Deobandi Books

نسبت مع اللہ کی عظیم الشان دولت

ہم نوٹ :

17 - 34
تجلیٔ خاص عطا فرماتے ہیں۔ بس ان کی شرط یہی ہے کہ تم اپنی جھولیوں سے گناہوں کے کنکر، پتھر اور گوبر کے ٹکڑے پھینک دو پھر اس قلب میں اللہ اپنے قرب کا موتی رکھ دے گا۔ 
ایک بزرگ نے جب تمام گناہوں سے توبہ کرلی، بدنظری، شراب کباب جتنے گناہ تھے سب سے توبہ کرلی اگرچہ گناہ کرنے کے تقاضے تو بہت ہوئے مگر انہوں نے کہا کہ  خدائے تعالیٰ کو ناراض کرنے سے مرجانا بہتر ہے۔ جو حیات اپنے خالقِ حیات کو ناراض کرے اس کو زیست کا حق حاصل نہیں ہے، جو عدم شرافت کی بندگی جیتا ہے، بے حیائی میں جیتا ہے،  اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے جیتا ہے وہ کیسا جی رہا ہے۔ اگر کوئی بیٹا ابّا کو ناراض کرکے زندگی پاتا ہے تو آپ لوگ اس کو کیا کہتے ہیں کہ نالائق بیٹا ہے۔ جو ربّا کو ناراض کرکے جیتا ہے اور حرام مزے اُڑاتا ہے اس کو آپ کیا کہیں گے؟
تو جب اس اللہ والے کو جس نے گناہوں سے توبہ کرلی تھی نسبت عطا ہوئی تب انہوں نے یہ شعر پڑھا     ؎
جمادے چند دادم  جاں خریدم
بحمد اللہ  عجب   ارزاں  خریدم
میں نے خدائے تعالیٰ کے راستے میں کیا کمال دکھایا کہ دل سے گناہوں کے کنکر پتھر اور گوبر کے ٹکڑے اُٹھاکر پھینک دیئے۔ آپ بتائیے کہ گناہ کی قیمت کنکر، پتھر اور گوبر سے زیادہ ہے؟ گناہ کوئی قیمتی چیز ہے؟ لہٰذا  انہوں  نے کہا     کہ میں نے گناہوں کے چند کنکر پھینک دیئے، اور حیات میں حیات پاگیا، زندگی میں زندگی بلکہ خالقِ زندگی پاگیا،الحمدللہ! میں نے اللہ کو بہت ہی سستا پایا۔ارے! کنکر، کوڑا، پتھر یعنی گناہ چھوڑا تو کیا کمال کیا لیکن اللہ تعالیٰ کو رحم آگیا۔
اسی لیے عرض کرتا ہوں کہ خدا اسی کے دل میں آتا ہے جو گناہوں کے تقاضوں کو شکست دے کر اپنے دل کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ ہماری تجلی ہمارے اولیاء کے دل کی ظاہری سطح تک محدود نہ رہے بلکہ ان کے باطن کے ذرّہ ذرّہ میں نفوذ کرجائے۔ خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کیا عمدہ شعر فرماتے ہیں    ؎
نہ گھبرا کوئی دل میں گھر کررہا  ہے
مبارک کسی کی دل  آزاریاں  ہیں
Flag Counter