Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1435ھ

ہ رسالہ

8 - 16
ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کا شرعی حکم

مفتی امداد الحق بختیارپروہی
	
عام حالتوں میں ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے، بالخصوص نماز کی حالت میں کپڑا لٹکانے اور نماز سے قبل پائینچے موڑنے پر مدلل ومفصل بحث کی گئی ہے

نماز سے قبل پائینچے موڑنے کی مخالفت کرنے والے
بعض مکاتب فکر کے علماء اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کسی کا کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہے، تو وہ نماز سے قبل اپنے پائینچے نہ موڑے، کیوں کہ یہ عمل مکروہ ہے، جس سے نماز میں کراہت آتی ہے، حتی کہ ان میں سے بعض نے اس عمل کو مکروہ تحریمی قرار دیا ہے اور بعض نے یہاں تک کہا ہے کہ نماز واجب الاعادہ ہوگی۔

مخالفین کے دلائل
یہ حضرات اپنے اس موقف اور مسلک کی تائید میں کئی دلائل پیش کرتے ہیں، جو درج ذیل ہیں:
پہلی دلیل: آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی وہ حدیث مبارک، جس میں کپڑے اور بالوں کو سمیٹنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے:
عن ابن عباس رضي اللہ عنہما، عن النبي صلی الله علیہ وسلم قال: أمرت أن اسجد علی سبعة، لا أکف شعراً، ولا ثوباً․

حضرت عبد اللہ بن عباس روایت کرتے ہیں کہ نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات اعضا پر سجدہ کروں، اور نہ بالوں کو سمیٹوں اور نہ کپڑوں کو۔(بخاری، کتاب الصلاة، باب لا یکف ثوبہ فی الصلاة، حدیث نمبر: 816)

تشریح: اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ کپڑوں کا سمیٹنا ممنوع ہے اور پائینچے موڑنا بھی کپڑے کا سمیٹنا ہے، لہٰذا وہ بھی ممنوع ہوگا۔

دوسری دلیل: فقہاء کی وہ عبارتیں ہیں، جن میں ”کف ثوب“ کی کراہت کا حکم بیان کیا گیا، جیسے ”در مختار“ میں ہے:
وکرہ کفہ: أي رفعہ، ولو لتراب، کمشمِّر کم أو ذیل․ (در مختار علی رد المحتار 2/406)

مکروہ ہے کپڑے کو سمیٹنا، چاہے مٹی سے بچنے کے لیے ہو، جیسے آستین چڑھانا اور دامن سمیٹنا۔

اور شامی میں اس کے تحت لکھا ہے: ”وأشار بذلک إلی أن الکراہة لا تختص بالکف، وہو في الصلاة․“

اس کے ذریعہ مصنف نے اشارہ کیا ہے کہ کپڑا سمیٹنے کی کراہت نماز کی حالت کے ساتھ خاص نہیں ہے․(رد المحتار2/406)

پہلی عبارت میں مطلقاً کپڑا سمیٹنے کو مکروہ قرار دیا گیا ہے اور شامی میں یہ صراحت کی گئی کہ کپڑا سمیٹنا، چاہے نماز کے اندر ہو، یا اس سے پہلے، دونوں حالتوں میں مکروہ ہے، لہٰذا دونوں عبارتوں سے یہ نتیجہ نکلا کہ انسان جو کپڑا پہنے ہوئے ہے، اگر اسے کہیں سے بھی موڑے، تو یہ عمل مکروہ ہوگا اور پائینچے موڑنا بھی اسی قبیل سے ہے، لہٰذا یہ بھی مکروہ ہوگا۔

تیسری دلیل: پائینچے موڑنے سے بد ہیئتی پیدا ہوتی ہے اور بری ہیئت کے ساتھ نماز پڑھنا مکروہ ہے، لہٰذا پائینچے موڑنے کا عمل بھی مکروہ ہوگا۔

