ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2002 |
اكستان |
|
مرزا صاحب کے لیے ١٨٦٨ء کا سال فیصلہ کن ثابت ہوا ۔ایک عربی محمد صالح کا ہندوستان آنا ہوا جس کا سیاسی مقصد تھا ۔وہابیوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے صورت حال اس وقت خاصی تشویشناک تھی ۔انگریزوں کے لیے پنجاب جیسے اہم خطے میں ایک عرب محرک کی موجودگی گھمبیر مسائل کھڑے کر سکتی تھی ۔پنجاب پولیس نے اسے امیگریشن ایکٹ کی خلاف ورزی اور جاسوسی کے الزامات میں گرفتار کر لیا گیا ۔ ١١ سیالکوٹ کچری کے ڈپٹی کمشنر (پر کنز ) نے تفتیش شروع کی۔مرزا صاحب کی عربی کے ترجمان کے طورپر خدمات حاصل کی گئیں ۔عرب کے ساتھ بحث کے دوران مرزا صاحب نے ہندوستان میں برطانوی حکومت کے جواز میں زور دار بحث کی اور اس کا دفاع کیا۔اپنی بلاغت کے زور پر انہوں نے اپنے برطانوی آقا کی نظروں میں اپنی اہمیت ثابت کر دی ۔پر کنز نے کچہری کے ایک ملازم کی صورت میں ایک مفید اور وفادار آلہ کار تلاش کر لیا ۔جو سلطنت کے مقصد کے لیے استعمال ہو سکتا تھا اگر اسے اس کام پر لگادیا جائے۔ پرکنز ایک فری میسن تھا اور لاہور کے'' لاج آف ہوپ'' کا ایک رکن تھا ۔مرزا صاحب نے ١٨٦٨ء میں بغیر کسی واضح وجہ کے سیالکوٹ کچہری میں اپنی ملازمت چھوڑدی اورقادیان میں قیام پذیر ہو گیا۔ جس روز مرزا صاحب نے قادیان کو روانگی اختیار کی اس دن احترام کے طورپرپر کنزنے کچہری میں تعطیل کردی۔ ١٢ ١٨٦٨ء میں مرزا غلام احمد کی والدہ چراغ بی بی عرف گھسیٹی وفات پا گئی۔اُسے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مکمل طور اپنے والد کی رقم پر انحصار کرنا پڑا ۔اسے عدالتوں میں حاضری کے لیے ڈلہوزی اور دوسری جگہوں پر سفر کرنا پڑتا۔اس نے خاموشی سے تمام سختیوں کا مقابلہ کیا اور اپنے مذموم مقصد کو کبھی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیا ۔١٨٧٦ء میں مرزا غلام مرتضیٰ کی وفات نے اس کے بیٹوں مرزاغلام قادر اور مرزا غلام احمد پر مزید مشکلات لا ڈالیں ۔اپنی زندگی کے دوران مرزا غلام مرتضیٰ نے اپنے جدی رشتہ داروں کی جائیداد پر غاصبانہ قبضہ کیے رکھا جو قادیان میں واقع تھیں ۔اس کی وفات کے بعد غلام قادرکو وہ جائیداد مل گئی اورمرزاغلام احمد اس کا رفیق جرم بن گیا۔١٨٧٧ء میں مرزا غلام مرتضیٰ کی وفات کے ایک سال بعدمرزا قاسم بیگ کے بیٹے مرزا غوث جو کہ قادیان کی جدی املاک کے نصف کا اکیلا وارث تھا ۔ جس سے مرزا غلام مرتضیٰ نے اسے محروم رکھا تھا ،عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا ۔اسے پتا تھا کہ مرزا برادران اسے حصہ دینے پر رضامند نہیں ہوں گے۔ اس نے لاہور میں متعین ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر مرزا اعظم بیگ کو اپنی جائیداد کا حصہ فروخت کر دیا ۔ اعظم بیگ کی مالی معاونت کے بعد اس نے پنجاب کی اعلیٰ عدالت جو دیوانی اور فوجداری مقدمات میں مجاز سماعت مرافعہ تھی مقدمہ جیت لیا۔ مرزا برادران کے پاس اپنے دفاع میں اس دلیل کے علاوہ کوئی ثبوت نہ بچا تھا کہ وہ آبائی جائیداد کی منتقلی Dr Basharat Ahmad,Mujadid-i-Azam,Lahore 1939,P.42 Address of Abdul MannanOmer at the Annual Gathering of December19 Ahmadiya Anjuman Lahore 1981,p.12