Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانیہ 1433ھ

ہ رسالہ

3 - 18
شریعت اسلامیہ کی جامعیت
شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ

سرولیم میور اپنی کتاب ”لائف آف محمد“ میں لکھتا ہے:” جہاں تک ہماری معلومات ہیں، دنیا بھر میں ایک بھی ایسی کتاب نہیں جو اس ( قرآن مجید) کی طرح بارہ صدیوں تک ہر قسم کی تحریف سے پاک رہی ہو۔“

ڈاکٹر موریس فرانسیسی مشہور مصنف لکھتا ہے:
” قرآن دینی تعلیم کی خوبیوں کے لحاظ سے تمام دنیا کی مذہبی کتابوں سے افضل ہے، بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ قدرت کی ازلی عنایت نے جو کتابیں دیں، ان سب میں قرآن بہترین کتاب ہے۔“

ڈاکٹر موریس کہتا ہے:” قرآن نے دنیا پر وہ اثر ڈالا جس سے بہتر ممکن نہ تھا۔“ ( تنقید الکلام مصنفہ سید امیر علی)

”ڈاکٹر ائیسن گاس“ اپنی ڈکشنری میں لکھتا ہے:” قرآن کی خاص خوبی اس کی ہمہ گیر صداقت میں مضمر ہے۔“

جارج سیل ( مشہور مترجم قرآن) کہتا ہے:
”قرآن جیسی معجز کتاب انسانی قلم نہیں لکھ سکتا، یہ مستقل معجزہ ہے، جو مردوں کو زندہ کرنے کے معجزے سے بلند تر ہے ۔“

پادری وال ریسن بی ڈی (پنٹسبرگ کے گرجے میں امن عالم کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے) کہتا ہے :
” مسلمانوں کا مذہب جو قرآن کا مذہب ہے ، ایک امن اور سلامتی کا مذہب ہے۔“

گاڈ فری ہیگسن کہتا ہے :” قرآن کمزوروں اور غریبوں کا غم خوار ہے اور ناانصافی کی جابجا مذمت کرتا ہے۔ “

ڈاکٹر کنین آٹرک ٹیلر( کلیسائی انگلستان کے صدر نشین کی حیثیت سے 1877ء میں تقریر کرتے ہوئے) کہتا ہے :” اسلام کی بنیاد قرآن پر ہے ، جو تہذیب وتمدن کا علم بردار ہے۔“

نیر ایسٹ ( لندن کا مشہور اخبار) لکھتا ہے:” محمد صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم وارشاد ( قرآن) کی قدروقیمت او رعظمت وفضیلت کو اگر ہم تسلیم نہ کریں تو ہم فی الحقیقت عقل ودانش سے بیگانہ ہیں۔“

مسٹر جان ڈیون پورٹ اپنی کتاب”اپالوجی فار محمد اینڈ دی قرآن“ میں لکھتا ہے:

”منجملہ بہت سی اعلیٰ درجے کی خوبیوں کے، جو قرآن کے لیے واجب طور پر باعث فخر وناز ہو سکتی ہیں، دو خوبیاں نہایت بیّن ہیں : اول تو اس کا مودبانہ اور ہیبت ورعب سے بھرا ہوا طرز بیان، جو ہر اس مقام پر جہاں خدا تعالیٰ کا ذکر یا اس کی ذات کی طرف اشارہ ہو، اختیار کیا گیا ہے او رجس میں خداوند عالم کی ذات سے ان جذبات او راخلاقی نقائص کو منسوب کیا گیا جو انسان میں پائے جاتے ہیں ، دوسرے اس کا ان تمام خیالات والفاظ اور قصوں سے مبرا ہونا جو فحش اور خلاف اخلاق اور غیر مہذب ہوں، حالاں کہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ یہ عیب توریت وغیرہ کتب مقدسہ یہود میں بکثرت پائے جاتے ہیں ، فی الحقیقت قرآن ان سخت عیوب سے ایسا مبرا ہے کہ اس میں خفیف سے خفیف ترمیم کی بھی ضرورت نہیں ، اول سے آخر تک اسے پڑھتے جائیں تو اس میں کوئی بھی ایسا لفظ نہیں ملے گا جو پڑھنے والے کے چہرے پر شرم وحیا کے آثار پیدا کرے ، قرآن میں ذات باری کی تعریف نہایت مشرح اور صاف ہے او رجو مذہب اس نے ان خوبیوں کے ساتھ قائم کیا ہے وہ وحدانیت الہٰی کا نہایت پختہ اور شدید یقین ہے او ربجائے اس کے کہ الله تعالیٰ کو فلسفیانہ طور پر صرف ایسا مسبب الاسباب مان لیا جائے جو اس عالم کو اپنے مقررہ قوانین پر چلا کر خود ایسی شان وعظمت کے ساتھ الگ ہے کہ اس تک کوئی شے نہیں پہنچ سکتی ، قرآن کی رو سے ہر وقت حاضر وناظر ہے اوراس کی قدرت کاملہ ہمیشہ اس عالم میں عامل او رمتصرف ہے ، علاوہ ازیں اسلام ایسا مذہب ہے جس کے اصول میں کوئی امر متنازع فیہ نہیں اور چوں کہ اس میں کوئی ایسا معمہ نہیں جو سمجھ میں نہ آئے اور زبردستی قبول کرنا پڑے، اس لیے وہ لوگوں کے خیالات کو ایک سیدھی سادھی اور ایسی پرستش پر قائم رکھتا ہے جو تغیر پذیر نہیں ہے، حالاں کہ تیز اور تند اور اندھا دہند جوش مذہبی نے پیر وان اسلام کو اکثر اوقات آپے سے باہر کر دیا ہے۔

