تعمیر کعبہ اور تعمیر قلب کا ربط |
ہم نوٹ : |
|
ہم ایسے رہے یا کہ ویسے رہے وہاں دیکھنا ہے کہ کیسے رہے یہ سوچو کہ ہم یہاں پر شیخ ہیں، بہت بڑے عالم، بہت بڑے بزرگ ہیں، حافظ ہوگئے، قاری ہوگئے، کوئی ڈاکٹر ہوگیا، کوئی انجینئر ہوگیا، کوئی کمشنر ہوگیا، کوئی مال دار ہوگیا لیکن اس کو سوچو کہ قیامت کے دن ہمارے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ آیتِ شریفہ میں اسمِ اعظم سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ نازل ہونے کا راز اﷲ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں لیکن اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے ان دو ناموں یعنی سَمِیْعٌ اور عَلِیْمٌ ہی کو کیوں اختیار کیا؟ اس کا جواب مفسرین یہ دیتے ہیں کہ دعا میں دو ہی چیزوں کا تعلق ہوتا ہے، انسان جس سے قبولیتِ دعا کی درخواست کررہا ہے وہ درخواست سننے والا ہے یا نہیں ہے اور جو دعا کی درخواست کررہا ہے آیا وہ اس قابل بھی ہے کہ یا نہیں کہ اس کی دعا قبول ہو یعنی اس میں اخلاص بھی ہے یا نہیں، نیت ٹھیک ہے یا نہیں لہٰذا اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ کی تفسیر میں مفسرین نے جو جملہ بڑھایا وہ میں عربی میں بتائے دیتا ہوں اور اس کا اردو ترجمہ بھی کردیتا ہوں۔ اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ یعنی سَمِیْعٌ بِدَعْوَاتِنَا آپ میری دعاؤں کو سننے والے ہیں وَعَلِیْمٌ بِنِیَّاتِنَا 8؎اور ہماری نیتوں کا بھی آپ علم رکھتے ہیں، ہمارے اخلاص اور ہماری نیت سے آپ باخبر ہیں۔ یہ تفسیر علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ نے تفسیر روح المعانی میں کی ہے کہ آپ ہماری دعائیں سن رہے ہیں اور جس اخلاص سے کررہے ہیں ہماری اُس نیت سے بھی آپ باخبر ہیں کہ ہم نے دنیا کو دکھانے کے لیے دعا نہیں کی، ہم نے تو آپ کو راضی کرنے کے لیے دعا کی، اور جس سے اﷲ راضی ہوجائے پھر اگر وہ دنیا کی رضا مندی تلاش کرے تو اس کی بے وقوفی ہے۔ایک شخص سے ساری دنیا راضی ہے لیکن اﷲ ناراض ہے بتاؤ یہ نفع میں ہے یا گھاٹے میں ہے؟ جو شخص ایک سانس بھی اﷲ تعالیٰ کی ناراضگی میں جی رہا ہے اس _____________________________________________ 8؎روح المعانی:385/1،البقرۃ(127)،داراحیاءالتراث، بیروت