مخالفین کے دلائل کا حقیقت پسندانہ جائزہ
پہلی دلیل کا جائزہ…پہلی دلیل میں نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کی جس حدیث سے پائینچے نہ موڑنے پر استدلال کیا گیا ہے ، یہ استدلال درست نہیں ہے، کیوں کہ اس حدیث میں ”کف ثوب“ (یعنی کپڑے سمیٹنے) سے مراد ”ازار“ کے علاوہ قمیص اور چادر وغیرہ ہیں اور اس کی حکمت صاحب فتح الباری شرح صحیح البخاری علامہ ابن حجر نے یہ لکھی ہے کہ:
”والحکمة في ذلک أنہ إذا رفع ثوبہ وشعرہ عن مباشرة الأرض أشبہ المتکبر․“ (فتح الباری2/377، کتاب الصلوة، باب السجود علی سبعة اعظم)

اور حکمت اس میں یہ ہے کہ جب وہ اپنے کپڑے اور بالوں کو مٹی لگنے کے ڈر سے اٹھائے گا، تو اس میں متکبرین کے ساتھ مشابہت پیدا ہوگی۔

اور پائینچے موڑنا سنت پر عمل کرنے کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ تکبر کی وجہ سے؛ لہٰذا یہ اس حدیث کے تحت داخل نہیں ،نیز ایک دوسری حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، جو نیچے پیش کی جاتی ہے۔

حدیث سے پائینچے موڑنے کی تائید
بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اس طرح نماز پڑھائی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ازار کو نیچے سے اٹھائے ہوئے تھے:
عن أبي جُحَیفة قال: ․․․․ فرأیت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم خرج في حلة مشمّراً، فصلی رکعتین إلی العنزة․․

حضرت ابو جحیفة فرماتے ہیں کہ: میں نے دیکھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ایک ایسے لباس میں تشریف لائے، جس میں ازار کو نیچے سے اٹھائے ہوئے تھے اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھائی۔ (بخاری، کتاب الصلوة، باب التشمر فی الثیاب، حدیث نمبر:5786)

ایک دوسری سند میں یہ الفاظ بھی ہیں: کأني أنظر إلی بریق ساقیہ․․․
یعنی صحابی فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی ازار نیچے سے اتنی اٹھا رکھی تھی، گو یا کہ میں آپ کی پنڈلیوں کی چمک ابھی تک دیکھ رہا ہوں۔

اس حدیث میں ایک لفظ آیا ہے ”مشمراً“ جو ”تشمیر“ سے بنا ہے اور تشمیرالثوب کے معنی لغت میں ہیں: آستین چڑھانا، پائینچے موڑنا، پاجامہ ٹخنوں سے اوپر کرنا۔(القاموس الوحید 1/886، مادہ: ش م ر)نیز علامہ ابن حجر نے اس کے معنی یہ بیان کیے ہیں: ”رفع اسفل الثوب“ یعنی کپڑے کے سب سے نچلے حصے کو اٹھانا۔ (فتح الباری2/315)جس کی ایک شکل پینٹ یا پائجامے کے پائینچے موڑنا بھی ہے۔

پائینچے موڑنا ”کف ثوب“ کی حدیث کے تحت داخل نہیں
اسی لیے علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ احادیث میں ”کف ثوب“ کی جو ممانعت آئی ہے ،وہ ”ازار“ وغیرہ کے علاوہ میں ہے:
ویوخذ منہ أن النہي عن کف الثیاب في الصلاة محلہ في غیر ذیل الإزار․․․(فتح الباری2/316)
اس حدیث سے یہ بات حاصل ہوتی ہے کہ نماز میں ”کف ثوب“ کی ممانعت ”ازار“ کے نچلے حصے کے علاوہ میں ہے۔

