آپ نے دونوں علامات قرآنِ پاک کی وحی کے تھرما میٹر سے ملائیں اور سب سے پہلا سوال کیا کہ اے صحابہ! یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم یہاں اللہ تعالیٰ کو یاد کررہے ہیں۔یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَالۡعَشِیِّ کے تھرمامیٹر نے بتادیا کہ پہلی علامت موجود ہے۔ پھر دوسری علامت اللہ تعالیٰ نے بتائی تھی یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ کہ اُن کے قلب میں صرف میں مراد ہوں، میرے سوا دنیا کی کوئی چیز اُن کی مراد نہیں ہے، اُن کا ارادہ اور منزلِ مراد میری ذات ہے۔ یہ سارے کے سارے مرید ہیں، مگر ارادہ کس چیز کا کیے ہوئے ہیں؟ میری ذات کا، میری تلاش میں ہیں، میری منزل کی تلاش میں ہیں، اُن کی منزلِ مراد صرف میں ہوں، آپ جاکر اُن کومنزل کی رسائی نصیب کیجیے۔ نصیب میری طرف سے ہے رسائی آپ کی طرف سے ہے کیوں کہ آپ پیغمبر ہیں، آپ کو راہ بر بناکر بھیج رہا ہوں۔ جب دونوں علامتیں مل گئیں تو مضمونِ سلوک طے ہوگیا کہ جس کو اللہ کو ڈھونڈنا ہے، اللہ کو پانا ہے اور اللہ تعالیٰ کے دو عنوان کا معنون ہونا ہے کہ ہم کس کو ملتے ہیں اور ہم کو کون پاتا ہے؟
وصول الی اللہ کے لیے ضروری اعمال
۱) محبت اور صحبتِ شیخ
اس کے لیے تین عمل ضروری ہیں: ۱) مرشد کی محبت و صحبت۔ مگر کون مرشد؟ جو اپنے گھر سے بے گھر ہوکر اپنے مریدوں کو وقت دینے پر صبر کرتا ہو۔
وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ الخ
اُن لوگوں کے ساتھ صبر کرکے بیٹھیے۔ یہ اَلَّذِیْنَ کیسا ہے؟ یہ صحابہ کا وہ اَلَّذِیْنَ ہے جوصحبتِ پیغمبر اور سیّد الانبیاء کی معیت سے مشرف ہورہا ہے۔ یہ اَلَّذِیْنَ کے وہ افراد ہیں، اسم موصول کے ابہام کی وہ توجیہات ہیں کہ حضور سید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی معیت سے، پیغمبر کی روحانی نسبت کی قوی سے قوی تجلی رکھنے والی خدا دیدہ آنکھوں کے ساتھ اُن کی معیت اور ان کا رابطہ ہورہا ہے۔ مچھلیوں سے محروم تالاب کی سرحدیں جب اُس تالاب سے ملیں گی جو مچھلیوں سے مشرف ہے تو جس ڈیزائن اور جس مقدار اور جس کیفیات اور جس