Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1435ھ

ہ رسالہ

4 - 16
دین اسلام ، عین دین ابراہمی ہے

استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
	
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿وَمَن یَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاہِیْمَ إِلاَّ مَن سَفِہَ نَفْسَہُ وَلَقَدِ اصْطَفَیْْنَاہُ فِیْ الدُّنْیَا وَإِنَّہُ فِیْ الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِیْنَ ،إِذْ قَالَ لَہُ رَبُّہُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ ، وَوَصَّی بِہَا إِبْرَاہِیْمُ بَنِیْہِ وَیَعْقُوبُ یَا بَنِیَّ إِنَّ اللّہَ اصْطَفَی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلاَ تَمُوتُنَّ إَلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ، أَمْ کُنتُمْ شُہَدَاء إِذْ حَضَرَ یَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِیْ قَالُواْ نَعْبُدُ إِلَہَکَ وَإِلَہَ آبَائِکَ إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَاقَ إِلَہاً وَاحِداً وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ، تِلْکَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُم مَّا کَسَبْتُمْ وَلاَ تُسْأَلُونَ عَمَّا کَانُوا یَعْمَلُونَ ﴾(لبقرة:130 تا134)
ترجمہ:اور کون ہے جو پھرے ابراہیم کے مذہب سے مگر وہی کہ جس نے احمق بنایا اپنے آپ کواور بے شک ہم نے ان کو منتخب کیا دنیا میں اور وہ آخرت میں نیکوں میں ہیںoیاد کرو جب اس کو کہا اس کے رب نے کہ حکم برداری کر تو بولا کہ میں حکم بردار ہوں تمام عالم کے پروردگار کا o اور یہی وصیت کر گیا ابراہیم اپنے بیٹوں کو اور یعقوب بھی کہ اے بیٹو!بے شک اللہ نے چن کردیا ہے تم کو دین، سو تم ہر گز نہ مرنا مگر مسلمانoکیا تم موجود تھے جس وقت قریب آئی یعقوب کے موت جب کہا اپنے بیٹوں کو کہ تم کس کی عبادت کرو گے میرے بعد؟ بولے ہم بندگی کریں گے تیرے رب کی اور تیرے باپ دادوں کے رب کی، جو کہ ابراہیم، اسماعیل اور اسحق ہیں، وہی ایک معبود ہے اور ہم سب اسی کے فرماں بردار ہیںoوہ ایک جماعت تھی، جو گذر چکی، ان کے واسطے ہے جو انہوں نے کیا اورتمہارے واسطے ہے جو تم نے کیا اور تم سے پوچھ نہیں ان کے کاموں کی.

ربط
اوپر کی آیتوں میں بانی کعبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے شرف وفضیلت کا تذکرہ ہوا،آئندہ آیات میں ملّت ابراہیمی سے اعراض کرنے والوں کا باطل پر ہونا بیان فرمارہے ہیں۔

چوں کہ یہود و نصاریٰ کو بڑا فخر تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیح پیروکار وہ خود ہیں،چناں چہ اشارةً ان پر یہ بھی واضح کردیا گیا کہ ملت ابراہیمی تو اسلام ہے اور تم اسلام سے منحرف ہو کر ملت ابراہیمی سے اعراض کے مرتکب ہوئے ہو، پس تم انتہائی زیادہ خسارے میں ہو۔

تفسیر
﴿وَمَن یَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاہِیْمَ إِلاَّ مَن سَفِہَ نَفْسَہ…﴾
عرب کے مشرکین، یہود ونصاری سب اپنی نسبت دین ابراہیمی کی طرف کرتے تھے، اس آیت میں بتایا گیا کہ دین اسلام ہی دین ابراہیمی ہے ، مسلما ن تمہیں کسی اور دین کی دعوت نہیں دیتے، بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کے دین کی جانب بلاتے ہیں، اپنے مقتدا اور پیشوا کے طور طریقوں سے روگردانی کرنے والا شخص احمق ہی ہو سکتا ہے”مِلَّةَ إِبْرَاہِیْمَ“ سے علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ شریعت محمدیہ شریعت ابراہیمی ہی ہے، سوائے ان احکام کے جو منسوخ ہو گئے۔ (احکام القرآن للجصاص: البقرہ ذیل آیت:130)

