کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
موبائل اسکرین پر قرآن کریم کا فولڈرکھلنے کی صورت میں اسے بغیر وضو ہاتھ لگانا
سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کہآج کل امریکن کمپنی کا ایک موبائل جس کا نام ”Apple“ ہے اس موبائل میں کی پیڈ نہیں ہوتا بلکہ اس موبائل کی اسکرین کو انگلی سے چُھو کر استعمال کیا جاتا ہے، کیوں کہ پورا قرآن کریم کمپیوٹر سافٹ ویئر کی صورت میں موجود ہے تو قرآن کریم کے سافٹ ویر کو مندرجہ بالا موبائل میں ڈاؤن لوڈ کر دیا جاتا ہے اور پورا قرآن کریم اس ”Apple“ موبائل میں موجود ہوتا ہے۔
یہ موبائل اسکرین کو ہاتھ کی انگلی سے چُھو کر استعمال ہوتا ہے لہٰذا جب قرآن کریم کو پڑھنے کے لیے اسکرین پر لایا جاتا ہے تو ظاہر ہے اسکرین کو ہاتھ لگانا ہو گا اور اگلے صفحوں کو لانے کے لیے بھی انگلیوں کو استعمال کرنا ہو گا۔
سوال یہ ہے کہ بغیر وضو کے اس طرح استعمال کرنا جائز ہے ؟ اور کیا یہ موبائل قرآن پاک کے زمرے میں شامل نہیں ہو گا اور کیا یہ موبائل قیمص، شلوار یا پتلون کی جیب میں رکھا جاتا ہے اور شلوار کی جیب رانوں پر شرم گاہ کے قریب ہوتی ہے او رپتلون کی جیب بھی رانوں پر شرم گاہ کے قریب یا پھر کولہوں پر ہوتی ہے کیا یہ جائز ہے؟
اور کیوں کہ یہ موبائل جیب میں ہوتا ہے اس لیے جب انسان بیت الخلاء جاتا ہے تو موبائل بھی اس کی جیب میں ہوتا ہے تو کیا اس موبائل کو بیت الخلاء لے جانا صحیح ہے؟ اسی طرح بعض لوگ اس موبائل میں گانے، تصاویر، فلمیں اور دوسری خرافات بھی قرآن کریم کے ساتھ رکھتے ہیں کیا یہ جائز ہے؟
جواب… واضح رہے کہ جب قرآن کریم موبائل یا میمو ری کارڈ کے اندر ہو یعنی اس کو اسکرین پر کھولا نہ گیا ہو، تو اس وقت چوں کہ قرآن کریم حروف ونقوش کی صورت میں موجود نہیں اس لیے اس کو ہاتھ لگانے کے لیے باوضو ہونا ضروری نہیں۔
او رجب موبائل یا میموری کارڈ کے حافظے میں موجود قرآن کریم کو اسکرین پر کھول لیا جائے تو اس وقت چوں کہ اسکرین پر موجود نقوش قرآن کریم کے الفاظ پر دلالت کرتے ہیں، اس وقت اسکرین پر ہاتھ لگانے کے لیے وضو ہونا ضروری ہے او راس صورت میں چوں کہ قرآن کریم کا صرف وہی حصہ حروف کی شکل میں ہے جو اسکرین پر نظر آرہا ہے ، لہٰذا اسکرین کو ہاتھ لگانا طہارت کے بغیر جائز نہ ہو گا او راسکرین کے علاوہ موبائل کے بقیہ حصوں کو ہاتھ لگانا جائز ہو گا، البتہ عظمت قرآن کا تقاضا اورمناسب یہی ہے کہ جب تلاوت کے لیے موبائل کی اسکرین پر قرآن کریم کا فولڈر کو کھولا جائے تو باوضو ہو کر کھولا جائے اور یہی احتیاط کی بات ہے او رجس موبائل میں الگ سے کی پیڈ نہ ہو بلکہ اسکرین پر کی پیڈ کی سہولت ہو تو ایسے موبائل میں قرآن کریم کا فولڈر کھولنے سے پہلے لازمی وضو کا اہتمام کیا جائے۔
