والمجوسی والوثنی والمحرم۔
مرسل میں ہے۔ عن االحسن بن محمد بن الحنفیة قال کتب رسول اللہ الی مجوس ھجر یعرض علیھم الاسلام فمن اسلم قبل منہ ومن ابی ضربت علھم الجزیة علی ان لا توکل ذبیحة ولا تنکح لھم امرأة (الف) (سنن للبیہقی، باب ماجاء فی ذبیحة المجوسی ج تاسع ص ٤٧٨ نمبر ١٩١٧١ دار قطنی ، کتاب الاشربة ج رابع ص ١٩٧ نمبر ٤٧٥٥) اس اثر سے معلوم ہوا کہ مجوسی کا ذبیحہ جائز نہیں ہے اور اسی پر قیاس کرتے ہوئے مرتد اور بت پرست کا ذبیحہ حلال نہیں ہے۔
اور محرم کے لئے شکار کا پکڑنا جائز نہیں ہے اس لئے اس کا ذبح کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
وجہ آیت میں ہے۔حرم علیکم صید البر ما دمتم حرما(آیت ٩٦ سورة المائدة ٥)اور دوسری آیت میں ہے۔یا ایھا الذین آمنوا لا تقتلوا الصید وانتم حرم(ب) (آیت ٩٥ سورة المائدة ٥)ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ محرم کو شکار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ شکار کرنا اس پر حرام ہے۔ اور نہ شکار کرنے والوں کی مدد کرنی چاہئے۔
وجہ حضرت ابو قتادة کی لمبی حدیث گزر چکی ہے کہ محرموں نے ان کی مدد نہیں کی۔حدیث کا ٹکڑا یہ ہے۔عن عبد اللہ بن ابی قتادة ... واستعنت بھم فابوا ان یعینونی (ج) (بخاری شریف، باب اذا صاد الحلال فاھدی للمحرم الصید اکلہ ص ٢٤٥ نمبر ١٨٢١) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شکار کرنے والے کی محرم مدد بھی نہ کرے۔ اور محرم کا شکار کیا ہوا حلال نہیں ہے اس کی دلیل یہ اثر ہے۔ سألت الثوری عن المحرم یذبح صیدا ھل یحل اکلہ لغیرہ ؟ فقال اخبرنی لیث عن عطاء انہ قال لا یحل اکلہ لاحد (د) (مصنف عبد الرزاق ، باب الصید وذبیحہ والتربص بہ ج رابع ص ٤٣٩ نمبر ٨٣٦١) اس اثر سے معلوم ہوا کہ محرم کا ذبح کیا ہوا شکار کسی کے لئے حلال نہیں ہے۔
فائدہ امام شافعی فرماتے ہیں کہ محرم کے لئے شکار کرنا اگرچہ حلال نہیں ہے لیکن اگر شکار کو ذبح کردیا تو دوسروں کے لئے حلال ہے وہ کھا سکتے ہیں۔
وجہ محرم مسلمان ہے اس لئے اس کا ذبح کرنا جائز ہے (٢) اثر میں ہے۔واخبرنی اشعث عن الحکم بن عتیبة انہ قال لا بأس باکلہ (ہ) (مصنف عبد الرزاق ، باب الصید وذبیحہ والتربص بہ ج رابع ص ٤٣٩ نمبر ٨٣٦١) اس اثر سے معلوم ہوا کہ محرم کا ذبیحہ کھا سکتا ہے۔
حاشیہ : (الف) حضورۖ نے ہجر کے مجوس کے بارے میں لکھوایا کہ ان پر اسلام پیش کیا جائے گا ،جو ان میں سے اسلام لے آئے ان سے قبول کیا جائے گا اور جو انکار کرے ان پر جزیہ متعین کیا جائے گا اس شرط پر کہ ان کا ذبیحہ نہیں کھایا جائے گا اور نہ ان کی عورتوں سے نکاح کیا جائے گا (ب) تم لوگوں پر خشکی کا شکار حرام کیا گیا ہے جب تک تم محرم ہو۔دوسری آیت میں ہے،اے ایمان والو! شکار کو قتل نہ کرو جب تم محرم ہو(ج) حضرت ابو قتادہ فرماتے ہیں ... میں نے شکار کرنے کے لئے صحابہ سے مدد مانگی تو انہوں نے مدد کرنے سے انکار کیا۔(د) حضرت ثوری سے محرم کے بارے میں پوچھا کہ کیا وہ شکار ذبح کر سکتا ہے اور کیا دوسروں کے لئے اس کا ذبیحہ حلال ہے؟ فرمایا مجھ کو حضرت لیث نے حضرت عطائ سے خبر دی کہ اس کا کھانا کسی کے لئے حلال نہیں ہے(ہ) حضرت حکم بن عتیبہ نے فرمایا کہ محرم شکار ذبح کردے تو دوسروں کے لئے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