صراطِ مستقیم کی دعوت
شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان مدظلہ
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)
﴿ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْن﴾․(الحج:7)
ترجمہ: راہ بتلاتی ہے ڈرنے والوں کو۔
ربط: سورہٴ فاتحہ میں اہل ایمان کی دعا کا تذکرہ ہے اس سورہ میں اس دعا کا جواب ہے کہ یہ لو! یہ ہے کتاب ہدایت، پھر ان تین گروہوں کا تذکرہ ہے جو انبیاء کی صراطِ مستقیم کی دعوت کے نتیجے میں سامنے آئے۔
﴿لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾․
ویسے تو یہ کتاب پوری دنیا کے لیے شمع ہدایت ہے، لیکن اس سے روشنی وہی پاسکیں گے جو دل میں خوف خدا اور حق کی سچی تڑپ رکھتے ہوں۔ (تفسیر ابن کثیر ، البقرہ، تحت آیہ رقم:2)
معلوم ہوا کہ اس سے استفادہ کی پہلی شرط تقوی ہے، شریعت کی اصطلاح میں ہر گناہ سے اپنے آپ کو بچانے کا نام تقوی ہے۔
تقویٰ کے مراتب
تقوی کے تین مراتب ودرجات ہیں۔
1. اسلام قبول کرکے اپنے آپ کو جہنم کے دائمی عذاب سے بچانا۔ آیت کریمہ﴿وَأَلْزَمَہُمْ کَلِمَةَ التَّقْوَی﴾․ (الفتح:26) میں تقوی سے یہی معنی مراد ہیں۔
2. اپنے نفس کو گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے او رگناہ صغیرہ پر اصرار سے محفوظ رکھنا تقوی کا دوسرا مرتبہ ہے، آیت کریمہ:﴿وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُرَی آمَنُواْ وَاتَّقَوا﴾․(الاعراف:96) میں تقوی کے یہی معنی مراد ہیں اور اصطلاح شریعت میں بھی عموماً جب تقویٰ کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے یہی معنی مراد ہوتے ہیں۔
3. قلب وفکر کے ہر گوشے کو ہر ایسی چیز سے محفوظ رکھنا جو ذکر الہٰی سے دوری کا سبب بنتی ہو۔ یہ تقوی کا اعلیٰ مرتبہ ہے ۔ آیت کریمہ:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ حَقَّ تُقَاتِہ﴾․ میں تقوی کے یہی معنی مراد ہیں۔ (تفسیر ابی سعود،آل عمران، تحت آیة رقم:102)
متقین کی صفات
یہاں سے اس مبارک گروہ کی صفات بیان کی جارہی ہیں ، جنہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا اور دل وجان سے ان کے قول وفعل کی تصدیق کی۔
﴿الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْْبِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ ﴾․(البقرة، آیت:3)
ترجمہ: جو یقین کرتے ہیں بے دیکھی چیزوں کا اور قائم رکھتے ہیں نماز کو اور جو ہم نے روزی دی ہے ان کو،اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
﴿الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبْ﴾․
ایمان کی تعریف:”ایمان“ امن سے ماخوذ ہے، امن اطمینان وسکون کو کہتے ہیں، جو خوف کو ضد ہے، جب ”امن“ کو بابِ افعال سے ”ایمان“ کی صورت میں لایا جائے تو اس کے معنی خوف زائل کرنے کے ہو جاتے ہیں۔
شریعت کی اصطلاح میں ایمان کہتے ہیں:”ھو التصدیق بما علم مجيٴ النبی ا بہ ضرورة تفصیلاً فیما علم تفصیلاً وإجمالاً فیما علم إجمالاً“․(روح المعانی، البقرة، تحت آیة رقم:3)
یعنی حضور ا سے جن چیزوں کا ثبوت ”ضروری“ طور پر ہوا ہے ، اس کی تصدیق کرنا ایمان ہے اگر آپ صلی الله علیہ وسلم سے کسی چیز کا ثبوت اجمالی طور پر ہوا ہے ، تو اجمالی تصدیق اور اگر کسی چیز کا ثبوت تفصیلی طور پر ہوا ہے ، تو تفصیلی تصدیق کرنا ضروری ہے۔ مذکورہ تعریف میں ”ضرورة“ سے مراد یقین ہے ۔( نبراس، شرح شرح العقائد، ص:249، امدادیہ ملتان)
