Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1435ھ

ہ رسالہ

7 - 16
مال وجاہ طلبی کے طوفان میں امّت مسلمہ کی ذمہ داری

مولانا شمس الحق ندوی
	
انسان تمام جاندار مخلوقات میں سب سے زیادہ افضل اور عقل وسمجھ رکھنے والا قدرت کا بنایا ہوا شاہکار ہے، جو اچھے برے، شریف ورذیل، سچ وجھوٹ، اہل ونااہل، باصلاحیت وبے صلاحیت کی تمیز ہی نہیں رکھتا، بلکہ اسی اعتبار سے معاملہ بھی کرتا رہا ہے، جب کبھی اس کے خلاف ہوا ہے تو صالح انسانی سوسائٹی نے اس کو شرف انسانیت کے خلاف سمجھا ہے، اس پر احتجاج کیاہے۔

غلط رویہ اپنانے والے، سوسائٹی میں اچھی نظروں سے کبھی نہیں دیکھے گئے، مگر ہمارے زمانہ کی قدریں بالکل بدل چکی ہیں، جو چیزیں انسان کے لیے باعث ذلت وعار سمجھی جاتی تھیں، اب وہی عزت وشرف کی باتیں سمجھی جانے لگی ہیں۔

انسانی زندگی کی گاڑی کو چلانے والوں میں بھی اہل ونا اھل کا فرق برابر کیاجاتا رہا ہے کہ یہ کام نازک اور ذمہ دارانہ ہوتا ہے، لہٰذا اس کے حصول کے لیے لوگ علمی ذوق وشوق اور تحقیقی مطالعہ میں امتیاز پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے، اپنی دیگر صلاحیتوں کو بھی بڑھانے او راس میں امیتاز پیدا کرنے میں کوشاں رہتے تھے، لیکن آج مختلف ذمہ داریوں کو انجام دینے او رمنصب وعہدوں پر فائز ہونے کے لیے ڈگریاں اور سر ٹیفکیٹ ان طریقوں سے حاصل کیے جاتے ہیں جو سارے اصولوں کو توڑ کر اپنائے جاتے ہیں، جس میں کسی بااثر کی قرابت یا سفارش کافی سمجھی جاتی ہے چاہے اس سے بہت فائق اور بہتر صلاحیت کے لوگ موجود ہوں او راگر یہ ذرائع حاصل نہیں تو حل المشکلات رشوت کا دروازہ کھلا ہوا ہے، جس کے ذریعہ سب کام آسان ہو جاتے ہیں ، مجرم او رقاتل تک، اس کے سائے میں پھولتے پھلتے رہتے ہیں ،جس کے نتیجہ میں آج زندگی کی ہر کل ڈھیلی اور بے کل ہے، مشرق سے لے کر مغرب تک اس وقت یہی صورت حال رواج پاچکی ہے، جس نے ہر خوب کو ناخوب اور ہر ناخوب کو خوب بنا دیا ہے ، اخلاقی انار کی اور بے حیائی کا یہ عالم ہے کہ #
            جو گنہ کیجیے ثواب ہے آج
ان پرآشوب او رجگر خراش حالات میں ان لوگوں کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے، جو قرآنی حقائق پر اور قرآن لانے والے رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ صرف ایمان رکھتے ہیں، بلکہ ان کے اوپر ضلالت وگم راہی کے اس بحر ظلمات سے قوموں کو نکالنے کی ذمہ داری بھی ڈالی گئی ہے، یہ کہہ کر:﴿کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ ﴾․(آل عمران:110)
ترجمہ:” مومنو! جتنی امتیں ( یعنی قومیں) لوگوں میں پیدا ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو۔“

امت مسلمہ ہی ان ساری بیماریوں کی طبیب ومعالج ہے جو سارے عالم پر چھائی ہوئی ہیں اور اسلام وقرآن ہی وہ مرکز شفا ہے جہاں پہنچ کر یہ بیماریاں دور ہوتی ہیں ، لہٰذا اب یہ مسلمانوں کا کام ہے کہ وہ تمام سطحی اور وقتی چیزوں سے بلند ہو کر انسانیت کی تعمیر کے لیے کمر کس لیں کہ یہ انہیں کا کام ہے اور وہ نسخہٴ انہیں کے پاس ہے جو انسانیت کے تن مردہ میں جان ڈالتا ہے۔

ہم اپنی بات انسانیت او رملک وملت کا درد رکھنے والے مفکر اسلامی حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی دارالعلوم دیوبند کے جشن صدسالہ کے موقع پر کی گئی تقریر کے ایک اقتباس پر ختم کرتے ہیں، جس میں ”کنتم خیرامة“ کی پوری تصویر آگئی ہے او رجن کی پیام انسانیت کے موضوع پر اندور میں تقریر سن کر آرایس ایس کے ایک ممبر نے حضرت مولانا  کی قیام گاہ پر آکر حضرت مولانا سے ملنے کے بعد کہا کہ آپ کی تقریر سن کر اندازہ ہوا کہ:” آپ کو ہم سے زیادہ ملک کی فکر ہے۔“ حضرت مولانا نے فرمایا تھا کہ:

”آج ملک خود کشی کے لیے قسم کھا چکا ہے، وہ آگ کی خندق میں گرنے کے لیے تیار ہے ، وہ بد اخلاقی او رانسانیت کشی کے دلدل میں ڈوب رہا ہے، آپ ہی ہیں جو ہندوستان میں کیا، بلکہ پورے ایشیا میں اس ملک کو بچا سکتے ہیں، آپ الله اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی بات کہیے، آپ کو کوئی ضروری نہیں کہ آپ نیلام کی منڈی میں اتر آئیں اور آپ سودا کرنے لگیں کہ ہماری بو لی بولی جائے، آپ متاع نایاب ہیں، الله کے سوا آپ کی خریداری کا کوئی حوصلہ نہیں کرسکتا، اس لیے میں ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں ، کاش! میں آپ کے دلوں اور دماغوں پر چوٹ لگاسکتا، میں صرف آپ سے کہتا ہوں کہ اس ملک کو صرف آپ تنہا بچاسکتے ہیں، اس لیے کہ آپ کے پاس عقیدہٴ توحید اورانسانی اصول ومساوات ہے، آپ کے پاس اجتماعی عدل کا مکمل نظام موجود ہے، آپ ہی ہیں جو ہر چیز سے بالاتر ہیں، آپ ہی ہیں جن کے پاس ایمان بالآخرة ہے اور جو ”العاقبة للمتقین“ پر یقین رکھتے ہیں،آپ ان لوگوں میں سے نہیں جن کی نظر طاقت اور قوت پر رہا کرتی ہے اور جن کی نگاہ میں مال ومتاع اوراکثریت ہی سب کچھ ہے اور نہ آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو انتخابات میں کام یابی اور پارلیمنٹ تک پہنچ جانے ہی کو سب سے بڑی معراج سمجھتے ہیں۔“

Flag Counter