ملفوظات حکیم الامت جلد 30 - یونیکوڈ |
ہمیشہ کے لئے جاری فرمادیا جس میں بہت ہی متقی صاھب نسبت علماء کام کرتے ہیں اس پر بھی احتیاط کا یہ عالم کہ کانپور میں ایک دولت مند طبیب نے انتقال کے قریب اپنی دو تین ہزار آمدنی کی جائیداد کو یتیم خانہ اسلامی پر وقف فرمادیا - اور باضابطہ وقف نامہ مکمکل کردیا - اس میں کچھ حصہ اپنے لئے نہ اپنے مدرسہ اور خانقاہ کے لئے اور نہ تعلق اپنی ذات سے باقی رکھا - اللہ اللہ خیر سلا ! ضوابط بیعت اسی طرح بیعت کے وقت بھی کسی سے نذر قبول نہیں فرماتے تھے نہ مر مرے نہ بتاشے نہ کسی شیرینی وغیرہ کی تقسیم کی اجازت دیتے ہیں کیونکہ ایک تو طرز سنت نبوی کے خلاف - دوسرے غرباء اور مفلس بیعت سے محروم رہتے ہیں نہ ان کو نذررانہ کی قدرت نہ تقسیم - شیرینی کی وسعت - ہاں دوسرے وقت میں اگر کوئی بے تکلف ہوجاوے یا پرانے تعلقات والا ہو قبول ہدیہ میں مضائقہ نہیں فرماتے - مگر وہ بھی ایسے طور پر نہیں جس سے لوگ یہ سمجھیں کہ یہ تو بغیر نذر کے توجہ ہی نہیں کرتے - پھر اس میں یہ بھی شبہ رہتا ہے کہ حرام یا مشتبہ آمدنی سے نہ ہو مگر اسی حد تک کہ جس کا علم ہوجائے یا وہ شخص مشتبہ یا حرام آمدنی کے پیشہ میں خود مشہور ہوں - اس سے زیادہ تجسس نہیں فرماتے کیونکہ شریعت میں وہ بھی ممنوع ہے چنانچہ دو معزز عہدہ داران حیدر آباد نے آپ کی دعوت کی - آپ کو یہ علم ہوگیا کہ ان کی تنخواہ کے مدات قواعد شرعیہ پر منطبق نہیں ہیں - آپ نے رد دعوت تو نہیں فرمایا - البتہ ان سے مخلصانہ طور پر کہہ دیا گیا کہ مہربانی کر کے قرض لے کر دعوت کا کھانا پکائے - چنانچہ سنجیدہ اور زی فہم لوگ تھے - نہایت خوشی سے انہوں نے قبول کرلیا - بیعت بھی ہر شخص کو نہیں کرتے پہلے اس کو ذکر و شغل میں لگادیتے ہیں اور وہ اپنے حالات کی اطلاع دیتا رہتا ہے اس کے بعد اگر اس نے درخواست کی اور اس رشد کے اثار ملا حظہ فرمائے تو بیعت فرمالیتے ہیں ورنہ نہیں فرماتے ہیں مجھے اپنے جتھہ کے بڑھانے کی ضرورت نہیں - کام کرنے والے چاہئیں یہ تو حضرت کی حالت سے سفر میں تو سوائے مستورات اور مریضوں کے کسی کو بیعت نہیں فرماتے - اس زنام قیام حیدر آباد میں بیسیوں لوگوں نے بیعت کی درخواست کی مگر اپ