دونوں حدیثوں کے مطالعے سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ پہلی حدیث میں ”کف ثوب“ سے مراد”ازار“ کے علاوہ دیگر کپڑے ہیں اور ان کپڑوں میں ”کف ثوب“ کی علت متکبرین کے ساتھ مشابہت ہے اور دوسری حدیث، نیز علامہ ابن حجر کی شرح سے یہ واضح ہوگیا کہ ”ازار“ کے نچلے حصے کو اٹھانا یا موڑنا ”کف ثوب“کی ممانعت میں داخل نہیں، لہٰذا پائینچے موڑنے کی مخالفت کرنے والے ہمارے بھائیوں کو دونوں حدیثوں کو سامنے رکھ کر اپنے موقف پر نظر ثانی کرنی چاہیے!!!

دوسری دلیل کا جائزہ…حدیث کی اس بھر پور توضیح وتشریح سے یہ مسئلہ بالکل صاف ہوگیا کہ فقہ کی کتابوں میں جس ”کف ثوب“ کو مکروہات صلوٰة میں شمار کیا گیا ہے، وہاں بھی ”کف ثوب “ یعنی کپڑے سمیٹنے سے مراد”ازار“ کے علاوہ دیگر کپڑے ہیں اور پینٹ یا پائجامہ وغیرہ کا موڑنا اس میں داخل نہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ فقہ کی عام کتابوں میں ”کف ثوب“ کی مثال میں آستین اور قمیص کے دامن کا تذکرہ ملتا ہے، کہیں ازار یا پائجامے کا ذکر نہیں ملتا۔

نیز فقہ کی کتابوں میں بھی ”کف ثوب“ کی وہی علت بیان کی گئی، جو مذکورہ بالا حدیث کی تشریح میں علت میں گذری ہے، یعنی متکبرین کے ساتھ مشابہت، چناں چہ کنز الدقائق کی شرح تبیین الحقائق میں لکھا ہے: ”(وکف ثوبہ) لأنہ نوع تجبرٍ․“

اور نماز کے مکروہات میں کپڑے کا سمیٹنا ہے، کیوں کہ یہ تکبر کی ایک قسم ہے۔ (تبیین الحقائق 1/164، باب ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیہا)

تیسری دلیل کا جائزہ…ان کی تیسری دلیل یہ ہے کہ پائینچے موڑنے سے بد ہیئتی پیدا ہوتی ہے اور بری ہیئت کے ساتھ نماز پڑھنا مکروہ ہے، اس دلیل کے دو جواب ہیں۔

1... ٹخنے سے اوپر کپڑا کرنے کو بد ہیئتی قرار دینا، بعینہ جدید دور کے افراد کے ذہنوں کی ترجمانی ہے، کیوں کہ سوائے چند حضرات کے ماڈرن دور کا کوئی بھی فرد ٹخنے سے اوپر کپڑا پہننے کو، چاہے جس طرح بھی ہو، اچھی ہیئت قرار نہیں دیتا، بلکہ اس میں عار محسوس کرتا ہے اور اسے معیوب سمجھتا ہے، تو کیا ہم ان کے معیوب سمجھنے کی وجہ سے اپنے پیارے آقا صلی الله علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑ دیں گے!

2... ٹخنوں سے اوپر پائینچے رکھنے کو بد ہیئتی قرار دینا غلط اور بلا دلیل ہے، کیوں کہ قاعدہ ہے کہ جو ہیئت حضور پاک صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہو، وہ بری ہیئت نہیں ہوسکتی اور اس ہیئت کے ساتھ نماز مکروہ نہیں ہوگی اور ٹخنے کھلے رکھنے، نیز ”ازار“ اوپر اٹھانے کا عمل آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے، جیسا کہ ابھی احادیث میں گذرا، لہٰذا اسے بدہیئتی قرار دینا ،رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے عمل اور آپ کی سنت کے خلاف ہوگا، جیسا کہ کُرتے کے بٹن کھلے رہنا بھی بظاہر بد ہیئتی ہے، لیکن حضور صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے اس لیے مکروہ نہیں، اور اس سے نماز میں کراہیت نہیں آتی۔(ابوداوٴد، کتاب اللباس، باب فی حل الازرار، حدیث نمبر:4082)

