دوسروں کو تکلیف دینے کی قباحت
ابوعکاشہ مفتی ثناء اللہ ڈیروی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
ایک عبرت انگیز واقعہ
مدینہ منورہ کے گرد ونواح میں ایک ڈیرے پر ایک عورت فوت ہوئی تو دوسری اسے غسل دینے لگی، جو غسل دے رہی تھی، جب اس کا ہاتھ مری ہوئی عورت کی ران پر پہنچا، تو اس کی زبان سے نکل گیا، میری بہنو! یہ جو عورت آج مر گئی ہے، اس کے تو فلاں آدمی کے ساتھ خراب تعلقات تھے۔
غسل دینے والی عورت نے جب یہ کہا تو قدرت کی طرف سے گرفت آگئی، اس کا ہاتھ ران پر چمٹ گیا، جتنا کھینچتی وہ جدا نہیں ہوتا، زور لگاتی ہے، مگر ران ساتھ ہی آتی ہے، دیر لگ گئی، میت کے ورثاء کہنے لگے بی بی! جلدی غسل دو، شام ہونے والی ہے، ہم کو نماز جنازہ پڑھ کر اس کو دفنانا بھی ہے۔ وہ کہنے لگی کہ میں تو تمہاری میّت کو چھوڑتی ہوں ، مگر وہ مجھے نہیں چھوڑ رہی، رات پڑ گئی، مگر ہاتھ یوں ہی چمٹا رہا، دن آگیا، پھر ہاتھ چمٹا رہا، اب مشکل بنی تو اس کے ورثاء علماء کے پاس گئے، ایک عالم نے فتوی دیاکہ چھری سے عورت کا ہاتھ کاٹ دیا جائے، غسل دینے والی عورت کے ورثاء کہنے لگے ہم تو اپنی عورت کو معذور کرانا نہیں چاہتے، ہم اس کا ہاتھ نہیں کاٹنے دیں گے ایک اور عالم کے پاس گئے تو انہوں نے کہا کہ مری ہوئی عورت کا گوشت کاٹ دیا جائے، مگر اس کے ورثاء نے کہا کہ ہم اپنی میّت خراب نہیں کرنا چاہتے، تین دن اور تین رات اسی طرح گزر گئے، گرمی بھی تھی، دھوپ بھی تھی، بدبو پڑنے لگی، گردونواح کے کئی کئی دیہاتوں تک خبر پہنچ گئی، انہوں نے سوچا کہ یہاں مسئلہ کوئی حل نہیں کر سکتا، چلو مدینہ منورہ ، وہاں حضرت امام مالک رحمہ الله اس وقت قاضی القضاہ کی حیثیت میں تھے، وہ لوگ حضرت امام مالک رحمہ الله کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے حضرت! ایک عورت مر گئی، دوسری عورت اسے غسل دے رہی تھی کہ اس عورت کا ہاتھ مری ہوئی عورت کی ران کے ساتھ چمٹ گیا ، چھوٹتا ہی نہیں، تین دن ہو گئے۔ اب کیا کیا جائے؟
امام مالک رحمہ الله نے فرمایا: مجھے وہاں لے چلو، وہاں پہنچے تو چادر کی آڑ میں پردے کے اندر کھڑے ہو کر غسل دینے والی عورت سے پوچھا، بی بی! جب تیرا ہاتھ چمٹا تھا، تو تونے زبان سے کوئی بات تو نہیں کہی تھی، وہ کہنے لگی میں نے صرف اتنا کہا تھا کہ یہ جو عورت مری ہے، اس کے فلاں مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے۔
امام مالک رحمہ الله نے پوچھا بی بی! جو تونے تہمت لگائی ہے، کیا اس کے چار چشم دید گواہ تیرے پاس ہیں؟ کہنے لگی نہیں، پھر فرمایا: کیا اس عورت نے خود تیرے سامنے اپنے بارے میں اقرارا جرم کیا تھا؟ کہنے لگی نہیں۔
