Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1435ھ

ہ رسالہ

2 - 16
نئے تعلیمی سال کے موقع پر طلبہٴ عزیز سے کچھ باتیں

مفتی محمد راشد ڈسکوی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی

شوال المکرم کے مبارک مہینے سے دینی مدارس کی دو ماہ سے جاری ویرانی اور بے آبادی دور ہو کر دوبارہ رونقیں لوٹ آتی ہیں، علوم دینیہ کے حصول کے جذبات سے سرشار طلبہٴ کرام میل ہا میل کے سفر کی صعوبتوں کو طے کرتے ہوئے ، مشفق، محترم ومکرم والدین اور اعزہ واقربا کی جدائی کو برداشت کرتے ہوئے، اپنے وطن میں گزرنے والے شب وروز کی سہولتوں کو ترک کر کے پردیس کی مشکلات تک کو برداشت کرنے کی نیت سے مدارس کو اپنا وطن بناتے ہیں، اپنے اساتذہ کو اپنے والدین کا قائم مقام تصور کر کے ، اپنے طلبہ ساتھیوں کو اپنے بھائیوں کا درجہ دیتے ہوئے سالہا سال کا سفر طے کرتے ہیں۔

قربانیوں کے اعتبار سے امتِ مسلمہ کے اس طبقے کو دیکھا جائے تو یقینا ان کی قربانیاں بے مثال ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اُن اَفراد کی قربانیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جن کو چھوڑ کے یہ طبقہ آیا ہوتا ہے، مثلاً:

ان طلبہ کے ”والدین “کی قربانی کو دیکھ لیا جائے، اولاد جیسی بھی ہو، اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے، والدین کے دلوں میں پیوستہ اولاد کے بارے میں محبت کس شخص کی نظر سے مخفی ہے؟! اولاد کو کوئی تکلیف آ پہنچے، والدین کی راتوں کی نیندیں اُڑ جاتی ہیں، اولاد کی راحت کی خاطر خود بے آرام ہو جاتے ہیں، ان کی راحت کی خاطر جتنا سرمایہ لگانا پڑے، لگاتے ہیں، خود اپنے پاس نہ ہو تو قرض تک لینے سے دریغ نہیں کرتے، کسی بھی والد سے پوچھ لیں ، حصول ِ معاش کے لیے دن رات کی ان تھک محنت کس لیے کرتے ہو؟ تو جواب ملے گا کہ بیوی بچوں کی خاطر، ان کے مستقبل کو سنوارنے کی خاطر۔ اب جب اسی اولاد نے بڑا ہونا تھا تو اس نے اپنے والدین کا دست بازو بننا تھا، ان کے کاروبار میں ان کا معاون بننا تھا، ان کے بڑھاپے میں ان کی راحت اور سکون کا سبب بننا تھا، برسہا برس سے یہ والدین مشقتیں جھیلتے آرہے تھے، اِس کے نتیجے میں جب اُس اولاد نے ان کا سہارا بننا تھا تو اِن بوڑھے والدین کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچنا تھی، اِن کو دو پَل سکون کے ملنے تھے، لیکن یہ والدین اپنی اولاد کی طرف سے ملنے والے ان فوائد کے حصول کی تمنا کو قربان کرتے ہیں، جس کاروبار میں اولاد کا تعاون حاصل ہونا تھا، اس کاروبار کے بوجھ کو تنہااپنے کندھوں پر ہی اُٹھائے رکھنے کا فیصلہ کرتے ہیں، ”والدہ “ اپنے دل پر سینکڑوں من وزنی پتھر رکھ کے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو اپنے سے جدا کر کے میلوں دور کے سفر پر بھیجنے کا فیصلہ کر لیتی ہے، ”بھائی“ اپنے ہم عمر ، ہم سفر ، ہم راز اور ہم مزاج بھائیوں کی جدائی کو برداشت کرنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں، ”بہنیں“ اپنے ہر دل عزیز بھائیوں کی شفقت سے محروم رہنے کو برداشت کر لیتی ہیں، کس لیے؟! اِ ن سب جدائیوں کو برداشت کرنا کس لیے ہوتا ہے؟! اِس کا صاف اور سیدھا سادھا جواب یہی ہے کہ اُن کا بیٹا، اُن کا لختِ جگر، اُن کا بھائی وراثت نبی صلی الله علیہ وسلم کو اپنے سینے میں جمع کرنے والا بن جائے، اُن کا یہ عزیز صفاتِ نبویہ اور اَخلاق و جذباتِ نبویہ کا حامل بن جائے، وہ اُن باکمال صفات کو اپنے اندر پیدا کر لینے والا بن جائے جن کی بدولت وہ امتِ محمدیہ علی صاحبہا الف الف صلوات کی بے مثال قیادت کرنے کا اَہل بن سکے، پورے عالَم میں دین زندہ کرنے کی محنت کر سکے، معاشرے کے اندر ہر سُو پھیلی ہوئی برائیوں کو دور کرتے ہوئے ایک صالح اور پُر امن معاشرے کے قیام کا سبب بن سکے۔خاندانوں کی ازلی دشمنیوں کو ختم کرنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کر سکے، بے نمازیوں کو نمازی بنا سکے، معاشرے کی بیٹیوں کے سروں پر دوپٹہ رکھ سکے، معاشرے کی ماوٴں بہنوں کی آنکھوں میں حیا پیدا کرنے کا سبب بن سکے، اِن اور اِن جیسے بہت سارے جذبات کو اپنے اندر رکھے ہوئے معاشرے کے اَفراد اپنے عزیزوں کو مدارسِ دینیہ کی طرف بھیجتے ہیں۔