نمازسے پہلے پائینچے موڑنے کے سلسلے میں علماءِ حق کے فتاویٰ
نماز سے قبل پائینچے موڑنے کے جواز کے فتاویٰ، کتابوں میں کثرت سے موجود ہیں لیکن اختصار کے پیش نظر ہم صرف دو فتووٴں پر اکتفاء کرتے ہیں، ایک دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ، دوسرا علماء عرب کا فتویٰ۔

دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ
دارالعلوم دیوبند کے فتوے میں سائل نے نماز سے قبل پائینچے موڑ کر ٹخنے کھولنے سے متعلق مسئلہ دریافت کیا ہے، بعض مخالفین نے جو اسے شبہے میں ڈالا تھا، ان کے دلائل کا مدلل جواب بھی طلب کیا ہے، فتوے میں ان تمام دلائل کے تسلی بخش جوابات دیے گئے ہیں، اور نماز سے قبل پائینچے موڑنے کے عمل کو درست قرار دیا گیا ہے فتویٰ بعینہ آپ کی خدمت میں پیش ہے:

سوال…کیا پائینچے ٹخنوں سے نیچے اگر ہورہے ہوں تو انہیں اگر موڑ کر نماز پڑھ لی جائے تو پائینچے موڑنے کا عمل مکروہ تحریمی کہلائے گا اور نماز واجب الاعادہ ہوگی؟ نیز اگر کپڑے یا ٹوپی کا کوئی حصہ مڑ جائے تو تب بھی یہی حکم ہے؟اس کے حوالے میں بریلوی حضرات مختلف فقہاء کے اقوال نقل کرتے ہیں:
1.. علامہ ابن العابدین الشامی فرماتے ہیں: أي کما لو دخل في الصلاة، وہو مشمر کمہ أو ذیلہ، وأشار بذلک إلی أن الکراہة لا تختص بالکف، وہو في الصلاة․(رد المحتار)․
2.. وکرہ کفہ أي رفعہ، ولو لتراب کمشمر کم أو ذیل․ (در مختار)․
3.. جوہرہ نیرہ میں ہے : ولا یکف ثوبہ، وہو أن یرفعہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا اراد السجود․ (الجوہرة النیرة1/63) ․
4.. قال علیہ السلام: امرت أن اسجد علی سبعة اعظم لا أکف ثوبا ولا اعقص شعراً․
5.. حضرت امام بصری سے روایت ہے: کف ثوب کرنے والے کی نماز مکروہ تحریمی ہے۔ (؟؟؟2/91)

آپ سے درخواست یہ ہے کہ ان حوالوں کا مدلل جواب دیں۔

جواب…ٹخنوں سے نیچے پائجامہ یا لنگی لٹکانا ان سخت گناہوں میں سے ایک ہے، جن پر جہنم کی وعید آئی ہے، اس لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس حکم کی خلاف ورزی کر کے ٹخنے سے نیچے پائجامہ اور پینٹ وغیرہ لٹکائے، عام حالات میں بھی یہ جائز نہیں ہے اور نماز میں تو اور زیادہ قبیح ہے، ”اسبال“ (ٹخنے سے نیچے پائجامہ یا پینٹ وغیرہ لٹکانا) مطلقاً ناجائز ہے، اگر چہ ”مسبل“ (لٹکانے والا) یہ ظاہر کرے کہ میں تکبر کی وجہ سے نہیں کررہا ہوں، ہاں! اگر غیر اختیاری طور پر ایسا ہوجائے ، یا کسی یقینی قرینے سے معلوم ہو کہ اس میں کبر نہیں تو یہ حکم نہیں لگے گا، جیسا کہ حضرت ابو بکر کے واقعہ میں ہے۔

