دستکِ آہ و فغاں
قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ مُّسْلِمٍ یَّدْعُوْ بِدَعْوَۃٍلَّیْسَ فِیْہَا اِثْمٌ وَّلَا قَطِیْعَۃُ رَحِمٍ اِلَّا اَعْطَاہُ اللہُ بِہَا اِحْدٰی ثَلٰثٍ: اِمَّا اَنْ تُعَجَّلَ لَہٗ دَعْوَتُہٗ وَ اِمَّا اَنْ یَّدَّخِرَھَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ وَاِمَّا اَنْ یَّصْرِفَ عَنْہُ مِنَ السُّوْءِ مِثْلَہَا قَالُوْا: اِذًا نُکْثِرُ ،قَالَ: اَللہُ اَکْثَرُ1؎
قبولیتِ دعا کی صورتیں
بعض لوگ شروع میں تو خوب خشوع و خضوع سے دعا کرتے ہیں، لیکن کچھ دن کے بعد ان کے دل میں دعا کی قبولیت کے سلسلے میں وسوسے آنے لگتے ہیں کہ معلوم نہیں ہماری دعا قبول ہوئی یا نہیں؟ اس لیے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ دعا کی قبولیت کی بہت سی صورتیں ہیں،اگر ان کا علم نہیں ہوگا تو شیطان کے داؤ پیچ تم پر کارگر ہوجائیں گے اور شیطان تمہیں مایوس کردے گا۔ پہلی صورت تو یہ ہے کہ بندہ جو دعا مانگے اﷲ تعالیٰ اس کو وہی دے دیں یعنی جو چیز اس نے مانگی وہی چیز اﷲ تعالیٰ نے اس کو دے دی، ایک صورت تو یہ ہے،لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جو چیز ہم مانگتے ہیں وہ ہمارے لیے مفید نہیں ہوتی، تو اﷲ تعالیٰ اس کو ہمارے لیے آخرت میں ذخیرہ بنا دیتے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ہماری جو دعائیں دنیا میں قبول نہیں ہوئیں قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ ان پر اتنا زیادہ اجر عطا کریں گے، ان کا اتنا زیادہ بدلہ دیں گے کہ مومن یہ کہے گا کہ کاش! دنیا میں میری کوئی دعا قبول ہی نہ ہوتی، لہٰذا دوسری صورت دعا کی قبولیت کی یہ ہے کہ اس کا اجر آخرت میں ملے گا ۔
_____________________________________________
1؎ مسند احمد :213/17(11133)،مؤسسۃ الرسالۃ