اِن بہت ساری حقیقتوں کے ہوتے ہوئے، بلکہ اِن سے کہیں زیادہ قربانیوں کے ہوتے ہوئے ہمارے طلبہ ساتھی اِن سب سے آنکھیں بند کرتے ہوئے اپنا وقت گزار لیں تو کیا یہ پورے معاشرے پر ظلم نہ ہو گا؟؟!! ہوگا، بالکل ہو گا، بلکہ اس سے بھی خطرنک یہ ہوگا کہ ایسا طالبِ علم اپنے اوپر آٹھ سال گزارنے کے بعد عالِمِ دین کا لیبل چسپاں کر کے دوسرے معصوم نوجوانوں کے علمِ دین کے حصول سے تنفُّر کا سبب بنے گا، معاشرے کے اوپر بوجھ بن جائے گا اور اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ عین ممکن ہے کہ ضالٌّ ومضلٌّ کا مصداق بن جائے۔

اِ ن سب باتوں کے سامنے ہوتے ہوئے خیال ہوا کہ عزیز طلبہ ساتھیوں کی دورانیہٴ تعلیم میں کرنے والے چند اہم اور ضروری کاموں کی طرف راہ نمائی کر دی جائے، شاید کہ کسی طالبِ علم ساتھی کے دل میں کوئی بات اُتر جائے اور اُس کی اتنی بہت ساری قربانیاں ٹِھکانے لگ جائیں اور اُس کی زندگی سنورنے کا ذریعہ بن جائے، اللہم وفقنا لما تحب وترضیٰ

پہلا کام: تصحیح ِ نیت
علم کی افادیت کا تعلق نیت کے صحیح ہونے یا صحیح نہ ہونے سے ہے، اگر حصولِ علم سے مقصود خدانخواستہ دنیا، حب ِ جاہ ہوئی تو یہ نیت اُس طالبِ علم کو اسی دنیا میں دنیا والوں کے سامنے ذلیل کروائے گی اور آخرت میں تو ایسے شخص کو سب سے پہلے جہنم میں اوندھے منہ پھینک دیا جائے گا، یہ علم اُس کے لیے وبالِ جان بن جائے گا، اعاذنا اللہ منہ۔ یہ بات حدیثِ پاک میں مذکور ہے: ”رجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وعلَّمَہُ، وقَرَأالْقُرآنَ، فأُتِيَ بِہ، فَعَرَّفَہُ نِعَمَہ، فَعَرَفَھَا، قال: فَمَا عَمِلْتَ فِیْھَا؟ قَال: تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وعَلَّمّْتُہ، وَقَرَأْتُ فِیْکَ الْقُرْآنَ، قَال: کَذَبْتَ، وَلٰکِنَّکَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِیُقَالَ: إنِّکَ عَالِمٌ، فَقَدْ قِیْلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِہ، فَسُحِبَ عَلٰی وَجْھِہ، حَتّٰی أُلْقِيَفِيْ النَّارِ“۔ (صحیح مسلم)

ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا: علم کو علماء پر بڑائی جتانے ، ناسمجھ عوام سے الجھنے اور مجلسیں جمانے(یعنی: لوگوں کو اپنی ذات کی طرف متوجہ کرنے) کے لیے حاصل نہ کرو، جو شخص ایسا کرے گا، اس کے لیے آگ ہے آگ۔قال( صلی الله علیہ وسلم): لا تعَلَّمُوا العلمَ لِتُبَاھُوْا بہ العلَماءَ، ولا تُمارُوا بہ السُّفَھاءَ، ولاتَخیَّرُوْا بہ المجالِسَ، فمَن فَعَل ذٰلک، فالنَّارُ فالنَّارُ“․ (سنن ابن ماجہ، باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ، رقم الحدیث:۲۵۴)

