ہم ناقلِ صحابہ ہیں۔ صحابہ کی طرح ہم دوبارہ لوٹ کر مستقلاً نہیں جائیں گے، آنا جانا رکھیں گے کیوں کہ پاسپورٹ ویزا ختم ہوجائے گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ جب چاہا ریل پر بیٹھے، کراچی کی ریل سیدھی دہلی پہنچی۔ اللہ کے لیے کیا ہے، میری آہ کو اللہ تعالیٰ رائیگاں نہیں فرمائیں گے، اللہ کے لیے کچھ مشکل نہیں۔
تو صحابہ کی یہ تقریر مجھ کو اتنی پسند ہے کہ جس کو آج میں نقل کررہا ہوں اور اس کو بار بار نقل کرنے میں مزہ آتا ہے کہ اے خدا کے رسول (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)! ہم ہر چیز پرسخی ہیں،اولاد، بیوی، بچے، مال و دولت سب کچھ آپ پر قربان کرسکتے ہیں لیکن آپ کی ذاتِ پاک ہمیں اتنی محبوب ہے کہ آپ کی ذات پر ہم نہایت کنجوس ہیں۔ اس معاملے میں ہم جیسا دنیا میں کوئی کنجوس نہیں ملے گا، ہم سے یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم آپ پر سخاوت کردیں اور آپ کو مکہ والوں کو دے دیں۔ یہاں کنجوس کا لفظ اتنا پیارا استعمال ہوا ہے کہ جو اردو کے ادیب ہیں اُن سے پوچھ لو۔ کنجوس اُس کو کہتے ہیں جو اپنی چیز نہ دے۔ آپ ہماری بڑی چیز ہیں، ہم آپ کو کیسے اُن کو دے دیں؟
لہٰذا ہم کس کو ملتے ہیں اور ہم کو کون پاتا ہے؟ ان تین آیتوں میں پوشیدہ اس اعلان کی تفسیر ہوگئی لہٰذا یہ تین وصف اپنے اندر لانے کی کوشش کرو:
اللہ تعالیٰ کو پانے والوں کے تین اوصاف
۱) صحبتِ اہل اللہ: اپنے مرشدین کے ساتھ دن گزارو،معیت اَلَّذِیْنَ میں داخل ہوجاؤ۔
۲) اہتمام ذکر اللہ : ذکر اللہ جو شیخ بتادے اُس میں کبھی ناغہ نہ کرو، تھوڑی دیر سہی، دس منٹ ہی سہی۔ صبح و شام فرشتوں کی ڈیوٹی بدلتی ہے تاکہ فرشتے جاکر کہہ سکیں کہ ہم آپ کے اَلَّذِیْنَ كے افراد کو چھوڑ کر آئے ہیں جو یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ ہیں آپ کی یاد میں لگے ہوئے ہیں، یہ وہ اَلَّذِیْنَ ہیں جو یَدْعُوْنَ ہیں۔
۳) اجتنابِ از غیراللہ: اور اس کے بعد یہ نعمت حاصل کرو کہ اپنے قلب کے دائرے میں غیراللہ کو مراد نہ ہونے دو کیوں کہ یُرِیْدُوْنَ مضارع ہے، مضارع میں حال اور استقبال دونوں زمانہ ہوتا ہے یعنی یہ میرے عاشقوں کی بہت اہم علامت ہے کہ میں اُن کے قلب میں