Deobandi Books

اہل اللہ کی شان استغناء

ہم نوٹ :

15 - 34
دوں لاؤ بھئی! چندہ۔ تو آہ! وہ بندہ جو مانگے چند ہ ہو جاتا ہے گندا۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کے اتنے عالی شان مضمون کے بعد پیسے کی بات کردینے سے اس کے دردِ دل کی قیمت گرجاتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے جو اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا کہ؎
 ہر  پس  تقریر  آخر   چندہ  ایست 
 ہر تقریر کے آخر میں چندہ کی بات آئے گی۔ اس لیے ہمارے بزرگوں نے ہمیں نصیحت کی ہے کہ جب وعظ بیان کرو، تو ضرورتِ شدیدہ بھی ہو تو بھی چندہ کی بات مت کرو، کیوں کہ یہ بھی وعظ کا ایک قسم کا معاوضہ ہو جاتا ہے، اگرچہ اپنے لیے نہ ہو ۔ الحمد للہ! فرانس کے جزیرہ      ری یونین کا سفر ہوا، ساؤتھ افریقہ کا سفر بھی ہوا، بڑے بڑے سیٹھوں کی مسجدوں میں بیان ہوا، لیکن میں نے کہیں اپنے مدرسے کا نام بھی نہیں لیا کہ وعظ کے آخر میں کہہ دوں کہ میرا مدرسہ بھی ہے، تو جو ہوشیار سیٹھ ہیں وہ سمجھ جاتے ہیں، آپس میں کانا پھوسی کرتے ہیں کہ سنا سنا، آگئے مطلب پر، آمدن برسرِ مطلب۔ دیکھا! مدرسے کا نام لے لیا۔ آہ ! الحمد للہ ! اللہ تعالیٰ نے ہمارے بزرگوں کی دعاؤں کے صدقے میں توفیق دی ، یہاں ری یونین کے لوگ موجود ہیں، ساؤتھ افریقہ کے لوگوں سے بھی پوچھ لیا جائے، میں نےاپنے مدرسے کا کسی طرح تذکرہ بھی نہیں کیا۔ میں نے کہا جن کے لیے اللہ کی محبت کا درد پیش کررہا ہوں، اللہ تعالیٰ کے لیے، تو کیااللہ تعالیٰ ہمارا مدرسہ چلانے کے لیے کافی نہیں ہیں؟ وہ ہمارے اِن غریب دوستوں کے دلوں میں توفیق ڈالے گا۔ وہ خود پوچھیں گے کہ میرے لائق کوئی خدمت ہو۔ جو شخص علماء کے مانگنے کا انتظار کرتا ہے کہ جب مولوی مانگےگاتب دوں گا اس کا درجہ آخر ت میں نہ جانے کیا ہوگا؟ میں کچھ نہیں کہتا۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو اہلِ مدارس ،خادمِ مدارس اور  خدامِ دین سے پوچھتے ہیں کہ میرے لائق خدمت ہو تو آپ بتائیے۔
علماء کا اکرام اُمت پر فرض ہے
یہ مولوی نائبِ رسول ہیں۔ کیا انہیں دروازہ دروازہ پھرا نا عظمتِ رسول کے خلاف نہیں ہے؟ علمائے دین کو اپنے دروازوں پر بلا بلا کر چندہ دینا اور مجبور کرنا کہ یہاں سے جاؤ، یہ دفتر ہے، سیٹھ کے گھر پر جاؤ، وہاں ملے گا چندہ۔ کیا وہ طلبائے کرام جن کے پیروں کے نیچے
Flag Counter