سزائے موت۔۔۔آسمانی او رزمینی حقائق کی روشنی میں
مولانا قاری محمد حنیف جالندھری
ان دنوں سزائے موت کے حوالے سے بحث ومباحثہ جاری ہے ، اس سزا کے بارے میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں اور اس حوالے سے آسمانی اور زمینی دونوں طرح کے حقائق کو نظر انداز کیاجارہاہے، زیر نظر تحریر میں اس کا جائزہ پیش کیا جارہا ہے کہ سزائے موت کے حکم کے بارے میں آسمانی حقائق کیا ہیں اور زمینی حقائق کیا ہیں؟ یاد رہے کہ شریعت کی طرف سے چار جرائم ایسے ہیں، جن کی سزا موت مقرر کی گئی ہے۔
پہلا سبب… ان میں سب سے پہلے کسی کا ناحق قتل ہے ، قاتل کو قصاصاً قتل کیا جاتا ہے، قرآن کریم میں قصاص کے بارے میں فرمایا:﴿ولکم فی القصاص حیوٰة یا أولی الباب﴾․ترجمہ:” اے عقل (استعمال کرنے) والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔“
بظاہر تو اگرچہ سزا موت ہے او روہ موت ایک شخص کے لیے ہے ، لیکن اس میں پوری انسانیت کے لیے زندگی ہے ، کیوں کہ قصاص کی وجہ سے قتل ناحق کا دروازہ بند ہو جاتا ہے اور آج کل جس طرح انسانوں کے خون کی ارزانی ہے، ناحق قتل کو معمولی چیز سمجھا جانے لگا ہے، بات بے بات دوسروں کی جان سے کھیل جانے کی کسی کو پروا نہیں، اگر قصاص کا حکم اپنی روح کے ساتھ زندہ کر دیا جائے تو اس کیفیت اور اس صورت حال سے نجات پائی جاسکتی ہے اور اس صورت حال سے نجات کا نام ہی ”زندگی“ ہے، اس لیے ہونا تو یہ چاہیے کہ ”سزائے موت برائے زندگی یا سزائے موت برائے امن وامان“۔
دوسرا سبب… سزائے موت کا دوسرا سبب شادی شدہ ہونے کے باوجود بدکاری کا ارتکاب کرنا ہے ، یہ ایسا جرم ہے، جس کی وجہ سے پورا معاشرتی اور سماجی ڈھانچہ تہس نہس ہو جاتا ہے او رحسب ونسب اور خاندانی نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے ، اسی لیے شادی شدہ مرد اور عورت کو سنگسار کرنے کا حکم ہے، جب کہ غیر شادی شدہ کو سو کوڑے مارنے کی ہدایت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی تاکید فرما دی گئی:﴿وَلَا تَأْخُذْکُم بِہِمَا رَأْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللَّہِ إِن کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ﴾․
ترجمہ:” تمہیں الله کے دین کے معاملے میں ان پر ذرا بھی رحم نہ آنا چاہیے، اگر تم الله پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو“ اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی تاکید فرما دی:﴿وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْن﴾․( سورہ نور، آیت:2)
ترجمہ:” ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت کو حاضر رہنا چاہیے۔“
تیسرا اور چوتھا سبب… سزائے موت کا تیسرا سبب ”ارتداد“ اور چوتھا سبب ”نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی شان میں گستاخی“ ہے، یہ دونوں جرائم غداری کی قبیل میں سے ہیں اور دنیا بھر میں غداری کی سزا موت کے سوا او رکچھ نہیں ہوتی، دین میں داخل ہونے کے معاملے میں کوئی جبر واکراہ نہیں ، ہر آدمی کو اختیار ہے کہ وہ خوب تسلی وتشفی کرنے کے بعد دین اسلام میں داخل ہو ، لیکن ایک دفعہ جب داخل ہو گیا تو اب غداری کرنے کی گنجائش نہیں، اسی طرح ایک آدمی پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کامرتکب ہوتا ہے تو وہ پورے نظام کو تلپٹ کر دینے کی کوشش کرنے والا سمجھا جائے گا اورملت اسلامیہ کی جڑوں اور مرکز عقیدت ومحبت او رمنبع اتحاد واتفاق پر وار کرنے والا سمجھا جائے گا اور اس کا راستہ بند کرنا بھی ضروری ہے ، اس لیے بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ سزائے موت کا حکم انسانوں پر رحم کرنے کے لیے نازل فرمایا گیا ہے۔
