Deobandi Books

لذت ذکر کی وجد آفرینی

ہم نوٹ :

27 - 34
مگر اس سے دل نہ لگاؤ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بالکل دل نہیں لگے گا تو کاروبار کیسے ہوگا؟ تو دنیا سے دل تو لگاؤ مگر جتنا دنیا سے لگاؤ اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں ہو، دنیا کی محبت جائز تو ہے مگر اللہ تعالیٰ کی محبت اشد ہو۔ تو ایک علامت ہوگئی کہ دنیا سے دل نہ لگے، ہر وقت یہ یقین رہے کہ کسی بھی وقت اللہ کے یہاں جانا ہے       ؎
نہ    جانے     بلالے      پیا    کس    گھڑی 
تو   رہ   جائے   تکتی   کھڑی   کی   کھڑی
نمبر۲۔ وَ الْاِنَابَۃُ اِلٰی دَارِ الْخُلُوْدِ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف اس کے قلب کا دھیان لگا رہتا ہے ، یادِ خداوندی میں دل لگا رہتا ہے، ہاتھ سے کام کرتا ہے، زبان سے بزنس کی باتیں کرتا ہے مگر دل میں اللہ رہتا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ یہ بہت مشکل کام ہے کہ دل ہر وقت اللہ کے ساتھ رہے تو خواجہ صاحب نے حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ دل ہروقت اللہ کے ساتھ کیسے رہ سکتا ہے؟ حکیم الامت نے فرمایا کہ دیکھو! جو عورتیں پانی بھرتی ہیں تو ایک گھڑا ان کے سر پر ہوتا ہے اور ایک گھڑا بغل میں دبایا ہوتا ہے، جو گھڑا سر پر ہوتا ہے اس کو بغیر ہاتھ لگائے چلتی ہیں اور خوب ہنس رہی ہوتی ہیں، بات کرتی جارہی ہیں مگر ان کے دل میں ہر وقت اس گھڑے کا خیال رہتا ہے، اگر دل سے یہ خیال ہٹ جائے تو گھڑا گرپڑے گا۔ ایسے ہی اللہ والے دل میں ہر وقت اﷲکا دھیان رکھتے ہیں      ؎
تم   سا    کوئی   ہمدم   کوئی    دم  ساز   نہیں    ہے
باتیں  تو    ہیں    ہر   دم   مگر    آواز    نہیں    ہے
ہم   تم   ہی بس آگاہ   ہیں اس  ربطِ  خفی   سے
معلوم     کسی     اور     کو     یہ     راز       نہیں      ہے
تو دو علامتیں ہوگئیں۔ نمبر ایک، دنیا سے دل مت لگاؤ، بازار میں رہو مگر بازار سے دل مت لگاؤ۔ نمبردو، اللہ کا خیال دل میں رکھو، کم از کم اتنا خیال تو رکھو کہ ہم اس کے بندے ہیں، بس اتنا دھیان بھی کافی ہے۔ بیٹے کے لیے اتنا دھیان کافی ہے کہ میں اپنے ابّا کا بیٹا ہوں توگویا وہ ابّا کو نہیں بھولا، اسی طرح اتنا خیال ہو کہ میں اپنے ربّا کا بندہ ہوں، چند دن کے لیے دنیا میں آیا ہواہوں پھر
Flag Counter