Deobandi Books

ہم کس کو ملتے ہیں اور ہم کو کون پاتا ہے ؟

ہم نوٹ :

19 - 34
ذوقیات کی مچھلیاں اُس میں ہوں گی وہ سب اُس محروم تالاب میں داخل ہوجائیں گی۔ تو       سید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دریائے قلبِ نبوت میں قربِ الٰہی کی جتنی مچھلیاں تھیں صحابہ نے اُس قلبِ مبارک سے اپنے دل ملادیے؎
قریب جلتے ہوئے دل کے اپنا  دل  کردے
یہ  آگ  لگتی  نہیں  ہے  لگائی  جاتی ہے
صحابہ کرام نے اپنے دل پیش کردیے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دریائے         قلبِ نبوت کی معرفت و محبت اور خشیت کی تمام مچھلیاں صحابہ کے قلوب میں داخل ہوگئیں اور وہ مچھلیاں آج تک سینوں سے سینوں میں منتقل ہورہی ہیں۔ یہ کتابوں سے منتقل نہیں ہورہی ہیں۔ اس کی کیا دلیل ہے؟ اپنے زمانے کے امام بیہقی اور مفسر عظیم، تفسیر مظہری کے مصنف علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علم نبوت تو مدرسوں سے اور کتابوں سے پاجاؤگے لیکن نورِ نبوت اوراقِ کتب سے حاصل نہیں ہوسکتا کیوں کہ کسی کاغذ میں دم نہیں ہے جو حق تعالیٰ کے نور کا حامل ہوسکے، کاغذ میں طاقت نہیں ہے کہ وہ اللہ کے نور کو برداشت کرلے، یہ اللہ والوں کے دل ہوتے ہیں جو حق تعالیٰ کے نور کو برداشت کرلیتے ہیں، اس لیے عہدِ نبوت سے یہ نور سینوں سے سینوں میں، قلوب سے قلوب میں منتقل ہورہا ہے۔ مدارسِ دینیہ سے تم لوگوں نے جو علم نبوت حاصل کیا یہ ابھی آدھا علم ہے، جب نورِ نبوت ملے گا تب نور کامل ہوگا اور علم پر عمل کی ہمت آئے گی اور نورِ نبوت صرف سینۂ اہل اللہ سے ملتا ہے۔ علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ یہ ہیں:
علم ظاہر صلی اللہ علیہ وسلم از مدارسِ دینیہ بجوید واما نورِ باطن صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم از سینۂ درویشاں باید جست۔
علم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم تو مدارسِ دینیہ سے حاصل کرو لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا    نورِ باطن درویشوں کے سینوں سے حاصل کرنا چاہیے۔
صبح و شام کے معمولِ ذکر کا راز
تو اللہ تعالیٰ نے سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے دو علامتیں بیان فرمائیں:
Flag Counter