Deobandi Books

اہل اللہ کی شان استغناء

ہم نوٹ :

8 - 34
بازِ شاہی ہے یعنی وہ باز جو بادشاہ پالتے ہیں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک بازِ شاہی محل سے اڑا ، اسے شاہی محل میں دوبارہ آنا تھا، بادشاہ اس کی رفتار دیکھنا چاہتا تھا، مگر وہ راستہ بھول کر ایک ویرانہ میں پہنچ گیا۔ وہاں اُلّو رہا کرتے تھے۔ اُلوؤں کو اس کی شکل بُری معلوم ہوئی، جیسے نکٹوں کا ایک گاؤں تھا ، وہاں سب کی ناک کٹانے کی عادت تھی۔ پانچ ہزار کی بستی اور سب کے سب نکٹے۔ ایک دن وہاں ایک شخص پہنچ گیا جس کی ناک صحیح سلامت تھی، تو پانچ ہزار نکٹوں نے کہا کہ واہ واہ! نکو صاحب آگئے ، ذرا اپنا چہرہ دیکھو کیسا بُرا لگ رہا ہے! ناک کس طرح اوپر کو اٹھی ہوئی ہے اونٹ کے کوہان کی طرح،  ہمیں تو تمہاری شکل بہت بُری لگ رہی ہے۔
 ایک معترض کو حکیم الامت تھانویرحمۃ اللہ علیہ کا حکیمانہ جواب
یہاں ایک اور لطیفہ یاد آگیا ۔ ہندوستان کی بات ہے، اس وقت پاکستان نہیں بنا تھا ۔ ایک شخص نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا کہ بمبئی میں حج کیوں نہیں ہوتا، مکہ میں کیوں ہوتا ہے؟ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ آپ کی ناک سامنے کیوں ہے، پیچھے کیوں نہیں ہے؟ اس نے کہا کہ اگر ناک پیچھے ہوتی تو چہرہ بُرا لگتا۔ تو حضرت نے فرمایا کہ بُرا تو جب لگتا کہ جب ایک آدمی کی ناک پیچھے ہوتی، اور جب سب کی ناک اللہ میاں پیچھے کرتے تو ہر آدمی سمجھتا کہ انسان ایسے ہی ہوا کرتا ہے۔ اب وہ خاموش ہوگئے۔ بس جواب ہوگیا کہ اللہ مالک ہے، جہاں چاہے اپنا گھر بنا دے۔
حرمین شریفین کی عظمت
پہاڑوں کے دامن میں اللہ تعالیٰ نے کعبہ بنایا جہاں پہاڑوں پر کوئی نظارہ ، کوئی سینری، کوئی درختوں کی قطاریں نہیں ہیں، لیکن پہاڑوں پر عظمت اللہ کی تجلیات کا جو عالم ہے اہلِ نظر سے پوچھو؎
ہم نے دیکھے  ہیں ایسے بھی اہلِ  نظر
زندگی  زندگی  سے  رہی  بے  خبر
Flag Counter