Deobandi Books

اہل اللہ کی شان استغناء

ہم نوٹ :

16 - 34
فرشتے پَر بچھاتے ہیں، جب وہ قربانی کی کھالیں دروازہ دروازہ مانگنے جائیں تو کیا اس سے طلبائے کرام اور علمائے دین کی عظمتوں کو نقصان نہیں پہنچتا؟
علماء عزت ِنفس اور عظمت ِدین کا لحاظ کریں
ایک صاحب نے حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ ہم اپنے لیے اپنے نفس کو تھوڑے ہی ذلیل کرتے ہیں، ہم تو ایسا اللہ کے دین کے لیے کرتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر وزیراعظم کی ماں مر جائے اور کوئی ظالم اعلان کردے کہ لاؤ بھئی چندہ، لاؤ وزیراعظم کی امّاں کی فاتحہ خوانی کرنی ہے اور بریانی پکانی ہے، تو وزیراعظم اپنی ہتک عزت کا مقدمہ دائر کردے گا۔ اب آپ کہیں گے کہ پھر مدرسے کیسے چلیں گے؟ تو بھئی! اس کے لیے ٹینٹ لگالیں، اس پر لکھ دیں کہ قربانی کی کھالیں یہاں بھی دی جاسکتی ہیں۔ لوگ خود لا کے دیں گے ۔اورا گر دروازے ہی پر بھیجناپڑے تو ان لوگوں کو رکھو جن کے چہرے پر مولویت کا لیبل نہ ہو۔ مولانا احتشام الحق تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کواللہ جزائے خیر دے۔ جمعہ کے دن وہ کالج کے لڑکوں سے رومال چلواتے تھے، کالج کے میٹر ک پاس، انٹر پاس مسٹر لڑکوں کو چندہ جمع کرنے کے لیے بھیجتے تھے۔ کہتے تھے کہ ان سے اس لیے منگواتا ہوں تاکہ لوگ مولویوں کو حقیر نہ سمجھیں، لہٰذا جن لوگوں نے ابھی مولویت کا لبادہ نہیں پہنا ان مسٹروں کی خدمات حاصل کرو، شاید اس کی برکت سے وہ اپنی ٹرمِس کردیں۔
تذکرہ حضرت مولانا ابرارالحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ
میرا مقصد کسی پر تنقید کرنا نہیں ہے، میں تو صرف اپنے بزرگوں کی تعلیمات بیان کررہا ہوں۔ الحمد للہ! میرے شیخ مولانا شاہ ابرار الحق صاحب (افسوس رحمۃ اللہ علیہ ہوگئے) پورے ہندوستان کے کئی صوبوں میں ان ہی اصولوں پر سو مدرسے چلاتے رہے۔ حضرت والا سفیر نہیں بھیجتے تھے معرِّف بھیجتے تھے، یعنی وہ تعارف کراتا ہے اور صرف اطلاع دینے آتا ہے کہ ادارہ دعوۃُ الحق کے سو مدرسے چل رہے ہیں، ممبئی میں اتنے، یوپی میں اتنے، بنگال میں اتنے، جب تعارف کرادیاتو اس کے بعد یہ بتادیا کہ سالانہ یہ خرچہ ہے، اتنے طلبا پڑھ رہے ہیں
Flag Counter