ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2002 |
اكستان |
|
اور آپ ماں کی طرح ان کا اکرام کیا کرتے تھے اور ان کی ملاقات کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے ) جب یہ دونوں حضرات ان کے گھر پہنچے تو (ان حضرات کو دیکھ کر بے ساختہ) ام ایمن پر گریہ طاری ہو گیا انہوں نے پوچھا آپ کیوں روتی ہیں کیا آپ کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ ۖ کے لیے اللہ تعالی کے ہاں جو سامان ہیں وہ بہت خیر (اور تحسین ) کے ہیں ۔ انہوں نے جواب دیا میں اس پر تو نہیں روتی کیونکہ بلاشبہہ میں اتنا تو جانتی ہوں کہ اللہ تعالی کے یہاں آپ کے لیے خیر کے سامان ہیں ،بلکہ میں تو اس پر روتی ہوں کہ اب آسمان سے وحی کی آمد کاسلسلہ ختم ہو گیا ہے ( جو ہمارے لیے اللہ تعالی کی جانب سے دین و دنیا کی براہ راست رہنمائی کا ذریعہ تھا ) یہ کہہ کر ام ایمن نے ان دونوں حضرات کو بھی خوب رلایا اور یہ بھی ان کے ساتھ مل کر رونے لگے ۔ وحی آنے کی کیفیت : عن عائشة ان الحارث بن ہشام سأل رسول اللّٰہ ۖ فقال یا رسول اللّٰہ کیف یا تیک الوحی فقال رسول ا للّٰہ ۖ احیانایا تینی مثل صلصلة الجرس وہو اشدہ علی فیفصم عنی وقد وعیت عنہ ما قال واحیا نا یتمثل لی اللملک رجلافیکلمنی فا عی ما یقول قالت عائشة ولقد رأ یتہ ینزل علیہ الوحی فی الیوم الشد ید البرد فیفصم عنہ وان جبینہ لیتفصد عرقا ۔ (بخاری و مسلم) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حارث بن ہشام نے رسول اللہ ۖ سے پوچھا یا رسول اللہ ۖ آپ پر وحی کیسے آتی ہے آپ ۖ نے فرمایا کبھی تو یہ صورت ہوتی ہے کہ مجھے ایک گھنٹی کی سی آواز آتی ہے اوریہ قسم مجھ پر سب سے زیادہ دشوار ہوتی ہے(کیونکہ اس میں فرشتہ اپنی اصلی صورت پر رہتاہے اور وہ رسول اللہ ۖ کی روح مبارکہ کو مسخر کرکے اس میں کلام الہی کا القا ء کرتاہے روح مبارکہ کے مسخر کیے جانے کے عمل میں آپ کو گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی تھی )اس کے بعد جب وہ کیفیت دور ہو جاتی ہے تو جو وحی میں ارشاد ہوا تھا وہ مجھ کومحفوظ ہوجاتا ہے او رکبھی یوں ہوتا ہے