اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ جَہْدِ الْبَلَآءِ وَدَرْکِ الشَّقَآءِ
وَسُوْٓ ءِ الْقَضَآءِ وَشَمَاتَۃِ الْاَعْدَآءِ12؎
ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مشکوٰۃ میں جَہْدِ الْبَلَآءِ کی دو تفسیریں لکھی ہیں: پہلی تفسیریہ ہے کہ کوئی ایسی بیماری یا مصیبت آجائے حَتّٰی یَخْتَارَ حِیْنَئِذٍ عَلَیْہَاالْمَوْتَ وَیَتَمَنَّاہُ کہ جس سے آدمی موت کی تمنا کرنے لگے کہ یااللہ! اس سے اچھا تو مجھے موت ہی دے دے، ایسی مصیبت آجائے کہ آدمی کہے کہ مجھے موت آجاتی۔ دوسری تفسیرعلامہ طیبی رحمۃاللہ علیہ کے حوالے سے یہ نقل کی ہے بِقِلَّۃِ الْمَالِ وَکَثْرَۃِ الْعِیَالِ13؎ کہ اولاد کی کثرت ہو اور مال کم ہو۔ اللہ ایسی مصیبت سے پناہ میں رکھے۔ اسی لیے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس دعا میں، مال میں برکت کو اولاد میں برکت سے مقدم رکھا کہ کہیں آدمی کثرتِ عیال اور قلتِ مال سے گھبرا نہ جائے۔
اس دعا میں دَرْکِ الشَّقَآءِیعنی بدنصیبی کے پکڑ لینے سے بھی پناہ آئی ہے، اور بدنصیبی پکڑتی ہے گناہ کی وجہ سے،جیسے حدیثِ پاک کی ایک اور دعا ہے اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ بِتَرْکِ الْمَعَاصِیْ وَ لَا تُشْقِنِیْ بِمَعْصِیَتِکَ14؎اے اﷲ! مجھ پر رحم فرمائیے تاکہ میں گناہوں کو ترک کردوں اور گناہوں کی وجہ سے مجھے بدنصیب ہونے سے بچائیے۔ آگے ہے وَسُوْٓ ءِ الْقَضَآءِاور یااللہ! کوئی ایسا فیصلہ میرے حق میں نہ فرما جو میرے لیے مضر ہو۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ جو مشہور ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی قضا کو نہیں بدلتا لَا تَبۡدِیۡلَ لِکَلِمٰتِ اللہِ15؎ تو اس کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فیصلوں کو نہیں بدل سکتے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے فیصلے کو مخلوق نہیں بدل سکتی، یہ نہیں کہ نعوذ باللہ،اللہ میاں بھی نہیں بدل سکتے۔ پھر مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ دعا مانگی کہ اے خدا! آپ کا جو فیصلہ ہے یہ آپ کا محکوم ہے،آ پ اس پر حاکم ہیں لہٰذا اگر آپ نے میرے لیے دوزخ لکھی ہے تو جنت لکھ دیجیے،
_____________________________________________
12؎ صحیح البخاری:939/2(6381)،باب التعوذ من جہد البلاء، المکتبۃ المظہریۃ
13؎ مرقاۃ المفاتیح:366-365/5، باب الاستعاذۃ، دارالکتب العلمیۃ، بیروت
14؎ سنن الترمذی: 197/2(3570)، باب فی دعاء الحفظ
15؎ یونس:64