عطائے نسبت مع اللہ کی علامت
تو مولانا رومی فرماتے ہیں کہ جب ہرن کے نافہ میں مشک پیدا ہوجاتا ہے تو اس کی علامت اور پہچان یہ ہوتی ہے کہ پھر وہ غفلت کی نیند نہیں سوتا، کھڑے کھڑے اونگھ لیتا ہے، اُس کو خوف رہتا ہے کہ میرے مشک کی دولت کو شکاری آکر میرے نافہ سے نکال نہ لے اور مجھے ہلاک نہ کردے۔ اسی طرح جس کے قلب میں نسبت مع اللہ کا مشک پیدا ہوجاتا ہے واللہ! پھر وہ اللہ سے غافل نہیں ہوتا، اللہ کے ساتھ بے وفائی نہیں کرتا، وہ حیا فروش نہیں ہوتا، ایمان فروش نہیں ہوتا، وہ ہر وقت مشک فروش، گل فروش، دردِ نسبت فروش ہوتا ہے، دردِ نسبت کی خوشبو تقسیم کرتا ہے، محبت کی خوشبو پھیلاتا ہے، اُس کی زبان سے اللہ کی محبت کے دریا بہتے ہیں۔ جیسے ہرن مشک کی دولت کی وجہ سے ہر وقت چوکنا رہتا ہے، ایسے ہی اللہ والے بھی ہر وقت ہوشیار رہتے ہیں۔ اگر دور سے کسی حسین کو دیکھتے ہیں تو دور ہی سے کانپنے لگتے ہیں کہ اللہ کی محبت کے مشک کی میری یہ دولت کہیں ضایع نہ ہوجائے اور اُس حسین کی رہ گزر سے ہٹ کر دوسری رہ گزر سے گزر جاتے ہیں کیوں کہ مشکِ محبتِ الٰہیہ کی دولت انہیں حفاظت کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس میں اُن کو مجاہدہ بھی نہیں ہوتا۔ اللہ کی محبت کے مشک کی دولت ان کو حفاظت پر مجبور کردیتی ہے کہ کہیں میری یہ دولت چھن نہ جائے کیوں کہ یہی دولت تو بتاتی ہے کہ وہ صاحبِ دولت ہیں، صاحبِ نسبت ہیں، صاحبِ مشک محبت ہیں۔ وہ قلبِ ویران سینہ میں نہیں رکھتے، اُن کی آنکھیں اُن کی نسبت مع اللہ کی غماز ہوتی ہیں۔ اُن کی گفتار، اُن کی رفتار کہہ دیتی ہے کہ اُن کے قلب میں کیا دولت ہے؎
کہے دیتی ہے شوخی نقشِ پا کی
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
کیوں کہ آنکھیں، چہرہ اور زبان قلب کے ترجمان ہیں۔ اگر قلب میں نسبت مع اللہ ہے تو آنکھیں جھک جائیں گی، حسینوں کو نہیں دیکھیں گی، استحضارِ عظمتِ الٰہیہ سے وہ اپنی دولتِ عشقِ الٰہی کی حفاظت پر مجبور ہیں جس طرح ہرن اپنے مشک کی حفاظت پر مجبور ہے، اور وہ جانتے ہیں کہ ان حسینوں کے جسم کا فرسٹ فلور پُرفریب ہے اور ان کے گراؤنڈ فلور میں گندگی کی