جس موبائل میں قرآن کریم محفوظ کیا گیا ہو اور وہ کھلا ہو تو شلوار اور پتلون کی جیب میں رکھنا بے ادبی ہے، البتہ اگر وہ پروگرام جس میں قرآن کریم محفوظ ہے، بند ہو ، تو پھر شلوار، پتلون کی جیب میں رکھنے میں حرج نہیں۔
جس موبائل میں قرآن کریم محفوظ ہے اگر وہ بند ہے یا وہ پروگرام بند ہے جس میں قرآن کریم محفوظ ہے تو بند ہونے کی صورت میں بیت الخلاء لے جانے میں حرج نہیں۔
موبائل میں گانے، تصاویر، فلمیں او ردوسری خرافات بھرنا ناجائز او رحرام ہے اور جس موبائل میں قرآن کریم محفوظ ہو تو اس میں یہ چیزیں رکھنا قرآن کریم کی سخت توہین اور بے ادبی ہے، اس سے اجتناب لازم اور ضروری ہے۔
مسجد کی چھت ہر نماز پڑھنا
سوال …درج ذیل مسئلے کے حوالے سے کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسجد کا اندرونی ہال ہوتے ہوئے درجہ ذیل امور کی وجہ سے مسجد کی چھت پر نماز پڑھنا کیسا ہے؟
گرمی کی وجہ سے۔ بجلی کی بچت کی وجہ سے۔ مچھروں کے کاٹنے کی وجہ سے۔ سردی کی وجہ سے۔
ان تمام صورتوں میں کیا مسجد کی چھت پر نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں ہے اور جو نمازیں پڑھی جاچکی ہیں ان کا قرآن وحدیث کی روشنی میں کیا حکم ہے۔
جب کہ چھت پر جہاں نماز پڑھی جاتی ہے اس کا سائبان بھی نہیں ہے
جواب… مسجد کی چھت پر جماعت کروانا بغیر کسی عذر کے مکروہ ہے اور صورت مسئولہ میں جن اعذار کا ذکر ہے، وہ حقیقةً کوئی اعذار نہیں ہیں، اس لیے مذکورہ چیزوں کو بنیاد بنا کر مسجد کی چھت پر نماز پڑھنا مکروہ ہو گا ، البتہ نماز ادا ہو جائے گی اور جتنی بھی نمازیں مسجد کی چھت پر پڑھی گئی ہیں ، وہ سب ادا ہو گئی ہیں، دوبارہ ان کی ادائیگی لازم نہیں۔
زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے سلسلے میں کہ زید کا اپنا ذاتی فلیٹ ہے اپنے نام سے او رکچھ بنک بیلنس ہے بنک میں سر ٹیفکیٹ کی شکل میں، زید کی ایک بوڑھی والدہ ہیں اور بہن بھائی بھی ہیں، زید کی 2 بیویاں ہیں ، اولاد میں لڑکیاں اورلڑکے ہیں، زید چاہتا ہیے کہ اپنی رندگی ہی میں اپنی جائیداد ( یعنی فلیٹ اور بنک بیلنس کی تقسیم کا ایسا انتظام کر دے کہ زید کے انتقال کے بعد جائیداد کی تقسیم کے اوپر ورثاء میں کوئی جھگڑا نہ ہو۔
اس صورت میں کیا کیا حل ہو سکتے ہیں۔
جواب…ممکنہ جھگڑے سے بچنے کے لیے زید اپنی زندگی میں مذکورہ لوگوں کے درمیان اپنی جائیداد تقسیم کر سکتا ہے ، لیکن یہ تقسیم میراث نہیں بلکہ ہبہ ہے ۔ اولاد میں برابری کی تقسیم کرنا مستحب ہے ، لیکن اگر کوئی کمی بیشی ہو جائے او رکسی کے نقصان کا ارادہ نہ ہو تو اس کی بھی گنجائش ہے ۔ اس صورت میں مذکورہ لوگوں کو قبضہ دینا ضروری ہے، قبضہ نہ دینے کی صورت میں جائیداد زید کی ملکیت رہے گی او راس کے انتقال کے بعد شریعت کے مطابق تقسیم ہو گی او راس صورت میں اولاد کی موجودگی کے باعث زید کے بہن بھائی کا میراث میں کوئی حصہ نہیں ہو گا۔