تو امام مالک رحمہ الله نے فرمایا کہ پھر تونے کیوں تہمت لگائی؟ اس نے کہا کہ میں نے اس لیے کہہ دیا تھا کہ وہ گھڑا اٹھا کر اس کے دروازے سے گزر رہی تھی، یہ سن کر امام مالک رحمہ الله نے وہیں کھڑے ہو کر قرآن مجید پر نظر ڈالی، پھر فرمانے لگے ، قرآن پاک میں آتا ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُہَدَاء فَاجْلِدُوہُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَة﴾․(سورة النور:4)
ترجمہ:” جو عورتوں پر ناجائز تہمتیں لگا دیتے ہیں، پھر ان کے پاس چار گواہ نہیں ہوتے، تو ان کی سزا ہے کہ ان کو اسی کوڑے مارے جائیں۔“
چناں چہ امام مالک رحمہ الله نے فیصلہ سنایا کہ تونے ایک مردہ عورت پر تہمت لگائی، تیرے پاس کوئی گواہ نہیں تھا، میں وقت کا قاضی القضاہ حکم دیتا ہوں، جلادو! اسے مارنا شروع کر دو، جلادوں نے اسے مارنا شروع کر دیا، وہ کوڑے مارے جارہے ہیں، ستر کوڑے مارے، مگر ہاتھ یوں ہی چمٹا رہا، پچھہتر کوڑے مارے گئے ، مگر ہاتھ پھر بھی یوں ہی چمٹا رہا، اناسی کوڑے مارے تو ہاتھ پھر بھی نہ چھوٹا، جب اسی واں کوڑا لگا، تو اس کا ہاتھ خود بخود چھوٹ کر جدا ہو گیا۔
غیبت سننا بھی جائز نہیں
جس طرح کسی کی غیبت کرنا ناجائز ہے، اسی طرح کسی کی غیبت سننا بھی ناجائز ہے، جیسے ماقبل حدیث سے معلو م ہو گیا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان دونوں آدمیوں کو جنہوں نے حضرت ماعز رضی الله عنہ کے بارے میں غیبت کی تھی اور سنی تھی، مردار گوشت کھانے کا حکم دیا تھا۔
اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے، جو حضرت ابن عمر رضی الله عنہما روایت کرتے ہیں۔کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے غیبت کرنے اور غیبت سننے سے منع فرمایا۔ (مجمع الزوائد،کتاب الآداب، باب ماجاء فی الغیبة والنمیمة91/8 دارالفکر)
جس مجلس میں غیبت ہو رہی ہو، وہاں انسان کیا کرے؟
اگر انسان کسی مجلس میں بیٹھا ہوا ہے اور دوسرا شخص اس کے سامنے کسی کی غیبت کرنے لگا، تو اب سننے والے پر لازم ہے کہ اس کی بات کاٹ دے، اور جس کی غیبت ہو رہی ہے، اس کا دفاع کرے۔ ( حاشیہ ابن عابدین، کتاب الحظر والاباحة، فصل فی البیع، 291/5 رشیدیہ)
او راگر کوئی زبان سے دوسرے کو منع نہیں کرسکتا، مثلاً ایک شخص اس کے سامنے دوسرے کی غیبت کرنے لگا، تو یہ شخص زبان سے اس کو منع کرے، کہ اس کی غیبت نہیں کرو، لیکن اگر زبان سے نہیں منع کر سکتا، تو اب اس مجلس سے اٹھ کر چلا جائے، لیکن اگر مجلس سے اٹھ کر جانے پر قادر نہیں، تو اس غیبت کے عمل کو دل سے برا مانے اور اس غیبت کے موضوع کو دوسری باتوں کی طرف پھیرے، اگر ایسا نہ کیا تو یہ سننے والا بھی گناہ گار ہو گا۔ ( حاشیہ ابن عابدین، کتاب الحظر والاباحة، فصل فی البیع، 291/5، رشیدیہ)
