Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1435ھ

ہ رسالہ

1 - 16
اپنے دوستوں کو جانئے

عبید الله خالد
	
کہتے ہیں، انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت کیسے لوگوں کے ساتھ گزارتا ہے؟ دن رات کن کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے؟ کس فکر اور کس مزاج کے لوگوں کے ساتھ یارانہ ہے؟ اِن چند سادہ سوالات کے جوابات کسی فرد کی شخصیت، اس کے مزاج اور اس کے مستقبل کا پتا دیتے ہیں۔

کسی سیانے کا قول ہے، مجھے تم اپنے دوستوں کے بارے میں بتادو، میں تمھیں تمھارے بارے میں بتا دوں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ وہی کچھ ہوتے ہیں جیسے لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے، نشست و برخاست کرتے ہیں۔ آپ کی صحبت، آپ کی شخصیت کی تشکیل کرتی ہے #
            صحبت طالع ترا طالع کند؛ صحبت صالح ترا صالح کند

اسلام میں تزکیہ کی اہمیت سے آپ بہ خوبی آگاہ ہیں، اور تزکیہ کیلئے صحبت کو علمائے دین نے اساس قرار دیا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک ہر دور میں اچھی صحبت کی اہمیت کو نہ صرف باور کرایا گیا ہے، بلکہ اسلامی معاشرے میں نیک لوگوں کی صحبت کو باقاعدہ رواج دیا گیا اور پھر ”سلوک“ نے اسے باقاعدہ ایک اسلامی روایت کی حیثیت دی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میسر تھی۔ صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ کر صرف قرآن و حدیث ہی نہیں سمجھتے تھے بلکہ اللہ سے اپنے تعلق کو جوڑنے والے نورِ نبوت سے بھی فیض یاب ہوتے تھے۔ لہٰذا، ان کی تعلیم میں تزکیہ ایک لازمی جزو تھا، اور تزکیہ کہ جسے قرآن میں کامیابی کی ضمانت قرار دیا گیا، محض قرآن کا ترجمہ پڑھ لینے یا تنہا حدیث و فقہ کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے حاصل نہیں ہوتا۔ تجربہ و مشاہدہ شاہد ہے کہ اسلام کا نور یا اسپرٹ ایک مسلمان سے دوسرے مسلمان میں تبھی منتقل ہوتی ہے جب وہ کتاب کے ساتھ ساتھ کتاب کو سمجھانے والے کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے اور اس سے بہ راہِ راست فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ فیضان علوم نبوبت کی منتقلی کا یہ سلسلہ آج تک اسی صورت میں جاری و ساری ہے کہ اللہ کے بندے ایک سے دوسرے تک دین کا علم اس کی روح کے ساتھ منتقل کرتے ہیں۔

چنانچہ قرآن، حدیث اور فقہ کے الفاظ کے ساتھ ساتھ جب طالب علم کا تزکیہ ہوتا ہے تو اس کے اندر خشیت بھی پیدا ہوتی ہے اور وہ دین کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ گناہوں سے بچتا، نیکیوں پر سبقت کی کوشش کرتا اور اللہ سے ڈرنا شروع کردیتا ہے۔ ورنہ قرآن و حدیث پڑھنے والے تو یوروپی یونیورسٹیز میں بھی ملیں گے جہاں اسلامی معلومات تو فراہم ہوجاتی ہیں مگر اسلامی روح سینوں میں منتقل نہیں ہوتی۔ اس کے برخلاف اسلام کا روایتی طریقہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آج تک بلاتعطل چلا آرہا ہے، قرآن و حدیث و فقہ کے طالب علم کو تعلیم فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا تزکیہ بھی کرتا ہے۔ پھر، جو عام مسلمان بھی اس سسٹم کا حصہ بنتے ہیں، خواہ وہ باقاعدہ طالب علم نہ ہوں، ان میں بھی اللہ والوں کی صحبت کی بدولت یہ نور منتقل ہوتا ہے اور وہ دین پر آسانی کے ساتھ عمل کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں، اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔

آج کے پُرفتن دور میں کہ جب چار سو، گمراہی اور تاریکی پھیل رہی ہے، دین کی اصل روح پانے اور اپنا تزکیہ کرکے دین پر چلنے کا آسان ترین طریقہ یہی ہے کہ ایسے نیک لوگوں کے ساتھ اٹھا بیٹھا جائے کہ جن کی گفتگو اور برتاؤ سے اللہ کی طرف رجوع آسان ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان اللہ والوں کی صحبت کی ضرورت آج کے دور میں کہیں زیادہ ہے، اور یہ ہر مسلمان کی بنیادی دینی ذمے داری بن چکی ہے کہ اپنا کم و بیش وقت ان اللہ والوں کی صحبت میں گزارے، کیوں کہ تنہا عبادت کرنے والے کو پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ کب شیطان کے داؤ کا شکار ہوچکا ہے۔ یہ نیک لوگوں کی صحبت ہی ہے کہ اسے شیطان اور نفس کے دھوکوں سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔

Flag Counter