عمر رسیدہ نو مسلم افراد کے ختنہ کا حکم
سوال …کیا فرماتے ہیں مفتیانِ عظام مسئلہ ہذاکے کے بارے میں اس وقت تبلیغی جماعتوں کا بیرون ممالک میں بکثرت جانا ہوتا ہے ، ان ممالک میں بہت سے ( بڑی عمروں والے) افراد اسلام میں بھی داخل ہوتے ہیں ۔
ان نو مسلموں کے لیے اُن ممالک میں ( ہرفقہ ”حنفیہ، شافعیہ، حنابلہ او رمالکیہ“ سے منسلک افراد کے لیے) ختنہ کا کیا حکم ہے؟
ائمہ اربعہ رحمہم الله کے نزدیک ختنہ کا کیا حکم ہے؟
”کتب حنفیہ میں ختنہ کے مسنون ہونے کا قول ملتا ہے “ کیا عمل سنت کی ادائیگی کے لیے واجب (حفظ النظر إلی العورة الغلیظة) کو ترک کیا جاسکتا ہے ؟
جواب… ختنہ کرنا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنت ہے اور یہ شعائر اسلام میں داخل ہے ، احادیثِ مبارکہ میں اس عمل کے اہتمام کی بہت تاکید آئی ہے ، فقہائے کرام نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر شہر کے تمام افراد ترکِ ختنہ پر متفق ہو جائیں تو حاکمِ وقت ان سے قتال کر سکتا ہے۔
عن أبی ھریرة رضی الله عنہ ، عن النبی صلی الله علیہ وسلم قال : ” خمس من الفطرة: الختان، والاستحداد، وتقلیم الأظفار، ونتف الإبط، وقص الشارب“․( المصنف لابن أبي شیبة، کتاب الطھارة، رقم الحدیث:195/1,2059، دارالسلفیة)
الختان سنة کما جاء في الخبر وھو من شعائر الإسلام وخصائصہ، حتی لواجتمع أھل بلدٍ علی ترکہ، یحاربھم الإمام، فلا یُترَک إلا للضرورة وعذرُ الشیخ الذي لا یطیق ذٰلک ظاہرٌ، فیُترک․ (البحر الرائق، کتاب الخنثیٰ، مسائل شتّی:359/9، دارالکتب العلمیة)․
مذکورہ تفصیل کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب یہ ہیں:
اگر کوئی شخص بلوغت کے بعد اسلام قبول کرے تو اس کے لیے ختنہ کروانا لازم ہے ، البتہ نو مسلم اگر بڑی عمر والا ہو ، ضعیف وکمزور ہو ، ختنہ کی تکلیف برادشت نہ کرسکتا ہو او رکوئی ماہر، دین دار ڈاکٹر بھی اس کے لیے ختنہ کروانے کو جان لیوا قرار دے دے تو ایسے شخص کے لیے ختنہ نہ کروانے کی گنجائش ہے، تاہم ایسے شخص پر قضائے حاجت کے وقت نہایت اہتمام سے صفائی کرنا لازم ہو گا۔
عن قتادة الرھاوي قال أتیت رسول الله صلی الله علیہ وسلم فأسلمتُ، فقال لي:” یا قتادة اغتسل بماءٍ وسدرٍ واحلق عنک شعرَ الکفر“․ وکان رسول الله صلی الله علیہ وسلم یأمر من أسلم أن یختتن، وکان ابن ثمانین سنةً․ (المعجم الکبیر للطبراني، قتادة الرھاوي، رقم الحدیث:344/12,15363، مکتبة دار ابن تیمیہ)․ (الأدب المفرد، الختان للکبیر، رقم الحدیث:1225، ص:711، مکتبة المعارف، الریاض)