﴿وَلَقَدِ اصْطَفَیْْنَاہُ فِیْ الدُّنْیَا…﴾ دنیا اور آخرت میں آپ کو برگزیدہ ، محترم بنایا گیا۔ مشرکین عرب کے پاس کوئی آسمانی کتاب تو نہیں تھی، مگر انہیں اپنی ابراہیمی نسل پر فخر تھا ،البتہ یہود ونصاری کے نوشتوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فضائل مذکور ہیں، تورات میں ہے ”اے ابراہام تو مت ڈر میں تیری سِپر اور تیرا بہت بڑا اجر ہوں۔“ (پیدائش۱۵:۱) ” اور وہ خدا پر ایمان لایا اور یہ اس کے لیے صداقت محسوب ہوا۔ (پیدائش۱۵:۶)

مسیحیوں کی مروجہ انجیل میں ہے:
” ابراہیم خدا پر ایمان لایا اور یہ اس کے لیے راست بازی گِنا گیا، بس جان لو کہ جو ایمان والے ہیں وہی ابراہیم کے فرزند ہیں۔ (گلیتون۔3:6)

ملت ابراہیمی کے حقیقی دعوے دار
اہل کتاب (یہود و نصاریٰ)اور مشرکین عرب اور مسلمان سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا مذہبی اور روحانی پیشوا ماننے پر متفق ہیں اور سبھی کا دعویٰ ہے کہ وہ ملت ابراہیمی پر ہیں۔مشرکین کے پاس آسمانی کتاب نہ ہونے کے باعث ان کے دعوے کا باطل ہونا انتہائی واضح تھا۔جب کہ یہود ونصاریٰ کے دعوے کی تردید قرآن پاک میں کردی گئی۔

چناں چہ فرمان ربانی ہے:
﴿یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِیْ إِبْرَاہِیْمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالإنجِیْلُ إِلاَّ مِن بَعْدِہِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ،ہَاأَنتُمْ ہٰؤُلاء حَاجَجْتُمْ فِیْمَا لَکُم بِہِ عِلمٌ فَلِمَ تُحَآجُّونَ فِیْمَا لَیْْسَ لَکُم بِہِ عِلْمٌ وَاللّہُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُون،َمَا کَانَ إِبْرَاہِیْمُ یَہُودِیّاً وَلاَ نَصْرَانِیّاً وَلَکِن کَانَ حَنِیْفا ًمُّسْلِماً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْن﴾․ (اٰل عمران:الایة:65تا67)
ترجمہ:اے اہل کتاب؟ کیوں جھگڑتے ہو ابراہیم کی بابت؟اور توریت اورانجیل تو اتریں اس کے بعد،کیا تم کو عقل نہیں؟oسنتے ہو تم لوگ! جھگڑ چکے جس بات میں تم کو کچھ خبر تھی،اب کیوں جھگڑتے ہو جس بات میں تم کو کچھ خبر نہیں؟oنہ تھا ابراہیم یہودی اور نہ تھانصرانی ،لیکن تھا حنیف، یعنی سب جھوٹے مذہبوں سے بیزاراور حکم برداراور نہ تھا مشرک۔

مذکورہ آیات میں تینوں گروہ یعنی اہل کتاب اور مشرکین کے دعوے کی تردید کردی گئی۔

جب کہ آئندہ آیت میں مسلمانوں کوملت ابراہیمی کا صحیح پیروکار بتلایا گیا ہے۔کیوں کہ ابراہیم بھی ملّت اسلام پر تھے اور یہ امت بھی مُسْلِمْ ہے۔چناں چہ ارشاد خداوندی ہے:﴿إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاہِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوہُ وَہٰذَا النَّبِیُّ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ وَاللّہُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْن﴾․ (اٰل عمران:68)
ترجمہ:لوگوں میں زیادہ مناسبت ابراہیم سے ان کو تھی جو ساتھ اس کے تھے اور اس نبی کواور جو ایمان لائے اس نبی پراور اللہ والی ہے مسلمانوں کا۔

پس معلوم ہوا کہ ملت ابراہیمی کے صحیح متبعین صرف نبی آخرالزمان اور یہ امت مسلمہ ہی ہے،جب کہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں۔

