غیراللہ سے فرار کی لذت
یہ فَفِرُّوۡۤا اِلَی اللہِ کی تفسیر ہے اَیْ فَفِرُّوْا عَمَّا سِوَی اللہِ اِلَی اللہِ4 ؎ بھاگو غیراللہ سے اللہ کی طرف۔ غیراللہ سے فرار میں بھی ایک لذت ہے۔ اُس بچے سے پوچھو جو دُشمنوں سے خود کو چھڑا کر اپنے ابا کی طرف بھاگتا ہے تو اس بھاگنے میں اُس کو کیا لذت ملتی ہے، جتنا دُشمنوں سے دور اور ابا سے قریب ہوتا جاتا ہے اُس کی لذت بڑھتی جاتی ہے۔ ایسے ہی جو بندے گناہ کو دیکھتے ہی اور دور سے حسینوں پر نظر پڑتے ہی اللہ کی طرف بھاگتے ہیں اُن کو کیا لذت ملتی ہے، کیا تجلی اُس فرار پر نازل ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو وہ تجلی عطا فرمائے۔ جیسا کہ آٹھ سو برس پہلے جلال الدین رومی نے فرمایا جب ایک تجلی حالتِ ذکر میں اُن کے قلب پر نازل ہوئی اور اُن کو اتنا مزہ آیا کہ سارا عالَم اُن کی نگاہوں سے گرگیا تو حالتِ وجد میں یہ شعر فرمایا ؎
نہ من مانم نہ دل ماند نہ عالَم
اگر فردا بدیں خوبی در آئی
اے اللہ! نہ میں رہوں گا، نہ میر ادل رہے گا، نہ یہ عالَم رہے گا اگر کل بھی آپ اسی خوبی سے تشریف لائے یعنی اگر دوبارہ ایسی قوی تجلی آپ نے نازل فرمائی۔
یہ لینے کی چیزیں ہیں بھائی! یہ شیطان ہمیں کہا ں لے جارہا ہے؟ کہاں جانے کا حکم ہے اور کہاں جارہے ہو؟ لُوٹ لو اس عالم میں غضِ بصر کی دولت کو لوٹ لو۔ جنت میں حلاوتِ ایمانی کی یہ دولت نہیں ملے گی کیوں کہ وہاں غضِ بصر کا کوئی حکم نہیں ہے۔ جنت میں شریعت نہیں ہے کیوں کہ جنت دارالجزا ہے دارالعمل ختم، لہٰذا اس دنیا میں ہی نگاہوں کی حفاظت کرکے نامحرموں سے نظر بچاکر حلاوتِ ایمانی کی مٹھاس لوٹ لو۔
نامحرموں سے شرعی پردہ کی تاکید
اب رہ گیا یہ سوال کہ کیا اپنے بھائیوں کی بیویوں کے ساتھ ایک دسترخوان پر بیٹھ کر ڈش بھی نہ کھائیں۔ جیسا کہ آج کل بعض گھر والے اُس بے چارے پر طعن کرتے ہیں کہ جو
_____________________________________________
4؎ روح المعانی:27/25، ذکرہ فی اشارات سورۃ الذّٰریٰت،داراحیاء التراث ،بیروت