اپنے مسلمان بھائی کی طرف سے دفاع کی فضیلت
جب ایک مجلس میں کسی کی غبیت ہو رہی ہو، تو سننے والے کو چاہیے کہ وہ غیبت سننے کے بجائے اپنے بھائی کی طرف سے دفاع کرے، اور جو شخص غیبت کر رہا ہے اس کو غیبت نہ کرنے دے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”من ذب عن عرض أخیہ بالغیبة کان حقا علی الله أن یعتقہ من النار․“
جس نے اپنے بھائی کی طرف سے دفاع کیا، جس کا غیبت کے ذریعہ گوشت کھایا جارہا تھا، تو الله تعالیٰ کے ذمہ ہے کہ اسے دوزخ سے آزاد کر دے۔ ( مجمع الزوائد، کتاب الآداب، باب فیمن ذب عن مسلم غیبة،95/8)
اسی طرح ترمذی شریف کی روایت ہے:”عن أبی الدرداء عن النبی صلی الله علیہ وسلم، قال: من ردّ عن عرض أخیہ ردّ اللہ عن وجھہ النار یوم القیمٰة․“(سنن الترمذی، ابواب البر والصلة، ماجاء فی الذب عن المسلم، رقم الحدیث:1928)
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا کہ جس نے اپنے مسلمان بھائی کی آبرو سے پھیرا، یعنی کوئی شخص اس کی غیبت کر رہا تھا، تو اس نے غیبت کرنے والے کو روک دیا، تو الله تعالیٰ اس کے چہرے سے قیامت کے دن دوزخ کی آگ پھیر دیں گے۔
جو مسلمان کی مدد چھوڑ دے الله اس کو آخرت میں بغیر مدد کے چھوڑ دے گا
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی مسلمان کی کسی جگہ بے حرمتی کی جارہی ہو او روہاں جو شخص موجود ہو، اس کی مدد نہ کرے، یعنی برائی کرنے والے کو اس کے عمل سے نہ روکے، الله تعالیٰ ایسی جگہ میں اسے بغیر مدد کے چھوڑ دے گا، جہاں وہ اپنی مدد کا خواہش مند ہو گا او رجس کسی نے مسلمان کی ایسی جگہ مدد کی، جہاں اس کی آبرو گھٹائی جارہی ہو، الله تعالیٰ اس کی ایسی جگہ میں مدد فرمائے گا، جہاں وہ اپنی مدد کا خواہش مند ہو گا۔ ( الترغیب والترہیب ، کتاب آفات اللسان، الترہیب من الغیبة،518/3)
واقعہ
ایک تابعی ،جن کا نام ربعی رحمہ الله ہے اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ایک مجلس میں پہنچا ،میں نے دیکھا، کہ لوگ بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے ہیں، میں بھی اس مجلس میں بیٹھ گیا، اب باتوں کے دوران کسی کی غیبت شروع ہو گئی ، مجھے یہ بات بری لگی کہ ہم یہاں مجلس میں بیٹھ کر کسی کی غیبت کریں، چناں چہ میں اس مجلس سے اٹھ کر چلا گیا، تھوڑی دیر بعد خیال آیا کہ اب مجلس میں غیبت کا موضوع ختم ہو گیا ہو گا، اس لیے دوبارہ اس مجلس میں ان کے ساتھ بیٹھ گیا، اب تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں، لیکن تھوڑی دیر کے بعد پھر غیبت شروع ہو گئی، لیکن اب میری ہمت کمزور پڑ گئی اور میں اس مجلس سے اٹھ نہ سکا اور جو غیبت وہ لوگ کرتے رہے، میں اسے سنتارہا، پھر میں نے بھی غیبت کے ایک دو جملے کہہ دیے۔