اگر مذکورہ آیات سے کسی کو یہ اشکال ہو کہ اسلام نبی آخر الزمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور قرآن پر ایمان لانے کا نام ہے اور جناب ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ ان دونوں سے مقدم ہے، پس ابراہیم علیہ السلام کیوں کر ملت اسلام پر ہو سکتے ہیں؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام نام ہے خدا کی مکمل اطاعت و فرماں برداری کااور خدا کی مکمل اطاعت تب ہی ممکن ہے جب کہ اللہ کے بھیجے ہوئے تمام انبیاء اور اس کی نازل کردہ تمام کتب پر ایمان لایا جاوے۔

اگر بعض انبیاء اور بعض کتب پر ایمان لایا جائے تو ظاہر ہے کہ یہ خدا کی مکمل فرماں برداری نہیں کہلائے گی،جب کہ تورات اور انجیل کی واضح نصوص اور دیگر عقلی دلائل کے ذریعے سے یہود و نصاریٰ پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نبی بر حق ہونا انتہائی واضح ہو چکا تھا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے: ﴿الَّذِیْنَ آتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَہُ کَمَا یَعْرِفُونَ أَبْنَاء ہُمْ وَإِنَّ فَرِیْقاً مِّنْہُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَہُمْ یَعْلَمُون﴾․(البقرة:146)
ترجمہ:جن کو ہم نے دی ہے کتاب، پہچانتے ہیں اس کو جیسے پہچانتے ہیں اپنے بیٹوں کو،اور بے شک ایک فرقہ ان میں سے البتہ چھپاتے ہیں حق کو جان کر۔

معالم التنزیل میں آیت مذکورہ :﴿ومن یرغب …﴾کے شان نزول میں لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ(جو پہلے یہودی تھے، پھر مسلمان ہوئے)نے اپنے بھتیجوں”سلمة“اور ”مہاجر“ کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا:”تمہیں معلوم ہے کہ اللہ عزوجل نے تورات میں فرمایا:”بے شک میں اسماعیل کی اولاد میں سے نبی بھیجنے والا ہوں، جس کا نام احمد ہوگا۔پس جو اس پر ایمان لائے گا وہ ہدایت پائے گا اور جو اس پر ایمان نہ لائے وہ ملعون ہوگا“ تو سلمہ ایمان لے آئے اور مہاجر نے انکار کر دیا۔ (معالم التنزیل:البقرہ تحت آیة رقم:130)

لہذا تورات اور انجیل پر مکمل ایمان کا تقاضا یہ تھا کہ یہ لوگ قرآن اور آپ کی نبوت پر بھی ایمان لاتے ، لیکن نبوت محمدیہ کے انکار کے بعد یہودیت ونصرانیت ایک رسمی مذہب بن گئے ہیں، جن میں اطاعت الہٰی کے بجائے خواہش پرستی کا زور ہے۔

علاوہ ازیں پے درپے تحریفات نے ان مذاہب کونہ صرف متغیر بلکہ متبدل تک کرکے رکھ دیا تھا،پس یہ رسمی یہودیت و نصرانیت خداتعالیٰ کی جزوی اطاعت بھی کہلانے کی مستحق نہ رہی۔

اور ہرذی عقل پر واضح ہے کہ خدا کے منتخب کردہ پیغمبر ابراہیم علیہ السلام خدا کے مکمل فرماں بردارتھے ،یہود و نصاریٰ کی طرح نہیں کہ خدا کا جو حکم مَن کو بھایا اس پر عمل کر لیا اور جو حکم خواہشات نفسانیہ کے خلاف ہوا سے چھوڑدیا۔آئندہ آیات میں ان کی برائی مزید وضاحت کے ساتھ ذکر کرتے ہیں کہ یہ بنی اسرائیل ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ساتھ اپنے تمام آبا و اجداد یعنی یعقوب علیہ السلام(ان کا نام اسرائیل بھی ہے، بنی اسرائیل انہی کی اولاد کو کہا جاتا ہے)اور اسحق علیہ السلام کے نہ صرف مذہب کے خلاف ہیں، بلکہ ان کی وصیت پر بھی عمل پیرا نہیں ہیں۔

﴿وَوَصَّی بِہَا إِبْرَاہِیْمُ بَنِیْہِ وَیَعْقُوبُ یَا بَنِیَّ إِنَّ اللّہَ اصْطَفَی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلاَ تَمُوتُنَّ إَلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ﴾․ترجمہ:اور یہی وصیت کر گیا ابراہیم اپنے بیٹوں کو اور یعقوب بھی کہ اے بیٹو!بے شک اللہ نے چن کر دیا تم کو دین ،سو تم ہر گز نہ مرنا مگر مسلمان۔

