ہے، ایک وقت میں ایک دو کلو سیب کھالے گایا درجن بھر کیلے کھالے گا لیکن جس نے درد بھرے دل سے اللہ کا نام لیا تو سارے عالَم کے سیب کا اور نعمتوں کا حاصل اس کی روح کو مل گیا کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کسی وقت بھی اللہ سے الگ نہیں ہوتیں، مخلوق کی صفات اس کی ذات سے الگ ہوسکتی ہیں، مثلاً آج کوئی حافظِ قرآن ہے، کل دماغ پر فالج گرگیا تو سورۂ فاتحہ بھی یاد نہیں رہے گی۔ میں نے کانپور میں ایسے شخص کو دیکھا جو حافظِ قرآن تھا مگر جب اس پر فالج گرا تو سورۂ اخلاص بھی یاد نہیں رہی، جس پر فالج گرجائے اس کی یادداشت باقی نہیں رہتی تو حافظ کے حفظ کی صفت اس کی ذات سے الگ ہوگئی۔ اسی طرح کالے بال ہونا صفت ہے یا نہیں؟ لیکن جب آدمی بوڑھا ہوجائے گا تو کالے بال سفید ہو جائیں گے اور اس کی یہ صفت باقی نہیں رہے گی، غیراختیاری طور پر بالوں کی سیاہ صفت اس سے چھن جائے گی، یہ اختیاری نہیں ہوگا ورنہ تو آدمی روزانہ غصہ ہورہا ہوگا کہ میرے بالوں! تمہیں کیا ہوگیا، کالی گھٹا کیوں برس گئی، کالے بادل کیوں سفید ہوگئے؟اپنے سفید بالوں پر غور کرو تو حقیقت سمجھ جاؤ گے، کالی گھٹا برس گئی، بادل سفید ہوگئے۔اورجسم کے بال تو سفید ہوجاتے ہیں لیکن نفس کے بال ہمیشہ سیاہ ہی رہتے ہیں۔ میرا شعر ہے ؎
دھوکا نہ کھانا کسی کی ریشِ سفید سے
ہے نفس نہاں ریشِ مُسَوَّد لیے ہوئے
نفس اندر کالی داڑھی لیے بیٹھا ہے۔ حکیم الامت مجدد الملت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اپنی بچیوں کو بڑے بوڑھے پیروں اور بڑے بوڑھے مولویوں کے حوالے بھی مت کرو، ان سے بھی شرعی پردہ کراؤ، ان سےیہ مت کہوکہ آپ تو دادا اور نانا ہیں، آئیے ہماری جوان بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیریئے۔ ڈھاکہ میں میرے ایک مرید کی جوان بیٹی تھی، اس نے کہا کہ آپ تو ہماری بیٹی کے دادا ہیں، ذرا اس کے سر پر ہاتھ پھیردیں۔ میں نے کہا کہ میں ایسا ہرگز نہیں کرسکتا کیوں کہ شریعت کا قانون ہر ایک کے لیے ہے۔ ہمارے بزرگوں نے اس سے منع کیا ہے۔
تو مخلوق کی جتنی صفات ہیں وہ ان سے الگ ہوسکتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت