تعمیر کعبہ اور تعمیر قلب کا ربط |
ہم نوٹ : |
|
ضرورت ہے، اﷲ والوں کی کیا ضرورت ہے، اگر تکبر کا مرض سرسوں کے دانے کے برابر بھی رہ گیا تو کیا ہوگا؟ اس لیے دوستو! اس کے علاج کے لیے بزرگوں نے فرمایا ہے کہ یہ سوچو کہ قیامت کے دن کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا ہے، فیصلے سے پہلے ہی اپنے کو بڑا سمجھنا احمقانہ روش ہے، جب تک اﷲ تعالیٰ کا فیصلہ معلوم نہ ہو کسی شخص کو حتیٰ کہ کسی کافر کو بھی اپنے سے بہتر سمجھنا جائز نہیں، سوّر اور کتےّ سے بھی بہتر سمجھنا جائز نہیں ہے کیوں کہ اگر خاتمہ ایمان پر نہ ہوا تو کتےّ اور سوّر ہم سے افضل ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ ان کے لیے جہنم دوزخ وغیرہ کچھ نہیں ہے اور ہمارے لیے تو دوزخ کا معاملہ ہے، تو جب تک ایمان پر خاتمہ نہ ہوجائے کسی مسلمان کو کم تر سمجھنا کیسے جائز ہوگا؟ اپنے کو نہ مسلمانوں سے، نہ کافروں سے، نہ جانوروں سے کسی سے بہتر سمجھنا جائز نہیں ہے اور عقل کے بھی خلاف ہے، نقل سے تو ہے ہی عقل کے بھی خلاف ہے کیوں کہ معلوم نہیں خاتمہ کیسا لکھا ہواہے اور جس کافر کو ہم حقیر سمجھ رہے ہیں اس کا خاتمہ ایمان پر ہوگیا تو کیا ہوگا؟ کافر کے کفر سے تو نفرت واجب ہے لیکن اس کو حقیر سمجھنا جائز نہیں ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ صاحب نفرت بھی واجب ہے اور حقیر بھی نہ سمجھیں یہ دونوں کیسے جمع ہوں گے تو اس کا طریقہ حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ بتاتے ہیں کہ گناہ گار کے گناہ سے تو نفرت ہو مگر گناہ گار سے نفرت نہ ہو اور اس کی مثال دیتے ہیں کہ ایک شہزادہ بہت حسین وجمیل ہے، چاند کی طرح چہرہ ہے لیکن اگر وہ اپنے چہرے پر سیاہی لگا کر آجائے تو آپ اس سیاہی سے نفرت کیجیے شہزادے سے نفرت نہ کیجیے۔ تو دونوں باتیں جمع ہوگئیں یا نہیں؟ کیونکہ جب وہ سیاہی دھو دے گا تو چہرہ پھر چاند سا ہو جائے گا، یہ سیاہی عارضی چیز ہے۔ اسی طرح گناہگار کی ایک توبہ سو برس کے کفر کو معاف کراسکتی ہے، سو برس کا کافر دم میں ولی اﷲ بن سکتا ہے لہٰذا کفر سے، گناہ سے تو نفرت واجب ہے، معاصی سے تو نفرت واجب ہے لیکن عاصی سے نفرت حرام ہے، گناہ سے تو نفرت واجب ہے لیکن گناہ گار کو حقیر سمجھنا یا اس سے نفرت کرنا حرام ہے۔ اس کے لیے نکیر تو کرے اور نکیر کا کیا مطلب ہے؟ سمجھانا بجھانا، تو اسے سمجھائے تو مگر اس کی تحقیر حرام ہے۔ اور مولانا سید سلیمان ندوی رحمۃاﷲ علیہ نے تکبر کی دوا ایک شعر میں پیش کر دی۔ اگر یہ شعر بھی یاد رہے تو ان شاء اﷲ تعالیٰ تکبر کا یہ ایٹم بم آپ کے دل میں داخل ہی نہیں ہوسکتا ہے۔ وہ شعر ہے ؎