یعنی حضرت ابراہیم و اسحق اور یعقوب علیہم السلام نہ صرف دین حق پر قائم تھے، بلکہ ان انبیاء نے اپنی اولاد کو بھی دین حق پر قائم رہنے کی وصیت کا سلسلہ جاری رکھا۔(تفسیر ابن جریر:البقرة:132)

ان مقدس بزرگوں نے اپنی اولاد کو جو وصیتیں فرمائیں سب کا خلاصہ یہ تھا کہ اے بیٹو!تمہیں کسی اور دین و مذہب کی تلاش میں سرگرداں پھرنے کی چند اں ضرورت نہیں ہے،کیوں کہ خدائے وحدہ لم یزل نے تمہارے لیے اس دین حق کو چن لیا ہے۔ پس ہمیشہ اسی دین پر قائم رہنا، حتی کہ تمہاری موت بھی واقع ہو تو اسی دین پر ہو۔یعنی تم تادم مرگ اسلام پر قائم رہنا۔

حضرت ابراہیم کے آٹھ صاحب زادے تھے:
حضرت اسماعیل علیہ السلام۔حضرت اسحاق علیہ السلام۔ زمران۔ یقسان۔ مدان۔ مدیان۔ اسیاق۔سوخ۔

ان میں سے حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت ہاجرة علیہا السلام کے بطن اور حضرت اسحاق علیہ السلام حضرت سارة علیہا السلام کے بطن سے تھے، باقی تمام فرزند قطورہ کے بطن سے تھے۔(ماخوذ از تفسیرماجدی)

ان میں اسماعیل علیہ السلام سے قوم عرب اور اسحق علیہ السلام کے فرزند یعقوب علیہ السلام سے قوم بنی اسرائیل پھیلی۔آگے یہود کے اس دعوے کی تردید فرمارہے ہیں کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی وفات سے قبل اپنی اولاد سے عہد لیا تھا کہ وہ ہمیشہ یہودیت پر قائم رہیں گے۔

﴿أَمْ کُنتُمْ شُہَدَاء إِذْ حَضَرَ یَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِیْ قَالُواْ نَعْبُدُ إِلَہَکَ وَإِلَہَ آبَائِکَ إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَاقَ إِلَہاً وَاحِداً وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ﴾․
ترجمہ:کیا تم موجود تھے جس وقت قریب آئی یعقوب کے موت؟ جب کہااپنے بیٹوں کو کہ تم کس کی عبادت کرو گے میرے بعد؟ بولے ہم بندگی کریں گے تیرے رب کی اور تیرے باپ دادوں کے رب کی جو کہ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحق ہیں،وہی ایک معبود ہے اور ہم اسی کے فرماں بردار ہیں۔

یعنی تمہارا یہ دعویٰ کہ یعقوب علیہ السلام نے یہودیت کا عہد لیا تھا، محتاج ثبوت ہے، اگر تمہارے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں اور یقینا نہیں تو پھر کس سہارے پر اعتماد کرکے تم یہ دعویٰ کرتے ہو؟ کیا تم اس وقت موجود تھے، جب یعقوب علیہ السلام کی موت کا وقت قریب آیاتو اپنے بیٹوں سے فرمایا تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟ تو بیٹوں نے جواب میں کہا کہ ہم آپ اور آپ کے آباء واجداد ابراہیم ،اسماعیل اور اسحق علیہم السلام کے رب، جو کہ وحدہ لاشریک ہے، کی عبادت کریں گے اور ہم اسی کے تابع دار ہیں۔

کبھی کبھار چاچا کو بھی ”باپ“کہہ دیا جاتا ہے، جیسے رسول خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ (جو آپ کے چاچا تھے)کو باپ فرمایا۔ترمذی کی ذکر کردہ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس بن عبدالمطلب کے بارے میں فرمایا العباس عم رسول اللہ، وان عم الرجل صنو أبیہ أو من صنو ابیہ․( سنن الترمذی: باب مناقب العباس بن عبدالمطلب،5/653، رقم:3761)۔

اسی وجہ سے یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو باپ شمارکیا۔

حضرت یعقوب کے بارہ فرزند تھے، جو چار ازواج طاہرات سے تھے:
ان کے نام یہ ہیں: (1)روبن (2)شمعون (3)لادی (4)یہوداہ (5)اشکار، (6)زبلون (7)یوسف (8)بنیامین(9)دان (10)نفتالی(11)جد،(12)آشر۔(تفسیر ثمرقندی:بقرة:133)

