ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2002 |
اكستان |
|
اور فروخت کے لیے اسلامی قوانین وراثت کی بجائے محض رسومات و رواجات کے پابند ہیں ۔ مرزا غوث کو اس کے حقیقی جائیداد کے حصہ سے محروم کرنے کی مرزا غلام قادر اور مرزا غلام احمد کی یہ ایک عیارانہ چال تھی ۔مرزا غوث کی جائیداد کے حصہ کو ہتھیانے کے لیے مرزا غلام احمد نے جو کہ بعد میں نبوت اور اسلام کی علمبرداری کا ٹھیکدار بنا ،اسلامی قوانین کی بجائے خاندانی رسوم کو ترجیح دی ۔ روایات کے مطابق مرزا غوث صرف بیٹے کی شادی پر جائیداد فروخت کر سکتا تھا یا اور کسی قابلِ جواز ضرورت پر ایسا کر سکتا تھا۔ چونکہ وہ بے اولاد تھااوردوسری کوئی ذاتی ضرور ت پیش نہ تھی اس لیے وہ اپنی جائیداددوسروںکوفروخت نہیں کر سکتاتھا۔ عدالت نے مرزا برادران کی یہ دلیل مسترد کر دی اور فیصلہ مرزا غوث کے حق میں کر دیا ۔ طویل مقدمہ بازی نے مرزا گھرانے کو مالی مصائب کے کنارے تک پہنچا دیا تھا ۔غلام قادرجائیداد کا نقصان اورشکست کی ذلت برداشت نہ کر سکا اور ١٨٨٣ ء میں وفات پاگیا ۔بقیہ جائیداد کا اختیار اس کی بیوہ کو حاصل ہو گیا ۔مرزا غلام احمد کی خاندانی معاملات میںبہت کم سنی جاتی تھی مگر وہ اپنی الگ ''سلطنت '' کے قیام میں مصروف تھا ۔مرزا غلام احمد کا کہنا ہے کہ اپنے والد کی و فات کے بعد اس نے پُر مصائب زندگی گزاری ۔وہ حقیقی طور پر ایک قلاش اور معنوی طورپر ایک مایوس آدمی تھا ۔اس کے بڑے بھائی نے تمام جائیداد کا اختیار سنبھالے رکھا اور اس کی آمدنی کو اپنی فلاح میں صرف کیا اور مرزا صاحب کو ایک رسالہ کے چندے کے طور پر چند روپے دینے سے انکار کردیا۔غلام قادر کی بیوہ بھی مر زا کے لیے اتنی ہی سخت تھی اور اس سے سخت نفرت کرتی ۔مرزا غلام احمد کی بیوی حرمت بی بی نے بھی اس کے ساتھ بڑا سخت وقت گزارا، کیوں کہ مرزا صاحب بیماری ،نفسیاتی عدم توازن اور مالی مشکلات کا شکار تھے ۔ان سالوں میں اس کے ساتھ جو سلوک ہوااس نے اس کی مستقبل کی ز ندگی پربڑا اثر چھوڑا اس کی جھلک اس کے مستقبل کے دعوئوں میں بھی نظر آتی ہے۔ ١٨٨٠ء کے اخیر تک وہ اپنی کتاب ''براہین احمدیہ '' کی تدوین میںپورے طورپر مصروف رہا ۔ ١٨٨٣ء میں اس کے بڑے بھائی غلام قادرکی وفات نے اس کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا اور وہ اپنے پسندیدہ مقصد یعنی نبوت کے دعوے کی طرف بڑی تیزی سے بڑھا ۔برطانوی راج کی اطاعت گزاری اور جہاد کی مذمت (١٨٧٩ء میں اس کے ایک قریبی دوست محمد حسین بٹالوی نے جہاد کے خلاف ایک کتاب لکھی اور برطانویوں سے انعام حاصل کیا) اس کی تحریروں سے عیاں تھی ١٣ ۔ وہ اپنے فرضی منصبی کو پورے خلوص سے پوراکرتا رہا ۔ہندوستان میں او ردنیا کے دوسرے حصوں میں نو آبادیاتی راج کے استحکام کے لیے سر انجام دی گئی اپنی خدمات پر متفخر رہا۔ (جاری ہے) In 1879,his close friend Mulana Muhammad Hussain Batalvi wrote a book against jehad and got a reward from the British (supplement Ishat-ul-Sunnah,Lahore vol.viii no.9 pp261-262)