Deobandi Books

اہل اللہ کی شان استغناء

ہم نوٹ :

17 - 34
اور اتنے اساتذہ کام کررہے ہیں۔ اس کے بعد کہتا ہے اچھا السلام علیکم ! لوگ کہتے ہیں کہ بھئی! چندہ تو لیتے جاؤ، تو وہ کہتا ہے کہ ہمیں چندہ لینے کی اجازت نہیں ہے، ہمیں صرف تعارف کرانے کی اجازت ہے، اگر چندہ بھیجنا ہے تو مرکز کو بھیج دیں اس کایہ پتا ہے۔ 
بادشاہ کی پیشکش اور حضرت والا کا استغنا
چوں کہ بعض لوگوں کو غلط فہمیاں ہیں، اس لیے میں نے اس غلط فہمی کا ازالہ کردیا کہ میرا کسی بادشاہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے اس ادارے کے لیے کوئی بادشاہ نہیں بھیجتا اور نہ ہمارا کسی بادشاہ سے کوئی رابطہ ہے، میرا تعلق غریبوں سے ہے۔ البتہ ایک مرتبہ بادشاہ نے مجھے پیشکش کی تھی، جب یہاں کچھ نہیں تھا، خالی پلاٹ تھا ، اس میں پانی کھڑا تھا جس میں مچھلیاں بھری ہوئی تھی۔ اس وقت میرے ایک دوست نے کہاایک بادشاہ نے سات لاکھ دینے کو کہا ہے اور وہ بادشاہ کہتا ہے کہ میرے آفس میں پیر صاحب کو آنا پڑے گا اور دستخط کرکے روپیہ لے جانا پڑے گا۔ میں نے کہا کہ ان سے کہیں کہ وہ آپ کو دے دیں اور آپ مجھے پہنچادیں۔ یہ فقیر بادشاہوں کے دروازے پر جا کر بِئْسَ الْفَقِیْرُ  نہیں بننا چاہتا، کیوں کہ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ وہ فقیر بُرا ہے جو امیروں کے دروازے پر جائے اور وہ امیر اچھا ہے جو فقیروں کے دروازے پر جائے ۔
بِئْسَ الْفَقِیْرُ عَلٰی بَابِ الْاَمِیْرِ وَنِعْمَ الْاَمِیْرُ عَلٰی بَابِ الْفَقِیْرِ 
وہ امیر بہتر ہے جو فقیروں اور اللہ والوں کے دروازے پر جائے۔ یہاں فقیر سے مراد      بِھک منگے نہیں ہیں؎
 شاہ صاحب جو سمجھتا ہے تو بِھک منگوں  کو
تو نے دیکھی نہیں وہ صورتِ  شاہانہ  ابھی
آج کل شاہ صاحب کس کو کہتے ہیں؟ جو بھیک مانگتا ہو ۔ خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایااے دنیاوالو! تم نے شاہ صاحب کہاں دیکھا ہے؟تم نے تو بھیک مانگنے والوں کو شاہ صاحب سمجھ لیا ، ابھی اللہ والوں کو تم نے کہاں دیکھاہے۔
Flag Counter