Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1435ھ

ہ رسالہ

5 - 16
احکام مصیبت

حکیم الاُمّت مولانا اشرف علی تھانوی
مرسلہ: مولانا محمدیونس ڈیروی

حالات دو قسم کے ہیں، ایک” سرَاء “یعنی نعمت وخوشی کی حالت ، دوسرے ”ضرَاء“ یعنی مصیبت ورنج کی حالت۔ خوشی کے احکام تو قریب قریب سب کو معلوم ہیں، اگرچہ تفاصیل میں کوتاہی ہو، مگر مجملاً اکثر لوگ جانتے ہیں کہ خوشی کے کیا احکام ہیں۔ مگر احکام مصیبت بہت کم لوگ جانتے ہیں، کیوں کہ یہ طبیعت کے خلاف حالت ہے او رانسان کو ناگوار ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ناگوار چیز کی طرف توجہ کم ہوا کرتی ہے۔ نیز مصیبت میں چوں کہ اشتعال ہوتا ہے یا پژمردگی، اس لیے بھی اس کے احکام معلوم کرنے کی طرف توجہ کم ہوا کرتی ہے ،اس لیے میں اس کو بیان کرتا ہوں:

1... سب سے اوّل تو یہ حکم ہے کہ جب مصیبت میں ابتلا ہو تو صبر کیا جائے کہ مومن کی یہی شان ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں عَجَبا لِأمْرِ الْمُؤْمِنِاِنْ اَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْراً لَہُ، وَاِنْ اَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ، صَبَرَ فَکَانَ خَیْراً لَہُ( مشکوٰة المصابیح، باب التوکل والصبر ،ص:452)

کہ مومن کی بھی عجیب حالت ہے کہ کوئی حالت اس کو خسارہ نہیں پہنچا سکتی، اگر اس کو خوشی پہنچتی ہے شکرکرتا ہے او راگر مصیبت پہنچتی ہے صبر کرتا ہے تو دونوں حالتوں میں نفع رہا۔

2... دوسرا حق مصیبت کا یہ ہے کہ خدا کی رحمت سے مصیبت میں مایوسی نہ ہو، بلکہ فضل وکرم کا امید وارر ہے، حق تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وَلاَ تَیْأَسُوأ مِن رَّوْحِ الله إِنَّہُ لاَ یَیْأَسُ مِن رَّوْحِ الله إِلاَّ الْقَوْمُ الْکَافِرُون﴾․سورہٴ یوسف:87)
ترجمہ:” اور خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہو، کیوں کہ خدا کی رحمت سے تو کافر ہی مایوس ہوتے ہیں۔“

مسلمانوں کو تو خدا سے بہت بڑی امید رکھنی چاہیے، پس کتنی ہی بڑی مصیبت کیوں نہ ہو، دل شکستہ ہر گز نہ ہونا چاہیے۔

3... ایک حکم یہ ہے کہ مصیبت کی وجہ سے دوسرے احکام شرعیہ میں کوتاہی نہ کرے اور ان کو ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ ہر کسی کو معلوم ہے کہ عزیز کا مر جانا کتنی بڑی مصیبت ہے، مگر حکم یہ ہے کہ صرف آنسو بہا سکتے ہیں ، چلانا اور شور مچانا حرام ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ احکام شرعیہ کا لحاظ رکھنا بڑی سے بڑی مصیبت میں بھی واجب ہے۔

4... ایک حکم یہ ہے کہ خدا سے اس مشکل کے آسان کر دینے کی دعا کرتا رہے او رتدابیر میں مشغول رہے، مگر تدبیر کو کار گر نہ سمجھے، شریعت کا یہ مقصود نہیں کہ تمام تدابیر چھوڑ کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاؤ، دعا کا حکم تو صرف اس لیے ہے کہ تدبیر میں بغیر دعا کے برکت نہیں ہوتی اور یہ مقصود نہیں کہ صرف دعا پر اکتفا کیا جائے اور تدبیر کچھ نہ کی جائے البتہ جن کی کوئی تدبیر نہیں، جیسے بارش، ان کے لیے صرف دعا جائز ہے او رجس میں تدبیر ہو سکتی ہے اس میں تدبیر ودعا دونوں کرو۔

5... ایک حکم مصیبت کا یہ ہے کہ استغفار کرو، یعنی اپنے گناہوں سے معافی چاہو، کیوں کہ مصیبت اکثر گناہوں کی بدولت آتی ہے۔﴿مَااَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتُ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ﴾․

اس لیے استغفار کرنا بہت ضروری ہے مولانا فرماتے ہیں #
        ہر چہ آید بر تو از ظلمات وغم
        آن زبے باکی وگستاخی است ہم
        غم چو بینی زود استغفار کن
        غم بامر خالق آمد کار کن
ترجمہ: جو کچھ تمہارے اوپر رنج وغم کی اندھیریاں آتی ہیں سب کا سب تمہاری گستاخیاں اور بے باکیاں ہیں ۔یعنی گناہوں پر دلیر اور جری ہونا ہے، پس جب دل میں غم محسوس کرو تو فوراً استغفار میں مشغول ہو جاؤ، کیوں کہ غم خالق کے حکم سے آتا ہے، لہٰذا خالق ہی کو راضی کرنے میں مشغول ہو جاؤ۔

6... ایک حکم یہ ہے کہ اگر مصیبت ہمارے کسی بھائی مسلمان پر نازل ہو تو اس کو اپنے اوپر نازل سمجھا جائے اور اس کے لیے ویسی ہی تدبیر کی جائے جیسا کہ اپنے اوپر مصیبت نازل ہوتی اس وقت کرتے۔ ( خطبات حکیم الامّت، ص367،ج:4)

Flag Counter