Deobandi Books

ماہنامہ الحق جون 2014ء

امعہ دا

52 - 67
افادات: مولانا محمدابراہیم فانی ؒ
داستانِ دلکشاء درزمانِ ابتلاء 
مولانا محمد ابراہیم فانی صاحبؒ ‘دارالعلوم حقانیہ کے جید استاد الحدیث ہونے کے ساتھ ساتھ کہنہ مشق شاعر‘ادیب‘مصنف و محقق تھے ‘گزشتہ تقریباً پینتیس سال سے دارالعلوم حقانیہ میں منصب تدریس پر فائز رہے۔گزشتہ دنوں ذیابیطس کے مرض نے شدت اختیار کرکے موصوف کے دونوں گردوں کو متاثر کیا‘اور اُسی مرض سے انتقال فرماگئے۔ موصوف نے آئی سی یو جیسی نازک جگہ میں بھی کتاب و قلم اور ادب وشاعری سے رشتہ جوڑے رکھا اور شدید بیماری بلکہ غنودگی کی حالت میں اپنی یاداشتیں لکھنا شروع کیں‘ اس طرح بیمار پرسی میں بعض اصحاب علم و فضل سے غنودگی کی حالت میں علمی اورادبی گفتگو فرماتے رہے۔ جس کا تیسرا حصہ نذر قارئین ہے۔ (ادارہ )
__________________
آفاقی استعارہ:
ایک دفعہ علامہ اقبال ؒ کے فرزند ڈاکٹر جسٹس (ر) جاوید اقبال صاحب حقانیہ تشریف لائے۔ استقبالیہ تقریب سے فراغت کے بعد حضرت مولانا سمیع الحق صاحب مدظلہ العالیٰ کی اقامت گاہ کو ظہرانے کے لئے تشریف لے جارہے تھے‘ بندہ بھی اسی کارواں میں شریک تھا‘ تو میں نے جسٹس صاحب کو کہا کہ علامہ صاحب تو مجموعہ کمالات تھے ہی‘ لیکن آپ کے نام اور بیٹے کے حوالے سے جاوید نامہ لکھ کر آپ کو امر اور اپنی والدہ محترمہ کی یاد میں نظم جس کا عنوان ہے ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ اپنی ماں کو آفاقی استعارہ بنادیا ہے اور آج جو شخص بھی اپنے بیٹے کونصیحت کرتا ہے تو جاوید نامہ سے اور لندن سے بھیجے گئے آپ کے نام دوسرے اردو اشعار سے ضرور استفادہ کرتا ہے۔ مثلاً 
آ تجھ کو بتادوں کہ تقدیر امم کیا ہے		 شمشیر وسنان اول طائوس ورباب آخر
مئے خانہء یورپ کے دستور نرالے ہیں		 لاتے ہیں سرور اول دیتے ہیں شراب آخر 
تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معنی کا		 کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر
اوروالدہ مرحومہ کی یاد میں جو نظم ہے ‘ ہرشخص اپنی والدہ کے متعلق تاثرات میں اس نظم کو ملحوظ نظر رکھتا ہے اور جب کسی کی ماں فوت ہوجائے تو یہ شعر ضرور پڑھتا ہے جوکہ علامہ کی نظم کا آخری شعر ہے۔ 
	آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے      سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
یہ باتیں کرتے ہوئے جسٹس صاحب انتہائی متوجہ تھے‘ اورپھر مولاناسمیع الحق صاحب نے فرمایا کہ یہ تو واقعی نقطہ کی بات ہے جس پر ہمارے فانیؔ صاحب پہنچ گئے۔ 

Flag Counter