بلکہ نیت یہ ہونی چاہیے کہ اس علم کے ذریعے پوری دنیا میں دینِ اسلام کو زندہ کروں گا، اس نیت کے کرنے والے کو اسی حالت میں موت بھی آگئی تو اللہ تعالیٰ اس طالبِ علم کا حشر اس طرح فرمائیں گے کہ اُس کے اور انبیاء علیم الصلوات والتسلیمات کے درمیان صرف ایک درجہ کا فرق ہو گا، آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے:

”مَنْ جَآءَ ہُ الْمَوتُ، وھُو یطْلُبُ العِلمَ لِیُحْیِيَ بہ الإسلامَ، فبَینَہ وبینَ الأنبیاءِ فِي الجنةِ درَجَةٌ واحِدَةٌ“․ (جامع بیان العلم وفضلہ، باب جامع في فضل العلم، رقم الحدیث: ۲۱۹، دار ابن الجوزي)

چناں چہ سب سے پہلا کام اپنی نیت کو ٹٹولنا اور اس کو صحیح کرنا ہے اور یہ کام بار بار کرنا ہو گا، جب بھی اپنی نیت کو بگڑا ہوا پائے اسی وقت اپنی نیت کی تصحیح کی جائے۔ایک بات سامنے رہے، اس پہلی بات میں جو عرض کیا جا رہا ہے، وہ ہے تصحیح نیت، اس کا مقتضیٰ یہ ہے کہ اگر حصولِ علم کے وقت نیت ٹھیک نہ ہو تو اس حصولِ علم کو ترک نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اپنی نیت کو درست کر لینا چاہیے اور جب تک نیت درست نہ ہو، محض نیت درست نہ ہونے کی وجہ سے ترکِ علم صحیح نہیں، کیوں کہ بزرگوں کا مقولہ ہے: ”تعلمنا العلم لغیر اللہ، فأبٰی العلوم إلا أن یکون للہ“․(کہ ہم نے علم غیر اللہ کے لیے پڑھا تھا، مگر وہ مانا ہی نہیں، لہٰذا وہ اللہ کا ہو کر ہی رہا)اس لیے علم کے حاصل کرنے کو ترک نہ کرے، بلکہ اپنی نیت کو درست کر لے۔

دوسرا کام: علمی استعداد مضبوط کرنا
تصحیح ِ نیت کے بعد جو اہم ترین کام ہے وہ اپنی علمی استعدادکو مضبوط سے مضبوط کرنا ہے، اس کے لیے پہلے دن سے ہی اپنی کمر کسنا ہو گی، مدارسِ دینیہ میں جتنے بھی علوم پڑھائے جاتے ہیں، اُن میں اپنے آپ کو اتنا ماہر اور مضبوط تر بنانا ضروری ہے کہ علوم کا کوئی سا بھی شعبہ ہو(صرف و نحو ہو یا منطق، علم الکلام ہو یا فلسفہ وبلاغت، اصول فقہ ہو یا فقہ، اصول حدیث ہو یا حدیث، اصول تفسیر ہو یا تفسیر) کسی شخص کے سامنے ان علوم میں آپ کی کمزوری نہ آ سکے اور انہی علوم میں لغزش کھانے والا کوئی بھی اہلِ علم آپ کی نظر سے بچ کے نہ گزر سکے، اس استعداد کے حصول کے لیے اگر حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ کا ملفوظ سامنے رکھ لیا جائے تو انشاء اللہ وہ ہی کافی ہو جائے گا، حضرت فرمایا کرتے تھے، جو طالبِ علم تین کام کر لے ، اللہ تعالیٰ اسے ضرور علم کی دولت سے نواز دیں گے: مطالعہ، سبق میں توجہ سے حاضری اور تکرار۔

ان تینوں کاموں کو بہر صورت انجام دینا حصول ِ علم کی کام یابی کی کنجی ہے، اِن تینوں کاموں کے بارے میں اجمالا یہ عرض کرنا ہے کہ
”مطالعہ“ نام ہے، معلومات کو مجہولات سے الگ کر دینے کا، یعنی: جب آپ سبق میں شریک ہونے سے پہلے کتاب کھول کے مطلوبہ سبق کا مطالعہ کریں ، اُس سبق کو صرفی، نحوی اور لغوی اعتبار سے حل کریں، اُس کے ترجمے ، ترکیب اور مفہوم کے سمجھنے کی کوشش کریں، اس کوشش میں جو جو کام یابی آپ کو حاصل ہو جائے، وہ ”معلومات“ کہلائیں گی اور جو بات سمجھ میں نہ آ سکے، اسے ”مجہولات“ کا نام دیا جائے گا، ”مجہولات “آپ کے ذہن میں مستحضر ہونی ضروری ہیں، تا کہ کسی دوسرے وقت، کسی دوسرے ساتھی یا استاذ سے یا سبق میں انہیں خاص طور پر حل کیا جاسکے، مطالعہ کی اتنی کوشش انشاء اللہ آپ کو آگے سے آگے لے جانے کا ذریعہ بنے گی۔

