Deobandi Books

ہم کس کو ملتے ہیں اور ہم کو کون پاتا ہے ؟

ہم نوٹ :

7 - 34
اسی لیے میرے مرشد حضرت شاہ عبدالغنی پھولپوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ جب آسمان کی طرف دیکھتے تھے تو اللہ کو یاد کرتے تھے اور ایک جملہ فرماتے تھے کہ اے آرامِ جانِ بے قراراں! اے بے قرار جانوں کے آرام! میرے شیخ نے یہ اللہ کا نام رکھا تھا کہ اے اللہ! جن کی جانیں آپ کے لیے بے قرار ہیں اُن جانوں کے لیے آپ ہی آرام ہیں۔ مگر کیا عمدہ فارسی ہے اے آرامِ جانِ بے قراراں! کیا عمدہ جملہ ہے یہ!
اللہ کے عاشقوں کی عظمت
اِذَا نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْاٰیَۃُ فَخَرَجَ مِنْ بَیْتِہٖ2؎ جیسے ہی یہ آیت وَ اصۡبِرۡ نَفۡسَکَ مَعَ اَلَّذِیۡنَ نازل ہوئی آپ فوراً اپنے گھر سے نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے اس الَّذِیْنَ کے افراد ڈھونڈنے لگے اور دیکھا کہ مسجدِ نبوی میں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں جن کا حلیہ تین قسم کا تھا:
۱) اَشْعَثُ الرَّاْسِ غربت اور افلاس کی وجہ سے اُن کے بال بکھرے ہوئے تھے، خشک تھے، تیل کنگھی سے محروم تھے،ژولیدہ و پریشان تھے مگر اُن کے بکھرے ہوئے بال عشقِ مولیٰ کی برکت سے اور نکھر رہے تھے، اُن کا حسن ولایت اور نکھرا جارہا تھا؎
چلی  شوخی   نہ   کچھ  بادِ  صبا   کی
بگڑنے میں بھی زلف اُس کی بَنا  کی
دیکھو لوگ یہ شعر کہاں استعمال کرتے ہیں اور حق تعالیٰ کی راہ میں اختر اس شعر کو مسلمان کرکے حق تعالیٰ کے اولیاء کی شان میں بیان کررہا ہے۔ اس حالت میں اُن کی محبوبیت کا مقام یہ ہے کہ اپنے پیارے سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ حکم دے رہا ہے کہ جن کے بال بکھرے ہوئے ہیں مگر ان کا حسن نکھرا ہوا ہے، آپ اُن کے پاس جاکر بیٹھیے۔
صحابہ کے پیٹ پر پتھر بندھے رہتے تھے لیکن اُن کے دل میں خالقِ پیٹ کی یاد رہتی تھی۔ اب پیٹ پر حلوے بندھے ہوئے ہیں تو شرارتیں سوجھتی ہیں لیکن غیرشریفوں کو۔ اور 
_____________________________________________
2؎  الدرالمنثور:523/9،الکہف (28)،مرکز ھجر للبحوث العربیۃ
Flag Counter