مادّی وسائل کا ٹکراؤ، ایمانی غیرت سے
متعلم محمد حسین حریفال
اسباب پر یقین رکھنے والے تاریخ کا کتنا بڑا مذاق سمجھتے ہوں گے کہ چند ہزار اہل ایمان نے ایک ہی صدی میں تیسری عالمی طاقت، یعنی پہلے برطانیہ، پھرروس او راب امریکا کو شکست کے دہانے پر لاکھڑا کیا۔ آج سے دس سال قبل جب امریکا افغانستان میں داخل ہو رہا تھا تو میرے ملک کے طاقت کے پجاری، امریکا کی ظاہری طاقت اور جدید ٹیکنالوجی کو کام یابی کا سبب سمجھنے والے دانش ور، ادیب حتیٰ کہ سیاست دان بھی یہی کہتے تھے کہ تباہ کن اسلحہ سے لیس امریکی فوج بے سروسامان اور کمزور افغانوں کو چند ہی دنوں میں نیست ونابود کرکے پورے افغانستان پر قبضہ جمائے گی۔ مگر آج صورتِ حال ان کے تجزیوں کے برعکس ہے۔ ان کو یہ بات نہیں سوجھتی تھی کہ ان کمزوراور مفلوک الحال افغانوں کے خون میں ایمان کی غیرت اور حمیت دوڑ رہی ہے ، جو کبھی بھی کسی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے نہیں دیتی۔ وہ ایسے نگہبان پر بھروسا رکھتے ہیں کہ جس کا اپنے بندوں سے یہ وعدہ ہے کہ جو مجھ پر بھروسہ کرے گا تو میں اس کو دونوں جہانوں میں سرخرو کروں گا۔ بالآخر وہی ہوا جس کا وعدہ ہے کہ کمزور افغان مادی وسائل، ظلم وجبر اور تشدد کی پروا کیے بغیر ان کے سامنے کوہ استقلال بن گئے اوراب وہ برطانیہ ، روس کی طرح امریکا کو بھی اپنے بُرے انجام تک پہنچا رہے ہیں۔
مغرب کے ٹکڑوں پر پلنے والوں کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ ملکوں کی فتح اور سر فرازی مادی وسائل سے نہیں، بلکہ ایمان غیرت اور دینی حمیت سے ہے، مغرب کے طاقت ور ترین حکم رانوں کی چاپلوسی او ربرائے نام دوستی میں کبھی بھی کام یابی او رکام رانی کا راز مضمر نہیں، کیوں کہ یہ جفا کے دلدادے کفار دھوکا دہی اور فریب کو دوستی سمجھتے ہیں، کبھی بھی مسلمانوں کے خیر خواہ نہیں رہے ہیں۔ اس لیے رب لم یزل اپنی کتاب مبین میں ارشاد فرماتے ہیں کہ” اگر تم کافروں کا کہنا مانو گے او ران کے مشوروں پر عمل پیرا ہو گے تو یہ تم کو الٹے پاؤں کفر کی طرف پھیر دیں گے، پھر تم دنیا وآخرت کے خسارے میں پڑ جاؤ گے۔“ آگے ارشاد فرمایا:!” کہ اگر یہ نہیں کرو گے تو عنقریب الله تمہاری قلت اور کمزوری کے باوجودان کے دلوں میں تمہاری ہیبت اور دہشت ڈال دیں گے۔ ان کے مادی اسباب کچھ کام نہ آئیں گے اورباوجودیکہ تم کمزور ہو تب بھی وہ پلٹ کر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کر سکیں گے۔“
چناں چہ ایسا ہی ہوا کہ مسلمان قلت تعداد کے باوجود ہر وقت فاتح رہے ہیں ۔ جنگ بدر کی مثال لے لیجیے! مسلمان تین سو او رکفار کی تعداد نو سو پچاس، جنگ احد میں مسلمان سات سو اور کفار تین ہزار تھے اور خندق کی لڑائی میں مسلمان تین ہزار او رکفار چوبیس ہزار آئے تھے۔ اسی طرح جنگ یرموک میں مسلمانوں کی تعداد چالیس سے پینتالیس ہزار اور کفار کی تعداد ڈھائی لاکھ پھر بھی ایک لاکھ تیس ہزار کفار قتل اور باقی کو بھاگنے پر مجبور کر دیا، دور نہ جائیے، بلکہ دور حاضر بھی سب کے زیر نگاہ ہے۔ انہی سیدھے سادھے اور مادی وسائل سے خالی، لیکن ایمانی قوت سے بھرے افغانوں نے ایک بار سرخ ریچھوں کو تباہیوں اور بربادیوں کی ڈگریاں تھما کر روس بھیج دیا اوراب گورے انگریزوں کو تباہی او ربربادی کے ساتھ واپس امریکا دھکیل رہے ہیں۔
یہ افغانوں کاکوئی کمال نہیں، بلکہ پختہ عزائم، بلند حوصلہ اور خدائے واحد پر کامل یقین ہے کہ ان کو ایسے انعامات سے نوازا جارہا ہے۔ کیوں کہ اسلام اور اہل اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ غیرت اور دینی حمیت کا مادی وسائل سے ہمیشہ مقابلہ ہوتا رہا ہے اور فتح وکام رانی بالآخر جذبات سے بھرپور اصحابِ عزیمت کا ہی مقدر بنی ہے اور مادی وسائل کی کمی کے باوجود انہی کا پلہ بھاری رہا ہے۔