سب سے آخری بات یہ ہے کہ اسلام ایسا مذہب ہے کہ جس سے ولیوں، شہیدوں، تبرکات اور تصویروں کی پرستش اور ناقابل فہم باتیں اور حکیمانہ باریکیاں او رراہبوں کی تجرید اور تعذیب نفس بالکل خارج کر دی گئی ہیں ، چناں چہ اسلام میں ایسے ثبوت موجود ہیں کہ جن پر خیال کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بانی نے ماہیت اشیا او راس زمانہ کی قوتوں کی حالت او را س امر پر کہ مسائل مذہبی سے کیوں کر مطابق ہو سکتی ہے ، ایک طویل اورعمیق غور کے بعد اپنے مذہب کی بنا ڈالی ہے اور اس وجہ سے کچھ محل تعجب نہیں ہے کہ اسلامی طور کی پرستش ، اہل کعبہ کی بت پرستی اور صائبین کی پرستشِ اجرام فلکی اور زردشتیوں کی آتش پرستی پر غالب آگئی ہے ۔“ ( معجزہ قرآن مجید، صفحہ163)

چیمبرز انسائیکلوپیڈیا کا مقالہ نگار مذہب اسلام کے متعلق لکھتا ہے :
” مذہب اسلام کا وہ حصہ جس میں بہت کم تغیرو تبدل ہوا ہے ( بلکہ نہیں ہوا) جس سے اس کے بانی کی طبیعت صاف صاف معلوم ہوتی ہے ، اس مذہب کا نہایت کامل او روشن حصہ ہے ، اس سے ہماری مراد قرآن کا علم اخلاق ہے ، ناانصافی، کذب، غرور، انتقام، غیبت، استہزا، طمع، فضول خرچی، عیاشی، خیانت او ربدگمانی نہایت قابل ملامت قرار دی گئی ہیں او ران کو قبیح اور بے دینی بتایا گیا ہے ، بمقابلہ ان کے خیر اندیشی، فیض رسانی، پاک دامنی، حیا، تحمل، صبر، کفایت شعاری ، سچائی، راست بازی، عالی ہمتی، صلح پسندی اور سچی محبت اور سب سے بڑھ کر توکل بخدا اور انقیاد امر الہٰی کو حقیقی ایمان داری کی اصل بنیاد اورمومن صادق کا اصل نشان قرار دیا گیا ہے ۔“ ( معجزہٴ قرآن مجید:167)

اس مکمل کتاب اور بے نظیر کلام الہٰی کے متعلق مشہور ذمہ دار برطانیہ مسٹر گلیڈاسٹون بھرے مجمع میں اس کو اٹھاتے ہوئے بلند آواز سے کہتا ہے :” جب تک یہ کتاب دنیا میں باقی ہے ، دنیا متمدن او رمہذب نہیں ہو سکتی۔“

انہیں علوم اور مدارس کے مٹانے او رمہلک علوم جدیدہ کو شائع کرنے کے لیے لارڈ میکالے کہتا ہے:
”ہماری تعلیم کا مقصد ایسے نوجوان پیدا کرنا ہے، جو اگر رنگ ونسل کے اعتبار سے ہندوستانی ہوں تو دل ودماغ کے اعتبار سے فرنگی۔“ ( مدینہ بجنور28 جنوری1936ء)

باوجود یہ کہ ہندوستان میں برطانوی حکومت سے پہلے ہر قریہ اور دیہات میں مشرقی علوم کے مدارس موجود تھے، جیسا کہ سرتھامس کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے:
”ہندوستانیوں کا طریقہ کاشت کاری، بے مثل صنعت وحرفت، ان کی صنعت وکاشت کاری کے معاملے میں اعلیٰ استعداد، ہر قریہ میں ایسے مدارس کی موجودگی جن میں نوشت وخواندا ور حساب کی تعلیم ہوتی ہے، ہر شخص میں مہمان نوازی او رخیرات کرنے کا مبارک جذبہ موجود ہے اور سب سے زیادہ یہ کہ صنف نازک پر پورا اعتماد کیا جاتا ہے، اس کی عزت وعصمت اور عفت کا پوری طرح لحاظ رکھا جاتا ہے ، یہ ایسے اوصاف ہیں کہ جن کے ہوتے ہوئے ہم اس قوم کو غیر مہذب او رغیر متمدن نہیں کہہ سکتے، ایسی صفات کی موجودگی میں ہندوستان کو یورپی اقوام سے کسی طرح کم تر قرار نہیں دیا جاسکتا ہے، اگر انگلستان اور ہندوستان کے درمیان تہذیب تمدن کی تجارت کی جائے تو مجھے یقین کامل ہے کہ ہندوستان سے تمدن کی جو کچھ درآمد انگلستان میں ہو گی، اس سے انگریزوں کو بہت فائدہ پہنچے گا۔“ ( دیکھیے حکومت خود اختیاری)