جب میں اس مجلس سے ہو کر گھر آیا اور رات کو سویا تو خواب میں ایک انتہائی سیاہ فام آدمی کو دیکھا، جو ایک بڑے طشت میں میرے پاس گوشت لے کر آیا، جب میں نے غور سے دیکھا تو وہ خنزیر کا گوشت تھا اور وہ سیاہ فام آدمی مجھ سے کہہ رہا ہے کہ خنزیر کا گوشت کھاؤ، میں نے کہا میں مسلمان ہوں، خنزیر کا گوشت کیسے کھاؤں؟ اس نے کہا تمہیں کھانا پڑے گا، پھر زبردستی اس گوشت کے ٹکڑے میرے منھ میں ٹھونسنے لگا، اب میں منع کرتا جاتا ہوں اور وہ ٹھونستا جارہا ہے ، یہاں تک کہ مجھے متلی اور قے آنے لگی، مگر وہ ٹھونستا جارہا تھا، پھر اسی شدید اذیت کی حالت میں میری آنکھ کھل گئی، جب بیدار ہونے کے بعد میں نے کھانے کے وقت کھانا کھایا، تو خواب میں جو خنزیر کے گوشت کی بدبو اور ذائقہ تھا، وہ مجھے اپنے کھانے میں محسوس ہوا اور تیس دن تک میرا یہ حال رہا، جس وقت میں کھانا کھاتا، تو ہر کھانے میں اس خنزیر کے گوشت کا بدترین ذائقہ میرے کھانے میں شامل ہو جاتا۔
اور اس واقعہ سے الله تعالیٰ نے اس پر متنبہ فرمایا کہ ذرا سی دیر میں نے مجلس میں غیبت کی تھی، اس کا برا ذائقہ میں تیس دن تک محسوس کرتا رہا۔
اپنے بھائی کو کس انداز سے یاد کرنا غیبت ہے ؟
دوران مجلس کسی نہ کسی شخص کا تذکرہ آجاتا ہے او راس کے بارے میں مجلس میں باتیں چھڑ جاتی ہیں، اب کیسے معلوم ہو کہ یہ اس کی غبیت ہو رہی ہے یا نہیں؟
تو اتنا تو ماقبل حدیث سے معلوم ہو گیا کہ غیبت اس صورت میں ہوگی کہ اگر وہ باتیں اس شخص کو معلوم ہو جائیں ، تواس کو ناگوار لگیں یا اس کو ایسی صفت سے یاد کیا جائے کہ جو اس کو بری لگے۔
1... خواہ اس کا تعلق جسم سے ہو، مثلاً بھینگا، چندہ، لمبا وغیرہ۔
2... یا اس کا تعلق اس کے اخلاق سے ہو، مثلاً فلاں بڑا بد مزاج ہے، بڑا بخیل ہے۔ وغیرہ۔
3... یا اس کا تعلق اس کے قول سے ہو، یا اس کے فعل سے، مثلاً زیادہ بولتا ہے، یا زیادہ کھاتا ہے ، زیادہ سوتا ہے۔ وغیرہ۔
4... یا اس کا تعلق اس کے دین سے ہو یا دنیا سے ۔ مثلاً فلاں بے نمازی ہے چور ہے۔ وغیرہ۔
5... یا اس کا تعلق اس کے نسب سے ہو۔ مثلاً کسی حقیر پیشے والا بتلا یا جائے۔ (حاشیہ ابن عابدین، کتاب الحظر والإباحة، فصل فی البیع،291/5)
تنبیہ
اور یہ ضروری نہیں کہ زبان سے جو غیبت کی جائے وہی غیبت ہو، بلکہ ہاتھ کے اشارے سے نقل اتارنا بھی غیبت ہے اور یہ سب حرام ہے۔ (حاشیہ ابن عابدین، کتاب الحظرہ الإباحة، فصل فی البیع،290/5)
6...اسی طرح کبھی غیبت تعریض کے ساتھ ہوتی ہے ، مثلاً جب کسی کا تذکرہ ہو، تو یہ کسی کے گناہ اور غیبت کو اس انداز سے بیان کرتا ہے کہ الله کا شکر ہے کہ الله نے ہمیں اس گناہ سے بچایا ہے، یہ بھی دراصل اس شخص کی غیبت ہو رہی ہے۔