اس کے بعد ”سبق میں حاضری“ کا مرحلہ ہے، اس مرحلے میں بھرپور کوشش یہ ہونا ضروری ہے کہ آپ سے نہ تو کوئی سبق چھوٹنے پائے اور نہ ہی کسی سبق میں بے توجہی اور غفلت سے شریک ہوں، بلکہ سبق کی ابتدا سے انتہا تک پوری بیدار مغزی سے شرکت ضروری ہے، اس کوشش میں کام یابی کے لیے ضروری ہے کہ دورانِ سبق استاذ کی زبان سے جو بات بھی نکلے اُس بات کے علاوہ کوئی بات آپ کے کانوں میں داخل نہ ہو، اسی طرح آپ کی آنکھ استاذ سے ہٹ کر کسی اور طرف مشغول ہونے والی نہ ہو، نیز! دل ودماغ پوری طرح سبق میں ہی حاضر رہیں، سبق میں سامنے آنے والی باتوں کو ذہن میں محفوظ کرنے کی کوشش کی جائے، اور سبق کے بعد انہیں کاغذ پر محفوظ کر لیا جائے۔

اس کے بعد آخری مرحلہ ”تکرار“ کا ہے،سبق میں سنی ہوئی باتوں کے دُہرانے کو ”تکرار“ کہتے ہیں۔اس مرحلے میں مطالعہ اور سبق میں رہ جانے والی کسریں نکل جاتی ہیں تکرار کا عمل جتنے بھرپور طریقے سے مکمل ہو گا، آپ کی سبق پر گرفت اتنی ہی زیادہ ہو گی، بزرگوں کا مقولہ ہے کہ جو طالبِ علم جتنا زیادہ تکرار کا ماہر ہوگا وہ اتنا ہی بہترین مدرس بن سکے گا۔تکرار کے بارے میں تجربہ یہ ہے کہ تکرار میں بولنے والے کو جو فائدہ حاصل ہوتاہے وہ سننے والے کو نہیں ہوتا، اس لیے زیادہ بہتر یہ ہے کہ تکرار کی جوڑی دو افراد کی ہو، پہلے ایک بولے پھر دوسرا، اگر دو سے زیادہ ہوں، تو وقت کی قلت کے باعث ایک ہی بول سکے گا ،باقی صرف سننے والے ہوں گے، ان کے اندر اس مرحلے میں کمال حاصل کرنا ممکن نہ ہو سکے گا۔ یہ تینوں مرحلوں کا اجمالی خاکہ تھا، ان کی طرف مزید راہ نمائی متعلقہ اساتذہ سے حاصل کر کے قدم اٹھایا جائے۔

تیسرا کام: خوشخطی اور عمدہ تحریر
زمانہٴ تعلیم اور اس سے فراغت کے بعد کام یاب محنت کے لیے اس صفت کا بہت بڑا دخل ہے، خوش خطی اور عمدہ تحریر کے ذریعے ایک عالم ِ دین بہتر سے بہتر انداز میں دین کی خدمت کر سکتا ہے، مدمقابل پر بذریعہ تحریر ایک اچھا تأثر چھوڑ کے اسے اپنی راہ پر لانا آسان ہو جاتا ہے، اس صفت میں ملکہ حاصل کرنے کے لیے بھی پہلے دن سے ہی محنت کرنا ضروری ہے، اگر ممکن ہو سکے تو کسی ماہر کاتب سے باقاعدہ وقت لے کر مشق کی جائے، اس صفت کے حصول کے لیے کم از کم بات یہ ہے کہ سب سے پہلے حروف تہجی کے مفردات کی پہچان اور اُن کی شکلوں اور صورتوں کو ذہن میں محفوظ کیا جائے اور قواعد کے مطابق ان پر گرفت مضبوط کی جائے، اس کے بعد مرکبات کی مشق کی جائے، بالخصوص تین حروف تک کے مرکبات کی پہچان ضرور کر لی جائے، یعنی: کسی بھی حرف کے استعمال کی تین صورتیں تو یقینی ہیں: وہ حرف شروع میں ہو گا، درمیان میں ہو گا، یا آخر میں آئے گا، اِن تینوں حالتوں میں اُس کی شکل اور بناوٹ کیا ہو گی؟ اس کو سیکھ کے مشق کر لی جائے، اس بارے میں ایک مفید صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ جہاں کہیں بھی کسی کاتب کا لکھا ہوا کوئی لفظ دیکھیں اُس کی بناوٹ کو ذہن میں محفوظ کر لیں اور بعد میں اس کی نقل اُتارنے کی کوشش کریں، اس طریقے سے بہت جلد آپ کی خوش خطی میں نکھار آتا چلا جائے گا۔

