نے تو ناامید نہیں کیا۔ روزانہ تین دفعہ دو رکعات صلوٰۃ الحاجت پڑھو اور اﷲ سے گڑگڑا کر مانگو۔ اُس نے خوب مانگا، سجدہ گاہ کو آنسوؤں سے تر کردیا۔ دو تین مہینے کے بعد ہنستا ہوا آیا کہ بیماری بلا کسی دوا کے دور ہوگئی۔ دوا کرنا فرض نہیں ہے، لہٰذا اگر ڈاکٹر مایوس کردیں کہ ہمارے پاس اس بیماری کا علاج نہیں ہے تو اﷲ سے روؤ؎
مرضِ لا دوا کا وہی ہے حکیم
روحانی ناسور کا علاج
اسی طرح روحانی بیماری ہے۔ دس بیس سال سے بزرگوں کے پاس آنا جانا ہے، مگر پھر بھی بعضوں کو گناہ کی ایسی عادت ہے کہ بار بار اُن کی توبہ ٹوٹ جاتی ہے۔شیطان کہتا ہے کہ میاں بیس سال ہوگئے خانقاہوں میں آتے جاتے، اﷲ والوں سے ملتے جلتے، توبہ کرتے ہوئے لیکن پھر بھی تمہارا حال خراب ہے،تو ایسے روحانی ناسور کا علاج بھی وہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے روؤ، بزرگوں کے مشورے پر عمل کرتے رہو، دو رکعات صلوٰۃ الحاجت پڑھ کر اﷲ تعالیٰ سے مانگتے رہو، ان شاء اﷲ تعالیٰ ایک دن ان کا کرم آئے گا،اور جب ان کا کرم آئے گا تو پھر آپ کا حال کیا ہوگا؟اس کو میں نے ایک شعر میں بیان کیا ہے، یہ اس ہفتے کا تازہ شعر ہے، جیسے گرما گرم تازہ جلیبی مزیدار ہوتی ہے ایسے ہی تازہ شعر بھی گرم جلیبی کی طرح لذیذ ہوتا ہے۔اس شعر میں اﷲ تعالیٰ سے دل کے اندھیروں کے دور ہونے کی درخواست کی گئی ہے؎
ظلمتِ قلب میں وہ نور فروزاں کردے
میرے افکارِ بیاباں کو گلستاں کردے
یعنی یا اﷲ! دل کے اندھیروں میں اپنی محبت، اپنے یقین اور خوف کا کوئی چراغ جلادے، گناہوں کے افکار، گناہوں کے تخیلات، اﷲ کے غضب اور نافرمانی کے ارادے یہ سب بیاباں ہیں، جنگل ہیں، کانٹے ہیں،یہ پیشاب پاخانے سے بدتر ہیں، ہمارے چین اور سکون کو چھیننے والے ہیں اور اﷲ کی محبت کے کارناموں کا کیا کہنا؎
گلستان است گلستان است گلستاں