یہود کی کتب میں حضرت اسحق اور یعقوب علیہما السلام کی وصیت کا حوالہ آج بھی موجود ہے ۔چناں چہ قصص الیہود میں اسحاق علیہ السلام کے بستر مرگ کا منظر یوں لکھا ہے:
”جب اسحاق نے دیکھا کہ ان کا وقت موعود آپہنچا تو انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں کو اپنے پاس بلالیا اور کہا کہ میں تمہیں خدائے تعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں، جس کی صفات علی ،عظیم ،قیوم،عزیزہیں اور جو آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی ہرشے کا خالق ہے کہ تم خوف اسی کا رکھنا اور عبادت اسی کی کرنا“۔

اور یعقوب علیہ السلام کی قبل از وفات وصیت کے بارے میں گنز برگ کی قصص یہود میں لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہاکہ:
”مجھے اندیشہ ہے کہ تم میں سے کوئی بت پرستی کا میلان رکھتا ہے،اس کے جواب میں بارہ بیٹوں نے کہا سن اے اسرائیل!اے ہمارے باپ! ہمارا خدا وہی خدائے لم یزل ہے، جس طرح تیرادلی ایمان ایک خدا پر ہے اسی طرح ہم سب کا دلی ایمان ایک خدا پر ہے “۔(ماخوذ از تفسیر ماجدی:البقرة: ذیل آیت133)

دین حق پر تادم مرگ قائم رہنے ہی کی تمنا ہر نبی کی تمنا اور دعا رہی ہے اور ہر نبی نے اسی کی وصیت اپنی اولاد کے لیے کی ،کیوں کہ یہی تمام عبادات اور اعتقادات کا خلاصہ ہے کہ انسان مرتے دم تک توحید پر قائم رہے اور اپنے رب کے ہرہر حکم کا فرماں بردار رہے۔ہرشخص کو چاہیے کہ اس دعا سے اپنے لب و زبان کو ہروقت تر رکھے۔

الغرض مذکورہ آیات سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل کے آباء و اجداد ابراہیم ،اسحاق اور یعقوب علیہم السلام دین اسلام پر قائم تھے اور اسی کی وصیت اپنی اولاد کو کر گئے تھے،لیکن ان لوگوں نے دین میں من پسند تحریفات اور خاتم المرسلین صلی الله علیہ وسلم کا انکار کرکے اسلام سے اعراض کر لیا تھا۔

﴿ تِلْکَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُم مَّا کَسَبْتُمْ وَلاَ تُسْأَلُونَ عَمَّا کَانُوا یَعْمَلُون﴾․
ترجمہ:وہ ایک جماعت تھی، جو گذرچکی، ان کے واسطے ہے جو انہوں نے کیا اور تمہارے واسطے ہے جو تم نے کیااور تم سے پوچھ نہیں ان کے کاموں کی۔

ملّت ابراہیمی پر قائم ہونے اور یعقوب علیہ السلام کی طرف غلط وصیت منسوب کرنے جیسے باطل سہاروں کی طرح اہل کتاب کے پاس ایک یہ سہارا بھی تھا کہ ہم انبیاء کی اولاد ہیں اللہ تعالیٰ ان انبیاء کے نسب کے طفیل ان کے اعمال ہماری طرف سے کفارہ کے طور پر قبول کر کے، ہمیں عذاب سے نجات دے گا۔ یا محض سزائے چند روزہ کے بعد ہمیں ہمیشہ کے لیے جنت میں بھیج دے گا۔

ان کے اس زعم باطل کا قلع قمع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہ تو بزرگوں کی ایک جماعت تھی، جو اس دنیا سے چلی گئی، ان کے اعمال تو صرف انہی کے کام آویں گے، تمہارے لیے کفارہ کیوں کر بنیں گے؟ تمہارے لیے وہی اعمال کام آویں گے،جو تم سر انجام دو گے۔خاتم المرسلین اور آخری کتاب کا انکار کر بیٹھے ہو اور پہلے گذرے ہوئے انبیاء کے اعمال پر تکیہ لگائے بیٹھے ہو،اس سے بڑی حماقت اور کیا ہوگی؟

