تعمیر کعبہ اور تعمیر قلب کا ربط |
ہم نوٹ : |
|
چیزوں سے کیا ہے ایک عقائدِ باطلہ سے دوسرا اشتغال بغیر اﷲ سے یعنی غیر اﷲ سے دل لگانے سے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیا ہمیشہ دل کی نگرانی رکھتے ہیں، اپنے دل کی نگرانی بھی رکھتے ہیں اور دوسروں سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ بھئی دیکھو دل کو سنبھال کر رکھنا۔ جگر نے کہا تھا ؎ دل گیا رونقِ حیات گئی دل نکلا تو سمجھ لو زندگی کی رونق چلی گئی۔ جب بے دل ہو جاؤ گے تو سکون چھن جائے گا کیوں کہ سکینہ تو اُترتا ہی دل پر ہے۔ اﷲ تعالیٰ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتے ہیں: ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ فِیۡ قُلُوۡبِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ 19؎اﷲ وہ ہے جو ایمان والوں کے قلوب پر سکینہ اُتارتا ہے، لہٰذا جب دل نکل گیا، جب دل سینے سے چلا گیا، دل کا ایئرپورٹ غائب ہوگیا تو اب سکینہ کا جہاز کہاں اُترے گا؟ بزرگ شاعر ڈاکٹر عبدالحی صاحب عارفی رحمۃ اﷲ علیہ کا شعر ہے ؎ پہلو میں اپنے آج دلِ ناتواں نہیں کیا جانیے غریب کہاں ہے کہاں نہیں جب دل ہی چلا گیا، ایئرپورٹ ہی غائب ہوگیا تو اب سکینہ کا جہاز کہاں اُترے گا؟ شیطان یہی تو کوشش کرتا ہے کہ بدنگاہی میں مبتلا کرکے ان کے سینوں سے ایئرپورٹ غائب کردے تاکہ سکینہ کا جہاز اترے تو ایئرپورٹ نہ پا کے واپس ہوجائے، جب آنکھوں سے چوری کروا چکے اب سکینہ کہاں اُترے گا لہٰذا سکینہ واپس چلا جائے گا اور یہ بے چین رہے گا، بے سکون رہے گا، مخبوط الحواس رہے گا اور اس کے چہرے سے بھی مخبوطیت ٹپکے گی۔ بدنظری کے منحوس اثرات کی مثال اگر کوئی بدنگاہی کر کے آجائے تو جو شخص ذرا سی بھی بصیرت رکھتا ہے وہ دیکھ کے بتا دے گاکہ آج اس نے کہیں نظر خراب کی ہے، چہرہ بتا دیتا ہے کیوں کہ بدنظری کرنے والے پر اﷲ کی لعنت ظاہر ہوجاتی ہے۔ حدیث میں بدنظری کرنے والے پر لعنت کی بددُعا آئی ہے اور _____________________________________________ 19؎الفتح:4