مگر برطانوی حکومت نے ان مدارس کو اپنی ناپاک اور نجس پالیسی کی بنا پر تباہ وبرباد کر دیا، مسٹر لڈلو اپنی تاریخ ”برطانوی ہند“ میں لکھتا ہے:
”مجھے یقین ہے کہ ہندوؤں کے ہر گاؤں میں، جو اپنی قدیم شان اورحیثیت کو قائم رکھے ہوئے تھا، عام طور پر بچے لکھ پڑھ سکتے تھے او رحساب میں انہیں خاص مہارت ہوتی تھی، لیکن ہم نے بنگال کی طرح جہا ں جہاں دیسی سسٹم کو فنا کر دیا ہے ، اس جگہ دیسی مدرسے بھی فنا ہو گئے۔“ (حکومت خود اختیاری)

جب ہندوؤں کے ہر گاؤں میں بچے عام طور پر لکھے پڑے ہوتے تھے او رمدارس قائم تھے، تو مسلمانوں کے گاؤں میں او ران کی اولاد میں کہیں زیادہ تعلیم گاہیں اور علم وہنر ہو گا، کیوں کہ مسلمانوں کا مذہب تعلیم وتعلم کو فرض قرار دیتا ہے ، وہ اس وقت تمام سیاست اور نظام کے مالک تھے، آنریبل مسٹر ایلفنسٹن اور ایف وارڈن نے1823ء اور 1828ء میں مسئلہ تعلیم پر ایک یادداشت مرتب کی تھی، جس میں انہوں نے اس نقصان کو تسلیم کیا جو ملک کو انگریزوں کی ذات سے پہنچا تھا، ان کے الفاظ حسب ذیل ہیں:

” ہم نے ہندوستانیوں کی ذہانت کے چشمے خشک کر دیے اور ہماری فتوحات کی نوعیت ایسی ہے کہ اس سے نہ صرف یہ کہ تعلیمی ترغیب نہیں ہوتی، بلکہ اس سے قوم کا علم سلب ہوا جاتا ہے اور علم کے پچھلے ذخیرے نسیا منسیا ہوئے جاتے ہیں ، اس الزام کے رفع کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ ہونا چاہیے۔“ (حکومت خود اختیاری)

اس سے صاف ظاہر ہے کہ انیسویں صدی کے ابتدائی حصہ میں برطانوی مدبرین نے مدارس اور تعلیم گاہوں کو فنا کے گھاٹ اتار دیا تھا اورملک ہند سے علمی ذخائر کو معدوم کرکے ہندوستانیوں کو کاہل بنا دیا تھا، برطانوی ناپاک پالیسی کا ہمیشہ سے تقاضا یہی رہا ہے کہ وہ ہندوستانیوں کے کسی قسم کے علوم کو بھی رائج نہ ہونے دیں، سرولیم ڈگبی اپنی کتاب ”پراسپرس برٹش انڈیا“ میں میجر جرنیل اسمتھ کے سی بی کی شہادت قلم بند کرتے ہوئے لکھتا ہے:

”سوال: کیا آپ کسی طرح اس بات کو روک کر سکتے ہیں کہ دیسیوں کو ان کی طاقت کا علم نہ ہو ؟
جواب: میرے خیال میں انسانی تاریخ میں کوئی ایسی تاریخ نہیں ملتی کہ معدود ے چند اغیار چھے کروڑ آبادی کے ملک پر حکم رانی کرسکیں ( غالباً یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے میں تمام ملک نہیں آیا تھا) جسے آج کل رائے کی بادشاہت کہتے ہیں، اس لیے جونہی وہ تعلیم یافتہ ہو جائیں گے تو تعلیم کی تاثیر سے ان کے قومی او رمذہبی تفرقے دور ہو جائیں گے، جس کے ذریعے سے ہم نے اب تک ملک کو اپنے قبضہ میں رکھا ہوا ہے ، یعنی مسلمانوں کو ہندوؤں کے خلاف کرنا اورعلیٰ ہذا القیاس تعلیم کایہ اثر ضرور ہو گا کہ ان کے دل بڑھ جائیں گے اور انہیں اپنی طاقت سے آگاہی ہو جائے گی۔“

الغرض برطانیہ نے ابتدا ہی سے علم اور ذرائع کو اپنی اغراض فاسدہ اور نجس پالیسی کی بنا پر فنا کر دیا۔
Flag Counter