لہٰذا تکبر اور غیر تکبر کے درمیان فرق کرنا ،ایک کو ناجائز اور دوسرے کو جائز کہنا ،یا ایک کو مکروہ تحریمی اور دوسرے کو تنزیہی شمار کرنا شراح حدیث کی تشریح کے مطابق صحیح نہیں، اس لیے کہ حدیث کے اندر ٹخنے سے نیچے ازار وغیرہ لٹکانے اور اس کے کھینچنے کو تکبر کی علامت قرار دیا گیا ہے اور جن احادیث کے اندر ”خیلاء“ کی قید مذکور ہے، یہ قید احترازی نہیں ہے، بلکہ قید اتفاقی یا واقعی ہے کہ ازار لٹکانے والا متکبر ہی ہوتا ہے، ورنہ کیا وجہ ہے کہ ٹخنوں سے اونچا پائجامہ یا پینٹ پہننے میں عار آتی ہے، یا ایسے پہننے والوں کو نظر حقارت سے کیوں دیکھتے ہیں؟ اس بابت ان سے مضحکہ بھی کرتے ہیں،․․․

․یعنی خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ اسبال مطلقاً ”جر ثوب“ یعنی کپڑا گھسیٹنے کو مستلزم ہے اور جر ثوب تکبر کو مستلزم ہے، اگر چہ پہننے والا تکبر کا ارادہ نہ کرے۔(فتح الباری 10/254)․․․․ لہٰذا اگر کوئی آدمی اس گناہ کا مرتکب ہوتا ہے، یعنی لنگی پینٹ وغیرہ ٹخنے سے نیچے لٹکا کر پہنتا ہے، لیکن یہ نماز کے وقت پائینچے کو اوپر چڑھا لیتا ہے، تاکہ نماز کے وقت کم از کم گناہ سے بچے اور اس حدیث کا مصداق نہ بنے اور اس کی نماز اللہ کے یہاں مقبول ہوجائے تو یہ عمل مستحسن ہوگا، نہ مکروہ۔

خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ بوقت نماز پائینچے کو اوپر چڑھا کر نماز پڑھنے کو مکروہ تحریمی کہنا نہ تو شرعاً صحیح ہے اور نہ عقلاً، سوال میں فقہاء کی جن عبارتوں اور ترمذی کی، جس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے ان سے ہر گز یہ بات ثابت نہیں ہوتی، ذیل میں یہ عبارات ذکر کی جاتی ہیں:
1.. کمشمر کم أو ذیل أي کما لو دخل في الصلاة وہو مشمر کمہ أو ذیلہ، وأشار بذلک إلی أن الکراہة لا تختص بالکف، وہو في الصلاة․(رد المحتار)
2.. ولا یکف ثوبہ، وہو أن یرفعہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا أراد السجود․
3..  قال علیہ السلام: امرت أن اسجد علی سبعة اعظم لا أکف ثوبا، ولا اعقص شعراً․

حدیث شریف اور فقہی عبارتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ مصلی یعنی نماز پڑھنے والے کے لیے مکروہ ہے کہ وہ آستین چڑھا کر نماز میں داخل ہو، یا دوران نماز اپنے کپڑے کو آگے پیچھے سے سمیٹے، تاکہ مٹی وغیرہ نہ لگے ،یاپہلے سے کپڑے کو اٹھائے رکھے، مٹی سے بچانے یا اظہار تکبر کے مقصد سے، چناں چہ کنز کی مشہور شرح تبیین الحقائق میں مکروہ ہونے کی علت لکھی ہے ”ولأنہ نوع تجبر“ یعنی کراہت اظہار تکبر کی وجہ سے ہے او راس کے حاشیہ میں ”کف الثوب“ کے تحت لکھا ہے ”وھو أن یضم أطرافہ اتقاء التراب“ اسی طرح ہدایہ میں بھی اس کی علت ”لأنہ نوع تجبر“ لکھی ہے۔