دوسری چیز ”عمدہ اور جاندار تحریر “ہے۔ اپنے جذبات، احساسات، خیالات اور اپنے ما فی الضمیر کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنے کے لیے اچھی اور عمدہ تحریر ایک بہت ہی بہترین ذریعہ ہے، عمدہ تحریر انسان کے باطن کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔اچھی تحریر میں ملکہ حاصل کرنے کے لیے یہ طریقہ انتہائی زود اثر رہے گا کہ جب بھی، کسی بھی صاحب ِ فن یا کسی بھی ادیب یا اپنے اکابرین میں سے کسی کی تحریر کا مطالعہ کریں تو اُن کی تحریر کو اس نظر سے دیکھا کریں کہ اپنے ما فی الضمیرکو قلم بند کرنے کے لیے انہوں نے کیا تعبیر اختیار کی؟! اور پھر سوچیں کہ اگر یہی بات آپ کو تحریر کرنا پڑتی تو کیا آپ کے پاس اُس طرح کے الفاظ یا تعبیر تھی یا نہیں؟! اگر نہیں تھی تو پھر اُس تعبیر کو اپنے پاس ذہن میں محفوظ کر لیں اور وقت پر اُسے استعمال کریں، اِس طرح بہت جلد آپ کی تحریر عام وخاص میں مقبول ہوتی چلی جائے گی۔

چوتھا کام: خطابت
اپنی بات دوسروں کے سامنے رکھنے کے لیے، دوسروں کو دین کی طرف راغب کرنے کے لیے سب سے موٴثر ذریعہ زبان ہے، گفتگو کے فن اور خطابت کے اسرار ورموز سیکھے بغیر معاشرے میں پیدا ہونے والی سینکڑوں برائیوں کا سدباب آسانی سے ممکن نہیں ہے،ایک اچھا خطیب اور مقرر اپنی قوت ِ بیان اور زورِ بیان کے ساتھ بے حس قوموں میں حِس پیدا کرتا ہے، سوئی ہوئی اقوام کو جھنجھوڑ کر بیدار کرتا ہے، بگڑے ہوئے اَخلاق کو سنوارنا سکھلاتا ہے۔

اور یہ بدیہی بات ہے کہ ہر انسان میں قدرت کی طرف سے کچھ نہ کچھ قوتِ بیان عطا کی گئی ہوتی ہے، اب انسان کا کام ہے کہ وہ اپنی اس استعداد کو مسلسل مشق کرتے ہو ئے درجہٴ کمال تک پہنچائے، اس مشق کے لیے ضروری ہے کہ ماہرین کے اندازِ بیان کو خوب اچھی طرح پرکھا جائے اور خوب مشق کی جائے، اپنی بات میں وزن ، قوت اور اثر پیدا کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنی زبان کو سہل اور آسان کرنا ہو گا، یعنی: اپنی گفتگو میں آسان سے آسان تعبیرات، الفاظ اور اُسلوب اپنانا ہو گا، اس سے آہستہ آہستہ چہرے کے تاثرات، آواز کے اُتار چڑھاوٴ اور جسم کی حرکات وسکنات پر کنٹرول حاصل ہو گا، الغرض چہرہ، آواز اور ہاتھوں کے مناسب اشارے ہماری بات میں قوت، تاثیر اور تفہیم پیدا کرتے چلے جائیں گے۔

ان صفات کے حصول کے لیے عوام سے اختلاط اور میل جول، اُن کی بات سننا اور اس کا جواب دینا، پھر اُن کو اپنی بات سمجھانا، ایک بہت ہی مفید ذریعہ ہے، اس کے لیے تبلیغی جماعتوں کے ساتھ نکلنے کے زمانہ میں ان کے ساتھ خروج کرنا بھی بہت مفید رہے گا،کیوں کہ جماعت میں نکل کر مختلف مزاج والے لوگوں کے ساتھ وقت گزارناپڑتا ہے، ان کے ساتھ گزرنے والے لمحات ہم کو ان صفات کے قریب سے قریب لیتے چلے جائیں گے، اسی طرح جماعتوں میں جا کر جماعت کے مختلف اعمال میں سے کوئی نہ کوئی عمل ملتاہی رہتا ہے۔تو اس سے بھی اس صلاحیت میں نکھار آتا چلا جاتا ہے۔

