روح رگ رگ سے نکالی جائے گی
تجھ پہ اک دن خاک ڈالی جائے گی
ایک دن مرنا ہے آخر موت ہے
کرلے جو کرنا ہے آخر موت ہے
پھر سوچے کہ روح نکل گئی، قینچی سے کپڑے کاٹ کر اتارے جارہے ہیں، پھر تختے پر ڈال کر مجھ کو نہلایا جارہا ہے، کفنایا جارہا ہے، قبرمیں اتارا گیا، پھر تختے لگائے گئے اور مٹی ڈال کر سب آگئے۔ اب اﷲ تعالیٰ پوچھ رہے ہیں کہ زندگی میں کیا کیا مزے اُڑا ئے؟ کیا کیا کام کر کے لائے ہو؟ کیا بتاؤ گے کہ میں نے فلاں جگہ سینما بنایا تھا!
آج پتا چل جائے گا کہ قیامت تک جتنے لوگوں نے بھی سینما دیکھا ہے سب کا سارا گناہ تیری گردن پر ہے اور تیری دوکان پر ٹی وی بھی تھا، جتنے لوگ جب تک ٹی وی دیکھتے رہے ان سب کاگناہ بھی تیری گردن پر ہے ، لہٰذا جب تک وہ گناہ جاری رہے گا اس کا وبال تیری گردن پر ہوگا ذرا عقل کو درست کر لو، قبر میں جنازہ اترنا ہے ؎
مٹنے والی شادمانی ہیچ ہے
چند روزہ زندگانی ہیچ ہے
پس اگر نماز میں دل نہیں لگتا تو دل لگنا ضروری نہیں، دل لگانا ضروری ہے، بہ تکلف دل لگائیں۔ جو شخص نماز تو بے دلی سے پڑھے لیکن لمبے لمبے وعظ کہتا ہے، وعظ میں مزہ آتا ہے اور نماز میں دل نہیں لگاتا یہ علامت ہے دل کے برباد ہونے کی اور یہ دلیل ہے کہ اس کے دل میں اخلاص نہیں ہے، مخلوق کی تعریف سے مزہ آرہا ہے، اس لیے اس میں دل لگ رہا ہے۔ لمبے وعظ اﷲ والوں نے بھی کہے ہیں۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے تین تین گھنٹے وعظ کیا ہے۔ اﷲ والے وعظ کہہ کر اکڑتے نہیں، بلکہ ڈرتے ہیں کہ معلوم نہیں قبول بھی ہے یا نہیں۔ اﷲ والوں کا وعظ خالص اﷲ کے لیے ہوتا ہے اور دنیا دار واعظین وعظ کہہ کر اُجرت لیتے ہیں۔