حاصل یہ ہے کہ” کف ثوب “کا یا تو یہ مطلب ہے کہ دوران نماز کپڑا سمیٹے، صاحب غنیة المستملی نے یہی تفسیر کی ہے، اس صورت میں کراہت کی وجہ نماز میں دوسرے کام میں مشغول ہونا ہے یا یہ مطلب ہے کہ مطلقاً ”کف ثوب“ مکروہ ہے، خواہ دوران نماز ہو یا کپڑا سمیٹ کر نماز میں کھڑا ہو، تو اس کی وجہ اظہار بڑکپن (تکبر)ہے، کہ نماز میں عبث کے اندر مشغول ہونا ہے، نیز شامی کی عبارت ”کمشمر کم․․․“ (یعنی آستین چڑھا کر نماز پڑھنا)سے پائینچے وغیرہ کو چڑھا کر نماز پڑھنے کی کراہت پر استدلال صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ آستین چڑھا کر نماز پڑھنے کا کوئی شرعی مقصد نہیں ہے، کیوں کہ اس سے بے ادبی اور تکبر ٹپکتا ہے، بر خلاف نماز کے لیے پائینچے چڑھانا، یہ ایک نیک مقصد، یعنی کم از کم دوران نماز گناہ سے بچنے کے لیے ہے اور اس میں نہ تو تکبر ہے اور نہ ہی بے ادبی ہے۔

الغرض ان عبارات سے اس پر استدلال کرنا کہ نماز پڑھنے کے وقت پائینچے کو اوپر چڑھا نامکروہ تحریمی ہے، صحیح نہیں ہے، واللہ تعالیٰ اعلم۔ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند، فتوی (د): 2/1432-21=93

علمائے عرب کا فتویٰ
عرب کا ایک باشندہ، جو نماز سے قبل پینٹ کے پائینچے موڑتا تھا، جب اس کے سامنے وہ حدیث آئی، جس میں حضور پاک صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”میں نہ کپڑے سمیٹتا ہوں اور نہ بالوں کو اٹھاتا ہوں“ تو اس نے اپنے اس عمل کا حکم اور حدیث کا مطلب دارالافتاء سے معلوم کیا۔

فتوے میں یہ بات بالکل واضح کردی گئی ہے کہ نماز سے قبل پائینچے موڑنا”کف ثوب“ کی ممانعت والی حدیث کے تحت داخل نہیں ہے، لہٰذا یہ عمل درست ہے، فتویٰ درج ذیل ہے:
السوال… في حدیث رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یقول فیہ: (أمرت أن أسجد علی سبع، وأن لا أطوي ثوبا، ولا أکف شعرا) ونحن في أثناء أوقات العمل نطوي سراویلنا، حتی نتجنب الإسبال عند الصلاة، فہل ما نقوم بہ صحیح؟

الفتوی…الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ وعلی آلہ وصحبہ․ أما بعد․ فالمعروف في روایة الحدیث المشار إلیہ في السوٴال لفظ: ولا أکف ثوباً ولا شعراً․ وورد بلفظ: ولا أکفت․ ولا نعرفہ بلفظ وأن لا أطوي․ ہذا ما لزم التنبیہ علیہ أولاً․

وأما عن حکم المسألة: فإن الإسبال منہي عنہ في الصلاة وخارج الصلاة، کما صحت بذلک الأحادیث الکثیرة، فإذا رفع المصلي ثوبہ عن حد الإسبال حال الصلاة لم یکن داخلاً في النہي عن کف الثوب في الصلاة الذي ورد فیہ الحدیث، لأنہ مأمور بہذا الکف في الصلاة وخارجہا․ وقد نص بعض أہل العلم علی أن الکراہة في کف الثوب في الصلاة إنما تحصل إن کان ہذا الکف لغیر حاجة، فإن کان لحاجة فلا کراہة․ قال صاحب روض الطالب من الشافعیة: ویکرہ للمصلي ضم شعرہ وثیابہ لغیر حاجة․ انتہی کلامہ رحمہ اللہ․ واللہ أعلم․ تاریخ الفتوی، 15/ جمادی الثانیة1423ھ (فتاوی الشبکة الإسلامیة 11/7024) الموٴلف: لجنة الفتوی بالشبکة الإسلامیة․
ترجمہ: سوال: نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات اعضا پر سجدہ کروں اور نہ کپڑوں کو موڑوں اور نہ ہی بالوں کو سمیٹوں، اب سوال یہ ہے کہ ہم کام کے اوقات میں اپنے پائجامہ وغیرہ کو نیچے سے موڑتے ہیں، تاکہ نماز کے وقت اسبال کے گناہ سے بچ سکیں تو کیا ہمارایہ عمل درست ہے؟

جواب: الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ وعلی آلہ وصحبہ․ أما بعد! سب سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ سوال میں جس حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے، یہ حدیث ”ولا أکف ثوبا و لاشعراً“ نیز ”ولا أکفت“ کے الفاظ کے ساتھ کتب حدیث میں مذکور ہے، لیکن ”وأن لا أطوي“کا لفظ غیر معروف ہے۔

رہا مسئلہ کا حکم، تو اسبال ازار نماز اور خارج نماز دونوں میں ممنوع ہے، جیسا کہ بہت ساری احادیث میں اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے، لہٰذا اگر کوئی مصلی اپنا کپڑانماز کی حالت میں اسبال کی حد سے اوپر اٹھاتا ہے تو وہ مذکورہ بالا حدیث کا مصداق نہیں ہوگا، جس میں کپڑا موڑنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے، اس لیے کہ کپڑے کا موڑنا نماز اور خارج نماز میں حکم شرعی ہے اور کئی اہل علم نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ نماز میں کپڑا موڑنے میں کراہت اس وقت ہوتی ہے جب کہ یہ عمل بلا ضرورت ہو، اگر ضرورت کی وجہ سے ہو تو اس میں کوئی کراہت نہیں ہے، روض الطالب کے شافعی مصنف لکھتے ہیں کہ بغیر ضرورت مصلی کے لیے اپنے بالوں اور کپڑوں کا سمیٹنا مکروہ ہے، فقط ۔ واللہ اعلم۔

حرف آخر
اس پوری بحث اور حضور پاک صلی الله علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ، نیز محدثین کرام کی تشریحات اور فقہاء کی عبارتوں سے یہ مسئلہ بالکل واضح ہوگیا کہ اسبال ازار شریعت کی نگاہ میں ممنوع اور حرام ہے، چاہے اسبال ازار کرنے والا یہ دعویٰ کرے کہ اس میں تکبر نہیں ہے، نیز یہ مسئلہ بھی بالکل صاف ہوگیا کہ اگر کوئی مسلمان گناہ سے بچنے کے لیے نماز سے پہلے اپنی پینٹ وغیرہ کے پائینچے موڑتا ہے، تاکہ اس کی نماز سنت کے مطابق ہو اور وہ کم از کم نماز کی حالت میں اسبال ازار کے گناہ سے بچ سکے، تو اس کا یہ عمل بالکل درست ہے، جیسا کہ احادیث سے ثابت ہوچکا ہے، لہٰذا جو حضرات نماز سے قبل پائینچے موڑنے کی مخالفت کرتے ہیں، انہیں اپنے مسلک سے اوپر اٹھ کران احادیث اور محدثین کی ان تشریحات کو بغور پڑھنا چاہیے، جن میں اس عمل کی انتہائی مذمت اور قباحت بیان کی گئی ہے اور پائینچے موڑنے اور ٹخنے کھولنے کے عمل کو درست قرار دیا ہے۔

Flag Counter