق نبوت کے مظہر تھے، بچپن سے سادگی، نرم خوئی، تواضع، لطافت ونفاست سے مالا مال تھے، دینی فرائض وواجبات کا بڑا اہتمام فرماتے تھے، دینی تعلیم حاصل کی، بزرگوں کی صحبت میں رہے، تعلیم، دعوت واصلاح ، ریاضت و مجاہدہ اور شیخ وقت اور مرشد کامل کی کیفیت ونگاہ کیمیا ساز نے نبوی اخلاق سے آراستہ کر دیا تھا۔ حضرت والا عبادت ہی میں نہیں، معاملات، اخلاقیات اور عام زندگی کے برتاؤ ولین دین میں اتباع سنت اور اسوہٴ رسول صلی الله علیہ وسلم پر عامل وکار بند تھے اور اسی نظر کیمیا ساز نے فرشتہ خصلت اور اکابر واسلاف کی چلتی پھرتی اور جیتی جاگتی تصویر بنا دیا تھا، یہ زبان زد خلائق تھا کہ آپ کو دیکھ کر الله یاد آجاتا ہے #
یہی ہیں جن کے سونے کو فضیلت ہے عبادت پر
انہی کے ارتقاء پر ناز کرتی ہے مسلمانی
انہی کی شان کو زیباہے نبوت کی وراثت بھی
انہی کا کام ہے دینی مراسم کی نگہبانی
خدا یاد آئے جن کو دیکھ کر وہ نور کے پتلے
نبوت کے یہ وارث ہیں یہی ہیں ظل رحمانی
سادگی کا یہ عالم تھا کہ بعض اوقات جامعہ کے شعبہ قرآن کریم کے چھوٹے بچے آپ کے چاروں طرف حلقہ بناکر بیٹھ جاتے او رایسی بے تکلفانہ گفت گو کرتے جیسے والدین اپنے بچوں سے کرتے ہیں اور آپ انتہائی شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی باتیں سنتے۔ ایک مرتبہ جامعہ میں شیخ الحدیث وصدر وفاق المدارس العربیہ حضرت مولانا سلیم الله خان صاحب دامت برکاتہ وفیوضہ، وادام الله علینا ظلہ تشریف لائے تو حضرت والا نے مولانا سلیم الله خان صاحب کا اتنا اعزاز واکرام کیا کہ ہم حیران رہ گئے، آپ جیسی شخصیات کے بارے میں شاعر نے کہا ہے #
پیدا کہاں ہیں ایسی پرانی طبع کے لوگ
افسوس کہ تم کو میر سے صحبت نہ رہی
قبولیت عامہ
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب الله پاک کسی بندہ سے محبت فرماتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام سے فرما دیتا ہے کہ میں فلاں بندہ سے محبت کرتا ہوں، تم بھی اس سے محبت کرو ، چناں چہ جبرئیل علیہ السلام اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر جبرئیل علیہ السلام بحکم خدا وندی ، آسمان میں اعلان کرتے ہیں کہ فلاں شخص سے الله پاک محبت کرتے ہیں تم سب اس سے محبت کرو، تو سارے آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر اس بندہ کی قبولیت زمین میں رکھ دی جاتی ہے چناں چہ تمام زمین والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ۔ (مسلم شریف، جلد ثانی)
حضرت والا نور الله مرقدہ بلاشبہ اس مقام پر فائزتھے، تمام زمین والوں کے دل میں حضرت والا کی محبت رکھ دی گئی تھی، چناں چہ اپنی ممتاز علمی صلاحیت اور بے مثال دعوتی واصلاحی جذبہ، سلف صالحین کی اعلیٰ اقدار، سادگی، اتباع سنت، بلا امتیاز، خدمت خلق کے لیے تڑپ اور بے چینی کی بناء پر مسلم وغیر مسلم، قرب وجوار اطراف واکناف کے سارے لوگ آپ سے عقیدت ومحبت رکھتے تھے #
تواضع وسادگی، مردانگی، زہد وفاقہ کشی
محمد کے مشن کا ترجمہ تھی تیری پالیسی
مرض وفات او رانتقال پرُملال
شوگر کے مریض تھے، باربار عوارض نے گھیرا آپریشن ہوئے، لیکن بیماری کو اپنے پر مسلط نہیں ہونے دیا ، بیسیوں عمرے، حج وطواف ملکی وغیر ملکی اسفار سب جاری رہے، آخری بار گلے کے آپریشن کے لییپٹیل ہسپتال کراچی گئے25 نومبر2013ء کو صبح آفتاب رشدوہدایت، ولی کامل نے پیغام اجل کو لبیک کہا، نماز جنازہ حضرت الاستاذ مولانا محمد صالح الحداد صاحب نے پڑھائی، قرب وجوار اور اطراف واکناف کے ہزاروں افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی ، کوئی بھی ایسا نہ تھا جو اشک بار نہ ہو۔
اب جامعہ کے درودیوار زبان حال سے پکار رہے ہیں #
ہمارے بعد اندھیرا رہے گا محفل میں
گرچہ بہت چراغ جلاؤ گے روشنی کے لیے
آپ کی رحلت سے صرف آپ کے متعلقین ، مریدین اور عقیدت مند ہی یتیم نہیں ہوئے، بلکہ پوری امّت یتیم ہو گئی ہے، ایسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے #
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
آپ کی وفات کی وجہ سے دل حزیں ہے، قلب غمگین ہے، جگر شق ہونے کو ہے ، آنکھوں سے آنسورواں ہیں، اس لیے کہ برصغیر ایک ایسی عظیم ہستی سے محروم ہو گیا ہے جس کا وجود امّت کے لیے الله تعالیٰ کا ایک بڑا عطیہ تھا۔
دعا ہے کہ الله تعالیٰ حضرت والا کی دینی خدمات کو قبول فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے، ان کے فیض کو مزید عام فرمائے اور ہم سب کو اخلاص وللّٰہیت کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔
صدائے دل #
جہاں تک پہنچے میری یہ صدا
وہ کرے حضرت کے لیے یہ دعا
کہ یاربّ کر تو ان کے درجات بلند
کہ کی انہوں نے تیرے دین سے وفا