Deobandi Books

اہل اللہ کی شان استغناء

ہم نوٹ :

7 - 34
سرمایہ دار اور رئیس لوگوں کا انتقال ہوجاتا ہے تو مخلوق کی زبان پر یہ جاری ہوتا ہے کہ اللہ بخشے بڑے نیک آدمی تھے، بڑے نمازی پرہیز گار تھے، مسجد میں ہر ماہ امام اور مؤذن کی تنخواہ خود دیتے تھے، بڑی مسجدیں بنائیں، بڑے مدرسے بنوائے، لیکن ان کے کارخانوں کا تذکرہ کوئی نہیں کرتا کہ اللہ بخشے بڑے مال دا ر آدمی تھے، ایک کارخانہ فیصل آباد میں تھا، ایک کراچی میں تھا، ایک لاہور میں تھا، یہ تذکرہ کیوں نہیں ہوتا؟ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ہمارے بزرگوں کی دعاؤں کی برکت سے مجھے فوراً جواب عطا فرمایا کہ چوں کہ آنکھ بند ہونے کے بعد ملک بدل گیا، لہٰذا جس ملک میں جارہا ہے اب اس ملک کی کرنسی کا تذکرہ ہورہا ہے کہ اللہ بخشے اس نے فلاں مسجد بنائی، مدرسہ بنایا، اماموں کی تنخواہ دیتا تھا اور غریبوں کی مدد کرتاتھا۔ جب ملک بدل گیا تو کرنسی بدل گئی، پس دوسرے ملک میں پہلے ملک کی کرنسی نہیں چلتی،تو اس کا کوئی تذکرہ بھی نہیں کرتا۔ دنیا کی کرنسی آخرت میں نہیں چلتی،اس لیے سیٹھوں کے فیصل آباد، گوجرانوالہ اور لاہور کے کارخانوں کا کوئی تذکرہ نہیں کرتا، بلکہ نیکیوں کی جو کرنسی انہوں نے آخرت میں بھجوادی اسی کا تذکرہ ہوتا ہے کہ بڑے مخیر آدمی تھے، مساجد ومدارس پر بہت خرچ کرتے تھے، غریبوں کی مدد کرتے تھے وغیرہ۔ میرے اس جواب سے وہ صاحب بہت خوش ہوئے ۔ کہنے لگے مجھ کو آپ کا یہ جواب سوٹ(Suit) کرگیا ہے یعنی بہت موافق آیا، دل خوش ہوگیا۔ 
لیکن پردیس میں رہ کر وطن کی تیاری کی توفیق جب ہوتی ہے جب ان لوگوں کے ساتھ رہا جائے جو پردیس میں رہتے ہوئے بھی وطن کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ پردیس میں جہاں تذکرۂ وطن ہورہا ہے ان کی صحبتوں سے تعمیر کی توفیق ہوتی ہے اور جن کو ایسی صحبتیں نصیب نہیں ہوئیں وہ پردیس میں رہ کر تعمیرِ پردیس کی فکر میں تو رہے، مگر اصلی وطن کی تخریب کر ڈالی۔ اصلی وطن خراب آباد بن گیا۔
مثنوی شریف میں بازِ شاہی اوراُلّو ؤستان کا ایک سبق آموز قصہ 
باز ایک شکاری پر ندہ ہے، اُسے بادشاہ اپنے پنجے پر بٹھاتے ہیں، اس لیے اس کا نام
Flag Counter