7... اسی طرح لکھنے کے ساتھ بھی غیبت ہوتی ہے کسی متعین شخص کے بارے میں اس کی خامیاں لکھیں، تو یہ بھی غیبت ہے ۔ ( حاشیہ ابن عابدین، کتاب الحظر والإباحة، فصل فی البیع290/5)
غیبت کرنے کا کفارہ
اگر انسان سے غیبت کا گناہ سرزد ہو جائے، تو اس کا کفارہ اور معافی کی کیا صورت ہے؟
ایک حدیث میں ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ اس کے لیے استغفار کرے، جس کی غیبت کی ہے اور یوں دعا کرے۔ ”اللھم اغفرلناولہ“ اے الله! ہماری اور اس کی مغفرت فرما دے۔(مشکوٰة المصابیح، کتاب الآداب، باب حفظ للسان، الفصل الثالث، رقم الحدیث:4877)
حاشیہ ابن عابدین میں ہے کہ:
اگر کسی نے غیبت کرنے سے توبہ کر لی اور جس کی غیبت کی تھی، اس تک یہ بات ( غیبت) نہیں پہنچی تو اب غیبت کرنے والے کی توبہ کافی ہے، جس کی غیبت کی ہے اس سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں، لیکن اگر توبہ کے بعد جس کی غیبت کی تھی، اس کو پتہ چل گیا، تو اب ایک قول یہ ہے کہ اس کی توبہ باطل نہیں ہو گی، بلکہ الله تعالیٰ دونوں کو بخش دیں گے، جس نے غیبت کی تھی، اس کو توبہ کرنے کی وجہ سے اور جس کی غیبت کی گئی تھی اس کو جو تکلیف پہنچی اس کے سبب اس کو بخش دیں گے۔
او رایک قول یہ ہے کہ غیبت سے توبہ معلق ہوتی ہے، اگر جس کی غیبت کی تھی وہ فوت ہو گیا اور اس کو اس ( غیبت) کا علم نہیں ہوا تو غیبت کرنے والے کی توبہ قبول ہے، لیکن اگر دوسرے کو معلوم ہو گیا کہ فلاں نے میری غیبت کی ہے تو اب جس نے غیبت کی تھی، اس کے لیے صرف الله سے معافی مانگنا کافی نہیں، بلکہ اس بندے سے بھی معافی مانگے او راس کے لیے استغفار کرے۔ (حاشیہ ابن عابدین، کتاب الحظر والاباحة، فصل فی البیع291/5)
اور اگر کسی پر بہتان باندھا تھا، یعنی کسی کے بارے میں ایسے بری بات کی تھی، جو اس میں نہیں تھی تو اب اس کا کفارہ یہ ہے کہ جس مجلس میں وہ بات کی تھی، اس مجلس میں اپنی تکذیب کرے کہ میں نے فلاں کے بارے میں جھوٹ بولا تھا، تب تو بہ قبول ہو گی۔ (حاشیہ ابن عابدین، کتاب الحظر والاباحة، فصل فی البیع291/5)
جب کوئی معافی مانگے تو معاف کر دینا چاہیے
اسی طرح اگر کسی نے غیبت یا کسی اور طریقے سے تکلیف پہنچائی ہے اور اب وہ اپنے فعل پر نادم ہے اور معافی طلب کر رہا ہے تو اب دوسرے کو چاہیے کہ اس کو معاف کرے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”من اعتذر إلیہ فلم یقبل لم یرد علی الحوض․“(مجمع الزوائد، کتاب الآداب، باب الاعتذار81/8 دارالفکر)
