Deobandi Books

اللہ تعالی کے ساتھ اشد محبت کی بنیاد

ہم نوٹ :

13 - 26
ہے مگر قطب بینی، اللہ والوں کی زیارت اختر کو بالغ ہوتے ہی عطا فرمائی۔ میں بالغ ہی ہوا ہوں اللہ والوں کی گود میں۔ پندرہ سال کا جب ہوا تو مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں تین برس تک رہا۔
(احقر جامع عرض کرتا ہے کہ تائب صاحب کا ایک شعر جو اس حقیقت کا ترجمان ہے اور حضرت والا کی شان میں ہے پیش کرتا ہوں؎
اندھیرے کیا  ہیں یہ  تائبؔ  اسے  خبر  ہی  نہیں
وہ  جس نے دیکھے ہیں اُٹھتے ہی آنکھ مل کے چراغ )
میں صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بولتا ہوں، دردِ دل رکھتا ہوں سینے میں، میں کوئی معاوضہ یا تنخواہ نہیں لیتا ہوں۔ الحمدللہ! میں اس وقت اپنی اولاد کو بھی نہیں دیکھتا کہ میری اولاد کہاں ہے؟ اختر کہاں ہے؟ اور سارے عالم کہاں ہے؟ میرے سامنے حق تعالیٰ کی عظمت ہوتی ہے،       عرشِ اعظم ہوتا ہے اور میرا مولائے عرشِ اعظم ہوتا ہے۔ کاش کہ اے خدا! میرے احباب کے دلوں میں اس فقیر کی آہ کی قدر دانی ڈال دے۔ مرنے کے بعد تو بہت لوگ قدر کرتے ہیں۔ کہتے ہیں نَوَّرَ اللہُ مَرْقَدَہٗ وَرَوَّحَ اللہُ رُوْحَہٗ وَخَلَّدَ اللہُ ثَوَابَہٗ وَغَیْرَ ذَالِکَ مگر میں       اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہوں کہ اے خدا! میری ایک آہ کو بھی چھوٹی ہو، بڑی ہو، قلیل ہو، کثیر ہو، اخترکی ایک آہ کو بھی اپنی رحمت سے رائیگاں نہ ہونے دیجیے۔ قیامت تک اس کو قائم و دائم زندہ  و پائندہ و تابندہ بنادیجیے اور تمام عالمی زبانوں میں اس کی نشریات کا غیب سے سامان فرمادیجیے۔ اس کے لیے چھاپہ خانہ مطبع اور پریس بھی عطا فرمائیے، مگر میں اللہ سے کہتا ہوں، اور کس کے سامنے روئیں، بھینس کے سامنے روؤ دیدہ کھوؤ، اللہ ہی سنتا ہے۔ میرے درد کو کوئی اور سمجھ نہیں سکتا۔ جیسا کہ مولانا شاہ فضل رحمٰن صاحب گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے ؎
ایک  بلبل  ہے  ہماری   رازداں
ہر کسی سے کب کھلا  کرتے ہیں ہم
شاعری     مدِنظر   ہم     کو    نہیں
وارداتِ دل  لکھا  کرتے  ہیں ہم
Flag Counter