کیا آخرت میں بزرگوں کا نسب یا نسبت فائدہ مند ہوگا؟
واضح رہے کہ قرآن و حدیث میں بعض مقامات میں بزرگوں (انبیاء وصلحاوغیرہ)کی نسبت کا بے سود ہونا بتلایا گیا ہے۔مثلاً:فرمان خداوندی:﴿ تِلْکَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُم مَّا کَسَبْتُمْ وَلاَ تُسْأَلُونَ عَمَّا کَانُوا یَعْمَلُون﴾․ (البقرة:134)
ترجمہ :یہ ایک جماعت تھی ،جو گذر چکی، ان کے کام ان کا کیا ہوا آوے گا اور تمہارے کام تمہارا کیا ہوا آوے گا اور تم سے ان کے کیے ہوئے کی پوچھ بھی تو نہ ہوگی۔اور فرمان خداوندی :﴿فَإِذَا نُفِخَ فِیْ الصُّورِ فَلَا أَنسَابَ بَیْْنَہُمْ یَوْمَئِذٍ وَلَا یَتَسَاء لُونَ﴾ (المومنون:101) ترجمہ:پھر جب صور پھونکا جاوے گا تو ان میں باہمی رشتے ناتے اس روزنہ رہیں گے اور نہ کوئی کسی کو پوچھے گا۔اور فرمان باری تعالیٰ:﴿إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ﴾․ (الحجرات :13)ترجمہ:اللہ کے نزدیک تم سب میں بڑا شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو۔

اسی طرح ایک حدیث میں آپ علیہ السلام نے حضرت فاطمہ رضی الله عنہا سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:”یافاطمة،انقذی نفسک من النار، لااغنی عنک من اللہ شیئاً․“

( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا)اے فاطمہ! اپنے نفس کو جہنم سے بچاؤ! میں خدا کے مقابلے میں تمہارے ذرا کام نہ آؤں گا۔(صحیح مسلم:باب فی قولہ تعالیٰ ﴿وانذر عشیرتک الٴاقربین﴾ رقم:522)

جب کہ بعض دیگر آیات و احادیث میں نسب اورنسبت صالحین کا سود مند ہونا بھی بیان کیا گیاہے۔

جیسے فرمان خداوندی :﴿وَالَّذِیْنَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُم بِإِیْمَانٍ أَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَمَا أَلَتْنَاہُم مِّنْ عَمَلِہِم مِّن شَیْْء﴾(الطور:21)
ترجمہ:اور جولوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کا ساتھ دیا، ہم ان کی اولادکو بھی ان کے ساتھ شامل کردیں گے اور ان کے عمل میں سے کوئی چیز کم نہیں کریں گے۔

اس طرح حدیث شریف میں ہے:”المرء مع من أحبَّ“․ (انسان انہیں کے ساتھ اٹھایا جائے گا جن سے محبت رکھتا ہو گا)۔( صحیح البخاری، کتاب بدء الوحی؟، باب علامة حبّ الله عزوجل، رقم:6168)

اسی طرح حدیث میں ہے:”ثم یشفع الأنبیاء فیمن کان یشھد أن لااِلہٰ الااللَّہ مخلصًا“۔ الیٰ اخرہ۔ (مسند احمد بن حنبل :مسندأبی سعید الخدری ،رقم :11096ط:مؤ قرطبا القاہرة)۔

مذکورہ آیات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیائے کرام اور صلحائے عظام سے نسبی اور نسبتی تعلق بھی روز قیامت فائدہ دیں گے۔

پس خوب سمجھ لینا چاہیے کہ جو شخص احکام قطعیہ میں انبیاء وصلحا ء (مقبولین)کا متبع ہو،لیکن سستی و غفلت کی بنا پر جزوی کوتاہیوں کا مرتکب ہو تو ایسا شخص ان کی شفاعت یا ان کی محبت قلبی یا معیت کی بنا پر روز قیامت مستفید ہو سکتا ہے،لیکن جوشخص احکام قطعیہ میں مقبولین کامتبع نہ ہو، اسے اس دن کوئی سفارش ،نسب،محبت یا معیت فائدہ نہیں دے سکتی ۔

اس تفصیل سے یہ بھی واضح ہوا کہ اوّل قسم کی آیات و احادیث کفارکے بارے میں، جب کہ موٴخرالذکر آیات واحادیث موٴمنین کے حق میں ہیں ۔(بیان القرآن :البقرة: ذیل آیت134)۔(جاری)

Flag Counter