یعنی جس سے کسی نے معافی مانگی اور اس نے اس کی معافی قبول نہیں کی تو یہ شخص میرے پاس حوض کوثر پر نہیں آئے گا۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کی سیرت ہمارے سامنے ہے، مشرکین مکہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو ستانے او رتکلیف دینے میں وہ کون سا طریقہ تھا جس پر عمل نہیں کیا، لیکن جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر ان کفار پر قابو پالیا، تو سب کو معاف فرما دیا۔
امام مالک رحمہ الله کا واقعہ
بعض حاسدوں نے امام مالک رحمہ الله کی سخت مارپیٹ کی، خلیفہ وقت نے ان سب کو سزا دینا چاہی، تو امام مالک رحمہ الله نے سواری پر سوار ہو کر شہر میں اعلان کیا کہ میں نے ان سب کو معاف کیا، کسی کو سزا دینے کا کوئی حق نہیں۔
امام احمد بن حنبل رحمہ الله کا واقعہ
حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ الله کو خلیفہ کوڑے لگواتا، امام صاحب ہر روز معاف کردیتے، پوچھا گیا، کیوں معاف کر دیتے ہیں ؟ فرمایا: میری وجہ سے حضور صلی الله علیہ وسلم کے کسی امتی کو قیامت میں عذاب ہو، اس میں میرا کیا فائدہ ہے؟
حضرت ابراہیم بن ادہم رحمہ الله کا واقعہ
حضرت ابراہیم بن ادہم رحمہ الله کو ایک مرتبہ ایک سپاہی نے جوتے مارے، بعد میں اس کو معلوم ہوا کہ یہ بہت بڑے بزرگ ہیں، اس نے معافی چاہی ، تو فرمایا: دوسرا جوتا مارنے سے پہلے میں معاف کر دیتا تھا۔
غیبت کے باب میں رخصت کے مواقع
اگر کسی شخص کی غیبت کرنے میں کوئی صحیح دینی مصلحت پوشیدہ ہو، اور وہ مقصد اس کے بغیر حاصل نہ ہوتا ہو، تو غیبت کرنا گناہ نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بعض مواقع پر شریعت نے غیبت کی اجازت بھی دی ہے۔
ظلم کی داد رسی کے لیے
مثال کے طور پر کوئی مظلوم حاکم سے یہ شکایت کرے کہ فلاں شخص نے مجھے پر ظلم کیا ہے، میرے ساتھ خیانت کی ہے ، یا مجھ سے رشوت لی ہے، تو یہ غیبت نہیں ہے، لیکن اگر وہ مظلوم نہیں تو یہ شکایت غیبت سمجھی جائے گی او راس کا گناہ ہو گا، مظلوم کے لیے اجازت کی وجہ یہ ہے کہ وہ حاکم کو صحیح واقعہ بتلائے بغیر اپنا حق حاصل نہیں کرسکتا۔ (حاشیہ ابن عابدین، کتاب الحظروالاباحة، فصل فی البیع290/5)
اصلاح کے لیے
اسی طرح کسی امر منکر میں تبدیلی اور نافرمان کو راہ راست پر لانے کے لیے یا کسی سے مدد طلب کرنے کے لیے غیبت کرے تو جائز ہے۔ ( مثلاً کوئی طالب علم کسی برائی میں مبتلا ہے اس کے استاد کو یا بیٹے کی شکایت اس کے والد کو کرنا، تاکہ استاد یا والد کو علم ہو جائے اوراس کی اصلاح کر لیں ۔ (الفتاوی العالم گیریہ، کتاب الکراہیة ، الباب الثالث والعشرون362/5)
فتوی حاصل کرنے کے لیے
مثلاً مفتی یا عالم سے جا کر یہ دریافت کرنا کہ مجھ پر میرے باپ، بھائی یا فلاں نے یہ ظلم کیا ہے، میرے لیے شریعت کا کیا حکم ہے ؟ بہتر تو یہ ہے کہ استفتاء میں کنایہ سے کام لے، یعنی اس طرح دریافت کرے کہ اگر کسی شخص پر اس کا باپ، بھائی وغیرہ ظلم کرے، تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ تاہم ان مواقع پر صراحت بھی گناہ نہیں ہے۔ (حاشیہ ابن عابدین، کتاب الحظروالاباحة، فصل فی البیع290/5)
