Deobandi Books

لذت ذکر کی وجد آفرینی

ہم نوٹ :

11 - 34
اب آپ کہیں گے کہ ہم تو مذکر ہیں پھر ہماری آنکھیں مؤنث کیوں ہیں؟ تو مذ کر کے بھی جو دو دو اعضا ہیں جیسے کان، آنکھیں، ہونٹ، ہاتھ، پیر عربی زبان میں یہ سب مؤنث ہیں۔آگے ہے تَسْقِیَانِ الْقَلْبَ بِذُرُوْفِ الدُّمُوْعِ یا اﷲ!یہ آنسو ہمارے دل کو سیراب کردیں۔ معلوم ہوا کہ اللہ کی یاد میں رونے سے دل ہرا بھرا ہوتا ہے، ایمان کا باغ ہرا بھرا    ہوتا ہے، زمین کی کھیتی میں دریا کا پانی دو اور ایمان کی کھیتی میں آنکھوں کا پانی دو۔ صاحبِ قصیدہ بردہ لکھتے ہیں کہ اگر کسی نے کسی کو نظر حرام سے دیکھا تو اپنے اوپر سمندر کا سمندر ڈال لے تب بھی پاک نہیں ہوگا، مگر ندامت کا ایک آنسو بہادے تو پاک ہو جائے گا۔ یہ آنسو معمولی نعمت نہیں ہیں۔ میں تصوف کی جو باتیں بھی پیش کرتا ہوں اس پر قرآنِ پاک یا حدیث پاک کی دلیل پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم ہے کہ میرا طریقت پابندِ شریعت ہے، یہ بہت بڑی نعمت ہے، ورنہ جہاں بے دلیل باتیں ہوں وہاں علماء کا دل نہیں لگتا۔
دینی کتاب پڑھنے میں اور شیخ کی زبان سے دین کی بات سننے میں یہ فرق ہے کہ کتاب میں علم کا نور ہے لیکن جب آدمی شیخ کی زبان سے سنتا ہے، اپنے مرشد کی زبان سے، پیر کی زبان سے سنتا ہے تو شیخ کے قلب کا نور علم کے نور کے ساتھ کانوں میں آتا ہے پھر مرید نورٌ علی نور ہوجاتا ہے۔ جس نے آنکھوں سے کتاب کے علم کو درآمد کیا، استیراد کیا، امپورٹ کیا تو اس کتاب میں صرف اللہ والے کی تحریر کا نور ہوگا، مگر جو اپنے شیخ سے سنتا ہے، شیخ کے قلب میں اللہ کی جو نسبت ہے، اولیاء اللہ اور ولایت کے جو انوار ہیں وہ اس کی زبان کے الفاظ میں شامل ہو کر کانوں کے ذریعے دل میں داخل ہوتے ہیں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں  ؎
شیخ   نورانی    ز  رہ   آگاہ    کند
نور  را بالفظہا   ہمراہ   کند
اللہ والا جب اللہ کا راستہ بتاتا ہے تو وہ جو الفاظ بولتا ہے اس کے الفاظ اس کے نورِ باطن کا کیپسول بن کر کانوں کے ذریعے دل میں اُتر جاتے ہیں۔ اللہ والے اللہ کا راستہ بتاتے ہیں، اپنے الفاظ کے ساتھ اپنے دل کے نور کو شامل کرکے وہ کانوں کے ذریعے مرید کے دل میں اپنے الفاظ اور دل کا نور اتار دیتے ہیں۔
Flag Counter