تعمیر کعبہ اور تعمیر قلب کا ربط |
ہم نوٹ : |
|
بتیس دانت ٹوٹ گئے تو نئے دانت ڈلوائے گئے، اس کا نام بتیسی ہے، تو آدمی کا حال یہی ہے کہ ہر وقت اس کی شان بڑھیا سے گھٹیا ہو رہی ہے اور اﷲ تعالیٰ کی ہروقت غیر محدود نئی شانیں ظاہر ہوتی رہتی ہیں، شئونِ مختلفہ متواترہ کا ہروقت ظہور ہے۔ قلوبِ عارفین پر اﷲ تعالیٰ کی نئی نئی شانوں کا ظہور لہٰذا اﷲ تعالیٰ سے جنہوں نے دل لگا رکھا ہے، جو لوگ اﷲ تعالیٰ ہی سے محبت رکھتے ہیں اور اپنے قلب کو غیر اﷲ سے پاک رکھتے ہیں تو ان کے دل پر بھی اﷲ تعالیٰ کی نئی نئی شانیں ظاہر ہوتی ہیں جس سے وہ ہر وقت مست و شاداں و غزل خواں و فرحاں رہتے ہیں، خوش وخرم رہتے ہیں اور اس کا اثر ان کے جسم پر بھی پڑتا ہے، ان کی آنکھوں پر بھی پڑتا ہے اور ان کے چہرے پر بھی پڑتا ہے۔ سِیْمَا کی تفسیر اﷲ تعالیٰ صحابہ کی شان میں فرماتے ہیں: سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ 4؎ان کی عبادتوں کے جو انوار ہیں وہ ان کے چہروں سے چھلک رہے ہیں، ان کی روشنی ان کے چہروں سے ظاہر ہوتی ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ سِیْمَا ایک نور ہے اَلَّذِیْ یَظْھَرُ عَلٰی اَبْدَانِ الْعَابِدِیْنَ جو عبادت کرنے والوں کے جسم پر ظاہر ہوتا ہے یَبْدُوْ مِنْ بَاطِنِھِمْ اِلٰی ظَاھِرِھِمْ 5 ؎ان کے باطن سے ان کے ظاہر پر اس کا عکس آجاتا ہے جس کو ہمارے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ جب دل کا پیالہ نور سے بھر جاتا ہے تو وہ بھر کر چھلک جاتا ہے اور پھر چہرے سے جھلکنے لگتا ہے اور آنکھوں سے چھلکنے لگتا ہے۔ بھئی! جب دل کا پیالہ نور سے بھر گیا تو وہ نور کہاں جائے گا؟ پھر وہ چہروں سے جھلکتا _____________________________________________ 4؎الفتح:29 5؎روح المعانی:125/26،الفتح(29)،داراحیاءالتراث،بیروت