واختلفو في الختان، قیل:”إنہ سنة“، وھو الصحیح… الشیخ الضعیف إذا أسلم ولا یطیق الختان، إن قال أھل البصر لا یطیق، یُترَک، لأن ترک الواجب بالعذر جائز، فترک السنة أولی، کذا في الخلاصة․(الفتاویٰ الھندیة، کتاب الکراھیة، الباب التاسع عشر في الختان:357/5، رشیدیہ)
قال في السراج:” وھو سنة عندنا للرجال والنساء“، وقال الشافعي: ”واجب علیھما“ ، و في الفتح:” یُجبَر علیہ إن ترکہ إلا إذا خاف علیہ الھلاک وإن ترکتہ لا“․(حاشیة الطحاوي علی المراقي، کتاب الطھارة، فصل مایوجب الاغتسال:98/1، دارالکتب العلمیة)
ائمہ اربعہ میں سے امام شافعی وامام احمد بن حنبل رحمہما الله کے نزدیک ختنہ کروانا واجب ہے اور امام ابوحنیفہ وامام مالک رحمہما الله ختنہ کے سنت ہونے کے قائل ہیں، تاہم سب کے نزدیک یہ شعائر اسلام میں سے ہے۔
الختان واجب علی الرجال والنساء عندنا وبہ قال کثیرون من السلف، کذا احکاہ الخطابي، وممن أوجبہ أحمد، وقال مالک وأوبوحنیفة سنة فی حق الجمیع․( المجموع شرح المھذب، کتاب الطھارة،باب السواک:366/1، دارالفکر)
فأما الختان: فواجب علی الرجال ومکرمة في حق النساء، ولیس بواجب علیھن․(المغني لابن قدامہ، کتاب الطہارة فصول في الفطرة، فصل:115/1، دارعالم الکتب)
واختلفوا في الختان، قیل: ” إنہ سنة“ وھو الصحیح ، کذا في الغرائب․( الفتاویٰ الھندیة، کتاب الکراھیة، الباب التاسع عشر في الختان:357/5، رشیدیة)
(والختان للرجال) فإنہ (سنة مؤکدة) في حق الصغیر والکبیر․(الفواکہ الدواني، باب فی الفطرة والختان:394/2، دارالکتب العلمیة)․ (الموسوعة الفقھیة الکویتیة، ختان:27/19، وزارة الأوقاف الشئون الإسلامیة)
احناف کے نزدیک ختنہ کروانا سنت ہے ، لیکن بچپن میں ختنہ نہ ہونے کی صورت میں بلوغت کے بعد یا اسلام قبول کرنے کے بعد ختنہ کروانا لازم ہے ، اس عمل میں اگرچہ شرم گاہ کی طرف دیکھنا لازم آتا ہے، لیکن ختنہ کی ضرورت کی وجہ سے شریعت میں اس کی اجازت دی گئی ہے، اس لیے اس عمل مسنون کی ادائیگی میں ترکِ واجب لازم نہ آئے گا، تاہم اس عمل کے دوران ڈاکٹر پر لازم ہے کہ وہ بلاضرورت شرم گاہ پر نظر ڈالنے سے گریز کرے۔
وأما النظر إلی العورة لأجل الختان، فلیس فیہ ترک الواجب لفعل السنة، لأن النظر مأذون فیہ للضرورة․ ( رد المحتار مع الدارالمختار، کتاب الحج، مطلب في مکة:505/3، دار عالم الکتب)
یحل للرجال أن ینظر من الرجل إلیٰ سائر جسدہ إلا مابین السرة والرکیة إلا عند الضرورة، فلا بأس أن ینظر الرجل إلیٰ موضع الختان لیختنہ ویداویہ بعد الختن․( بدائع الصنائع، کتاب الاستحسان:123/5، دارالکتب العلمیة الطبعة الثانیة،1406ھ)
إذا جاء عذر فلا بأس بالنظر إلیٰ عورة لأجل الضرورة، فمن ذٰلک أن الخاتن ینظر ذٰلک الموضع والخافضة کذٰلک تنظر، لأن الختان سنة، وھو من جملة الفطرة في حق الرجال لا یمکن ترکہ․ ( المبسوط للسرخسي، کتاب الاستحسان، النظر إلیٰ الأجنبیات:163/10، الغفاریة، کوئتة)․