Deobandi Books

اللہ تعالی کے ساتھ اشد محبت کی بنیاد

ہم نوٹ :

14 - 26
مولانا رومی نے بھی ہر ایک کو راز نہیں بتایا، حسام الدین ان کے خلیفہ تھے، ان ہی سے اپنادردِ دل کہا کرتے تھے اور وہی مثنوی نوٹ کرتے تھے۔ جب مثنوی کا جوش ہوتا تھا تب ان ہی کو بلاتے تھے۔ قونیہ میں کتنے لوگ تھے، بڑے بڑے علماء تھے، مگر ان ہی کو بلاتے تھے کہ حسام الدین آؤ؎
اے حسام الدین ضیائے ذوالجلال
میل  می  جوشد  مرا  سوئے  مقال
اے حسام الدین! تم اللہ کی روشنی ہو، آؤ! مجھے مثنوی کہنے کا جوش ہورہا ہے۔ اور فرمایا کہ؎
مدتے     در   مثنوی   تاخیر   شد
مہلتے   بائیست  تا  خوں   شیر  شد
اے حسام الدین! کچھ دن تک کے لیے میں خاموش ہوگیا تھا جس سے مثنوی میں تاخیر ہوگئی، اور کیوں خاموش تھا؟ اگر بچے ماں کا دودھ مسلسل پیتے رہیں تو کیا ہوگا؟ خون آنے لگے گا، اس لیے کچھ مہلت ملنی چاہیے تاکہ اس کا خون دودھ میں تبدیل ہوجائے۔ اور فرمایا میری خاموشی کی وجہ یہ ہے جس سوتہ یعنی چشمے سے پانی آرہا تھا وہ بند ہوگیا لہٰذا اب کچھ دن مثنوی بند رہے گی کیوں کہ جب کنویں سے پانی میں مٹی آنے لگے تو سمجھ لو کہ سوتے سے پانی نہیں آرہا ہے، اب وہاں پانی بھرنا جائز نہیں۔ اس لیے مولانا نے فرمایا کہ؎
سخت  خاک  آلودہ  می  آید  سخن
میری گفتگو میں اب مٹی کے اثرات آرہے ہیں لہٰذا جب حق تعالیٰ دوبارہ سوتے سے پانی عطا فرمائیں گے تب دوبارہ مثنوی تم کو لکھواؤں گا لہٰذا کچھ عرصے بعد پھر جب جوش آیا، اور سوتہ دوبارہ جاری ہوگیا تب ارشاد فرمایا کہ اب قلم اُٹھالو اور لکھو  ؎
میل  می  جوشد  مرا  سوئے  مقال
مجھے مثنوی کہنے کا جوش ہورہا ہے۔
تو یہ بتارہا ہوں کہ اگر شیخ کا فیض لینا ہے تو جتنا قوی تعلق ہوگا اتنا ہی فیض ہوتا ہے۔
Flag Counter