پانچواں کام: غیر نصابی مطالعہ
درسِ نظامی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے دینیات کے مطالعہ کووسیع کرنا بھی ہماری ضرورت ہے، دینی مطالعہ کے ساتھ خارجی حالات سے تازہ ترین واقفیت بھی ہونی چاہیے، تاکہ اعتماد کے ساتھ پختہ اور معتمد دینی معلومات رکھتے ہوئے عوام کا سامنا کر سکیں، اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کی وجہ سے ہماری نصابی تعلیم متاثر نہ ہونے پائے، دوسری بات یہ کہ مضرکتب کا مطالعہ نہ ہو، اس کا حل یہ ہے کہ یہ مطالعہ اپنے اساتذہ کی زیرِ نگرانی ہو، ان کے مشورے سے، درجہ وار، الاہم فالاہم کے قاعدے کے مطابق تدریجاً ہو اور سب سے اہم بات یہ کہ فرصت کے اوقات میں ہو، نہ کہ تعلیمی اوقات میں۔

چھٹا کام: تجوید وحفظ القرآن
ہمارے وہ طلبہ ساتھی جو حافظ ِ قرآن نہیں ہوتے، انہیں عام طور پر دو تین مشکلات میں مبتلا دیکھا گیاہے، ایک توقرآنِ حکیم حفظ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے مقامات پر دشواری ہوتی ہے، نماز پڑھاتے وقت، بالخصوص نمازِ فجر پڑھاتے وقت ، بہت دشواری محسوس کرتے ہیں،یا پھر کوئی سی بھی نماز پڑھا رہے ہوں، ان کی قرأت تجوید کے قواعد کو پورا کرنے سے قاصر نظر آتی ہے، اسی طرح ان کے بیانات اور تقاریر کے درمیان بھی قرآن پاک کی آیات کا برمحل استعمال بھر پور اعتماد سے نہیں کر پاتے، اس لیے طلبہ ساتھیوں سے یہ بھی گزارش ہے کہ اپنی اس کمی کو پورا کرنے کی ابتدا سے ہی فکر کریں، کچھ نہ کچھ قرآنِ پاک روزانہ یاد کرتے رہیں، کم از کم آخری دو تین پارے اور مشہور بڑی سورتیں تو یاد ہی کر لینی چاہییں، اور کسی ماہر ِ فن قاری صاحب سے ضروری تجوید پڑھ کر اس کی مشق بھی کر لی جائے، اس ضمن میں خطباتِ جمعہ وعیدین اور خطباتِ نکاح بھی یاد کیے جائیں۔

ساتویں بات: غیر تعلیمی سرگرمیاں
یہ بات ہمیشہ سامنے رکھنے کی ہے، ہم اپنے گھر بار کو جو چھوڑ کر آئے ہیں ہمارا مقصد علمِ دین حاصل کرنا ہے، لہٰذا ہمارے لیے ہر ایسی سرگرمی سے بچنا نہایت ضروری ہے جو ہماری تعلیم کے لیے نقصان دہ ہو، اس میں سر فہرست امر یہ ہے کہ ہم اس زمانہ میں ہر طرح کی تنظیمی وابستگی سے اپنے آپ کو کوسوں دور رکھیں، یہ وابستگیاں ہمارے تعلیمی پروگرام کے لیے سمِّ قاتل کی مانند ہیں، یہ زمانہ ہمارے لیے ایک ایک لمحے کے اعتبار سے نہایت قیمتی ہے، اس لیے اس دورانیے میں ہماری مشغولیت صرف اور صرف تعلیم کے ساتھ ہونی چاہیے، ہاں! فراغت کے بعد ہمارے کرنے کے کاموں میں حسب مزاج جس کام کی طرف میلان ہو یا ضرورتِ زمانہ جس کی متقاضی ہو، اُسے اختیار کر لینا چاہیے اور ضرور اختیار کیا جائے، لیکن ابھی نہیں، ابھی تو اس تعلیم کے ساتھ عملی میدان میں تحریک پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جس کے لیے تبلیغی معمولات کا اختیار کرنا نہایت سود مند ثابت ہو گا، اس لیے کہ کسی بھی عمل پر آنا اپنے ایمان کی طاقت کے بل بوتے پر ہی ممکن ہوتا ہے اور تبلیغی معمولات سے ایمانی استعداد مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جاتی ہے، جو کہ مطلوب و محمود ہے۔