آئیے…! سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں سزائے موت کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ یہ حکم اگرچہ متعدد قرآنی آیات او راحادیث مبارکہ میں وارد ہے، لیکن یہاں ان میں سے چند ایک کو محض اس لیے ذکر کیا جارہا ہے، تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ یہ الله اور اس کے نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم ہے او راس میں کسی کو رائے زنی یا ترمیم وتبدیلی کی اجازت نہیں ، ہاں! اگر کوئی ایمان سے ہی محروم ہے تو اس کا معاملہ الگ ہے، لیکن کلمہ طیبہ پڑھنے کا تقاضا یہ ہے کہ الله کے حکم کی حکمت سمجھ آئے تو بھی اور اگر سمجھ نہ آئے تو بھی اس پر سر تسلیم خم کر لیا جائے اور خود آئین پاکستاں میں بھی یہی درج ہے کہ ” قرآن وسنت کے منافی کسی قسم کی قانون سازی نہیں ہوسکتی۔“ اس لیے اگر ہمیں شریعت اور دین کا پاس نہیں تو کم از کم آئین پاکستان کا تو لحاظ کر لینا چاہیے۔
قرآ ن کریم اور احادیث مبارکہ میں چار جرائم کی سزا موت مقرر کی گئی ہے:1.. قتل ناحق 2..ارتداد3.. بدکاری 4.. نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی۔
یہ چاروں جرائم ایسے ہیں، جن کی وجہ سے معاشرے میں فساد اورانتشار برپا ہو جاتا ہے اور اگر ان کی روک تھام کا کوئی انتظام نہ ہو تو معاشرے میں ہر طرف خون کی ندیاں بہتی نظر آئیں، کشتوں کے پشتے لگے ہوں، رشتوں کا تقدس برقرار نہ رہے، حسب نسب معلوم نہ رہیں اور غداری کو رواج مل جائے، اس لیے شریعت اسلامیہ نے جرائم اور انتشار وفساد کی طرف جانے والے سارے دروازے بند کرنے کا اہتمام فرمایا۔
متعدد آیات مبارکہ اور ساری احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ سزائے موت دین اور شریعت کا حکم ہے اور اسے بلاوجہ باز یچہ اطفال بنا دینا قطعاً جائز نہیں، ہمارے ہاں سابقہ حکومت نے بھی عملی طور پر اس سزا کو معطل کیے رکھا اور موجودہ حکومت کی طرف سے بھی ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ وہ محض مغربی اور یورپی اقوام سے کچھ وقتی اور مالی مفادات کے حصول کے لیے اس سزا کو کالعدم قرار دلوانے کے بہانے اور جواز ڈھونڈ رہی ہے اور عملی طور پر اپنے پیش روؤں کی طرح اس حکومت نے بھی سزائے موت کو کالعدم ہی قرار دے رکھا ہے، قابل غور بات یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں ایسے درندہ صفت لوگ بھی موجود ہیں، جو برس ہابرس سے ٹارگٹ کلنگ میں مصروف رہے، ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے غیروں کے اشاروں پر مساجد ومدارس اور بازاروں میں دھماکے کرواکر معصوم لوگوں کے لہو کی ندیاں بہائیں، اس وقت ان سب کی سزائے موت کو کالعدم قرار دے کر چھوٹ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
سزائے موت کو کالعدم قرار دینے کی منطق اس لیے بھی ناقابل فہم لگتی ہے کہ دنیا کی کئی ریاستوں میں آج تک یہ قانون رائج ہے، اس لیے محض وقتی فوائد کے لیے ، تجارتی مقاصد کے لیے اور طاغوتی قوتوں کے دباؤ تلے آکر اس سزا کو ختم کرنے کا تصور دینی اور ملی اعتبار سے ہی نہیں، بلکہ قیام امن اور گڈ گورننس کے حوالے سے بھی ناقابل فہم دکھائی دیتا ہے، اتنی بات بجا ہے کہ ادھورے اور ناقابل دلائل وشواہد کی بنیاد پر، نامکمل تحقیقات کی روشنی میں کسی بے گناہ کو سزائے موت دینا اتنا ہی بڑا جرم ہے، جیسے کسی بے گناہ کی جان لے لی جائے، اس حوالے سے عملی، قانونی اور آئینی طور پر جو سقم ہیں، انہیں بجا طور پر دور کرنے کی ضرورت ہے، لیکن سرے سے ہی اس قانون کو ختم کرنے کی بات کرنا یہ ظالموں کی حمایت، قاتلوں کی پشت پناہی، معصوم بچیوں کے ساتھ درندگی کرکے انہیں قتل کر ڈالنے والوں سے ہم دردی اور جرائم پیشہ عناصر کی خیر خواہی کے زمرے میں آتا ہے، ایسے عناصر کی تعداد معاشرے میں ایک فی صد بھی نہیں ہوتی، لیکن نام نہاد دانش وروں کو گا ہے داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ وہ ان ایک فی صد کے تحفظ کے لیے ان کے سامنے ڈھال بننے کے لیے توایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں، لیکن دوسری طرف کے جو ننانوے فی صد لوگ ہیں، جو مظلوم ہیں، جو مقتولین کے ورثاء ہیں، جو بے سہارا اور بے آسرا لوگ ہیں، جو اس وقت بدترین عدم تحفظ کا شکار ہیں، ان کی اشک شوئی اور ان کے جان ومال کے تحفظ کے لیے لب ہلانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