جیسا کہ ہند بنت عقبہ رضی الله عنہا کی روایت ہے کہ وہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے شوہر سفیان کی شکایت لے کرآئیں اور کہنے لگیں کہ میرا شوہر ایک بخیل آدمی ہے، وہ مجھے اتنا خرچ نہیں دیتا جو میرے اور بچوں کے لیے کافی ہو، کیا میں اس کے علم واطلاع کے بغیر اس کے مال میں سے کچھ لے سکتی ہوں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس قدر تجھے اور تیرے بچوں کو کافی ہو اتنا لے لیا کر۔ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب النفقات، باب اذا لم ینفق الرجل فللمرأة أن تاخذ بغیر علمہ،808/2)
مسلمانوں کو اس کے شر سے بچانے کے لیے
کوئی اگر کسی کی برائی اس نیت سے ظاہر کرتا ہے، تاکہ مسلمان اس کے شر سے واقف ہو جائیں او رکوئی اس سے دھوکہ نہ کھائے۔ (حاشیہ ابن عابدین289/5)
اسی طرح حدیث کے راویوں او رگواہوں اور مصنفین پر جرح کرنا یہ بھی غیبت نہیں، بلکہ ایسا کرنا واجب ہے، تاکہ شریعت محفوظ رہے۔ (حاشیہ ابن عابدین290/5)
اگر کوئی کسی کے بارے میں مشورہ طلب کرے
اگر کوئی کسی کے بارے میں مشورہ طلب کرے، مثلاً کسی کو نوکر رکھنا چاہتا ہے، یا کسی سے شادی کرنا چاہتا ہے اور وہ مشورہ طلب کرے، تو اب اگر اس میں کوئی عیب ہے اور اسے معلوم ہے، تو بتا دے، یہ غیبت نہیں۔ (حاشیہ ابن عابدین290/5)
عرفیت کی وجہ سے
اگر کسی شخص کاکوئی عیب معروف ہو گیا ہو اور لوگ اسے اسی عیب کے حوالے سے بلاتے ہوں، مثلاً اندھا، کانا، لنگڑا وغیرہ تو اب اس نام سے اس کو بلانا اور اس نام سے اس کا تذکرہ کرنا غیبت نہیں، کیوں کہ احادیث کی کتابوں میں اس طرح کی اسناد منقول ہیں۔ جیسے روی ابو الزنادعن الأعرج وسلیمان عن الأعمش“ یعنی ابو الزنادنے اعرج(لنگڑے) سے روایت کی اور سلیمان نے اعمش (چندھے) سے روایت کی۔ ( حاشیہ ابن عابدین290/5)
کھلے فسق کی وجہ سے
اگر کوئی شخص کھلم کھلا فسق کا ارتکاب کرتا ہے، مثلاً شراب خور، رشوت خور، اسی طرح اور کوئی گناہ علی الاعلان کرتا ہے اور وہ اس گناہ کو ( نعوذ بالله) اپنے لیے کوئی عیب نہیں سمجھتا، تو ایسے آدمی کی غیبت کرنا جائز ہے۔
”من القی جلباب الحیاء عن وجہہ فلا غیبة لہ․“
جو شخص اپنے چہرے سے حیا کا نقاب اتار پھینکے، اس کی برائی کا ذکر کرنا غیبت نہیں۔ (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، سورة الحجرات217/8، دار احیاء التراث العربی)
البتہ اگر کوئی پوشیدہ گناہ کرے، تو اس کی غیبت جائز نہیں۔ (حاشیہ ابن عابدین290/5) (جاری)