لیکن یہ بات بھی اچھی طرح سامنے رہے، یہ تبلیغی معمولات بھی ہماری تعلیمی سرگرمیوں کے اوقات میں نہ ہوں، صرف چھٹی کے اوقات میں مختصر ترین وقت میں، دعوت الیٰ اللہ، تعلیم وتعلم اور ذکر وعبادت کو سمیٹا جائے، اس کے لیے ظہر کی نماز کے بعد پڑھائی سے قبل کے آٹھ، دس منٹ، عصر سے مغرب کا وقت، عشاء کی چھٹی کا وقت استعمال کیا جائے، جمعرات اور جمعہ کی تعطیل شب جمعہ اور چوبیس گھنٹے کے خروج کے لیے استعمال کی جائے اور سالانہ چھٹیوں میں چالیس روز کے لیے خروج کی ترتیب بنائی جائے۔

ان معمولاتِ تبلیغیہ میں لگنا در حقیقت ہمارے تعلیمی نظام کا ہی تسلسل ہے، اس لیے کہ علم سے مقصود عمل ہے اور عمل کی بنیاد ایمان ہے، جس کے حصول کا بروقت اور بھرپورذریعہ یہ تبلیغی نقل وحرکت ہے۔

آٹھواں کام: اساتذہٴ کرام اورطلبہ ساتھیوں کے حقوق
ایک اچھے اور باکردار طالبِ علم کے مقام کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے دل میں اپنے محسنین اساتذہ کرام کی محبت اور ادب انتہا درجے کا ہو، اُن کی دل جوئی، خدمت اور اکرام کو اپنی سعادت سمجھیں، ان کا ادب ، ان کی بات کو دھیان اور توجہ سے سنیں، اُن کی نصائح کو اپنی کام یابی کا راز سمجھ کر اپنائیں اور اُن کی خدمت کے کاموں کو تلاش کر کے پوری لگن کے ساتھ کریں، یہ سب اُمور ایک طالبِ علم کو بہت جلد ترقی کی منازل طے کروا دیتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اِن سب اُمور کا انجام دینا بد نیتی ، مجبوری یا کسی غرض ِ فاسد(مثلاً: اپنے لیے مراعات یارعایتوں کے حصول) کے لیے نہ ہو، کہ یہ نیت فوائد تو درکنار تباہی اور بربادی کی طرف لے جانے والی ہے۔

ایک دوسری چیز، زمانہٴ تعلیم میں آپ کا اپنے طلبہ ساتھیوں کے ساتھ برتاوٴ ہے، ایک مخصوص عرصے کے لیے آپ نے ایک اجتماعی ماحول میں رہنا ہے، اس ماحول میں ایک نشست آپ کی درس گاہ کے ساتھیوں کی ہے، دوسری نشست آپ کے کمرے کے ساتھیوں کی ہے، تیسری نشست عمومی طور پر پورے جامعہ کے ساتھیوں کی ہے، اِن تمام مراحل میں اگر آپ اپنے ساتھ یہ طے کر لیں گے کہ میں اپنے اِن تمام قسم کے ساتھیوں کے ہر قسم کے حقوق ادا کروں گا اور میری طرف سے کسی کو کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچے گی، میں کسی کی کسی بھی چیز کوبغیر اجازت استعمال نہیں کروں گا تو اللہ رب العزت آپ کی اِس مبارک صفت کی وجہ سے آپ کی عزت اور احترام آپ کے تمام طلبہ ساتھیوں کے دلوں میں ڈال دیں گے، بصورتِ دیگر ! جہاں آپ بے اطمینانی اور بے سکونی کا شکار ہوں گے، وہاں ہر کوئی آپ سے اس طرح دور رہنے کی کوشش کرے گا، جیسے کوئی شخص کسی موذی جانور سے بچنے کی اور دور رہنے کی کوشش کرتا ہے، لوگ آپ کے شر سے بچنے کی خاطر آپ سے سلام دعا اور میل جول رکھیں گے، لیکن ان کے دل آپ کے بارے میں نفرتوں سے بھرے ہوں گے۔

ایک اچھا انسان بننے کے لیے آپ اپنے ساتھ یہ طے کر لیں کہ آپ جب بھی کسی سے ملیں تو اس طریقے اور ان اَخلاق سے ملیں کہ وہ آئندہ آپ سے ملناپسند کرے، آپ کے پاس بیٹھنا پسند کرے، آپ کے ساتھ کچھ وقت گذارنا اپنی سعادت سمجھے تو انشاء اللہ آپ ہر دل عزیز شخصیت بنتے چلے جائیں گے۔

نواں کام: مدرسہ کے ضوابط اور قوانین
علم کی ترقی کے راستوں میں ایک ضروری چیز اس ادارے کے نظم ونسق اور اصول وضوابط کو پورا کرنابھی ہے، یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کوئی بھی ادارہ ہو، وہ بغیر اصول وضوابط کے نہیں چل سکتا اور یہ بات بھی بالکل بدیہی ہے کہ اصول وضوابط اجتماعی نظم کے درست رکھنے کے لیے ہوتے ہیں، اس لیے اپنے ادارے کے اصو ل وضوابط کو پورا کرنا ہماری خوش گوار زندگی کا سبب بنے گا، اس سے ہمارے اندر نکھار پیدا ہو گا، ہماری زندگی ایک مرتب نظام کے مطابق سلجھی ہوئی گزرے گی، ہر کوئی ہم سے خوش ہو گا اور ہم سب سے خوش ہوں گے، مثلاً: اس کے لیے یہ اصول بنا لیں کہ تعلیم کا وقت شروع ہوتے ہی درس گاہ میں پہنچ جانا ہے، کھانے کا وقت ہوتے ہی کھانے کے لیے چلے جانا ہے، سونے کا وقت ہوتے ہی سونے کے لیے لیٹ جانا ہے، درس گاہ ہو یا رہائشی کمرہ ، اپنی باری پر خدمت اور صفائی کرنی ہے، تو یقین جانیے کہ مدرسہ کے کسی استاذ کو، حتی کہ مدرسہ کے کسی بھی کارکن کو آپ سے کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی، کوئی آپ سے تنگ نہیں ہو گا، کسی کو آپ سے کسی قسم کی کوئی شکایت ہو گی اور نہ ہی آپ کو کسی کی طرف سے کسی قسم کی ناگواری کا سامنے کرنا پڑے گا۔

دسواں کام: تعلق مع اللہ اور اصلاحِ ظاہر وباطن
ایک انتہائی اہم بات یہ ہے کہ ہماری سالہا سال کی یہ محنت اس لیے ہے کہ ہم میں سو فی صد اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کی استعداد پیدا ہو جائے، لہٰذا عبادات کے ذریعے، مناجات کے ذریعے اور موقع محل کے مطابق اتباع رسول صلی الله علیہ وسلم کے ذریعے ہم لمحہ بہ لمحہ اللہ تعالیٰ کے قرب میں آگے سے آگے بڑھ سکتے ہیں، آپ علیہ الصلوٰة والسلام کی مسنون زندگی کا کوئی گوشہ ہم سے مخفی نہ ہو اور اسی طرح ہماری زندگی کا کوئی عمل سنتِ نبی صلی الله علیہ وسلم کے خلاف نہیں ہونا چاہیے، یہ کوشش ہماری ہر کوشش سے زیادہ قیمتی اور ضروری ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سامنے رہے،ہم اپنی، مدرسہ اور مدرسہ سے باہر کی، زندگی میں اپنی طرف سے عبادات، معاملات، معاشرت، اخلاق اور خدمت ِ خلق کا ایسا نمونہ چھوڑیں کہ آپ کی مثال دے کر لوگ اپنے بچوں کی تربیت کریں، ہم اپنے مقام پر، اپنے گھروں میں، اپنے گلی محلوں میں،اپنے معاشرے میں اپنے آپ کو ایسا پیش کرنے کی کوشش کریں کہ ہمارے متعلقین واضح طور پر، کھلی آنکھوں ہمارے بارے میں یہ محسوس کریں کہ ”ہمارا یہ عزیز “ مدرسہ کی زندگی اختیار کرنے سے قبل ، یا سابقہ سال میں تو (اپنی عبادات، اپنے معاملات، اپنی حسنِ معاشرت اور اپنے اخلاق میں ) ترقی کے اس معیار پر نہیں تھا، جس معیار پر اب پہنچ چکا ہے۔اس سے آپ انشاء اللہ العزیز ایک ایسے مثالی طالب ِ علم بن جائیں گے کہ لوگ آپ کی صلاحیتوں کی وجہ سے آپ کو اپنے کندھوں پر بٹھائیں گے، آپ کا ادب کریں گے، آپ کی بات توجہ سے سنیں گے، آپ کے مشوروں پر عمل کریں گے، آپ کی خدمت کو اپنی سعادت سمجھیں گے، اپنے فیصلوں کے لیے آپ کو حَکَم بنانا تسلیم کریں گے، آپ کی مثالیں دے کر اپنی اولاد اور اپنے ماتحتوں کی تربیت کریں گے، آپ کو دیکھ کر اپنی اولاد کو بھی مدارس دینیہ میں داخل کروانے کا فیصلہ کریں گے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ رب العزت دنیا وآخرت کی سعادتیں آپ کا مقدر بنا دیں گے۔

تلک عشرة کاملة، اللہ رب العزت ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے، آمین ثم آمین۔

Flag Counter