یعنی جو چیز یقینی اور قطعی طور پر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہو اس کی تصدیق کو ایمان کہا جائے گا۔
ضروریات دین کون سی چیزیں ہیں؟
دین کی جو چیزیں اس قدر تواتر او ریقین سے معلوم او رمشہور ہو چکی ہوں کہ عوام الناس بھی جانتے ہوں کہ یہ چیزیں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے دین مبارک کی ہیں، وہ چیزیں ضروریاتِ دین کہلاتی ہیں، مثلاً توحید ورسالت، ختم نبوت، حیات بعد الموت، سزا اور جزائے عمال، نماز اور زکوٰة کی فرضیت، شراب اور سود کی حرمت۔(مجموعة رسائل الکشمیری، اکفار المحلدین،3/2، ادارة القرآن، کراچی)
ایمان فلسفی او رایمان شرعی میں فرق
ایمان وہی معتبر ہے جو نبی کے خبر دینے او رنبی پر اعتماد کے نتیجے میں پیدا ہوا ہو ۔ جو شخص رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی کسی خبر او رحکم کو محض اس بنیاد پر تسلیم کرے کہ یہ عقل کے موافق ہے تو اس کا ایمان معتبر نہ ہو گا، کیوں کہ عقلیات کے نتائج مشکوک اور ظنی ہیں، جب کہ ایمان یقین ومعرفت کا تقاضا کرتا ہے ۔
لہٰذا اگر کوئی شخص توحید باری تعالیٰ کا اقرار تو کرتا ہے، لیکن حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خبر یا حکم کی وجہ سے نہیں، بلکہ محض عقلی دلائل کی بنیاد پر تو ایسا شخص صاحب ایمان نہ ہو گا، اسی طرح کوئی شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کی حدیث مبارک کہ” کتے کے چاٹے ہوئے برتن کو سات مرتبہ دھو لو“ کی تصدیق محض سائنسی موافقت کی وجہ سے کرے کہ سائنس کے تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ کتے کے چاٹے ہوئے برتن کو سات بار دھونے سے اس سے مضر اثرات اور جراثیم ختم ہو جاتے ہیں اور اسی بنا پربرتن کو سات بار دھوئے تو ایسا ایمان سائنسی کہلائے گا نہ، کہ شرعی۔
غیب
لغت میں ”غیب“ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو نظر سے پوشیدہ، مشاہدے او رتجربے سے باہر ہو ۔ ( لسان العرب،151/1، بیروت)
﴿ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبْ﴾ کا مطلب:
”ایمان“ اور غیب“ کی حقیقت واضح ہونے کے بعد اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ متقین کی پہلی صفت یہ ہے کہ وہ حواس وعقل سے وراء جن چیزوں کی خبر نبی سے ملی ہے ان کی دل وجاں سے تصدیق کرتے ہیں ،مثلاً حشر ونشر، حساب وکتاب، جنت ودوزخ، حو روملائکہ کی تصدیق۔
انبیاء کے لیے بھی علم غیب ہے
عالَم غیب پر ایمان لانا پرہیز گاروں کی صفت ہے اور انبیائے کرام تو تمام پرہیز گاروں کے امام اور پیشوا ہیں، ان کا علم و معرفت بھی اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود ایک مقام پر جاکے ٹھہر جاتا ہے ، جہاں سے ان کے لیے مغیبات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، جس پر وہ ایمان لاتے ہیں۔
﴿وَیُقِیْمُونَ الصَّلوٰة﴾․
یہ پرہیز گاروں کی دوسری صفت ہے کہ وہ نماز کی ادائیگی بڑے اہتمام سے کرتے ہیں ۔ نماز کے فرائض وواجبات سنن ومستحبات رکھتے ہیں اورایسی کیفیت پر مشتمل نماز کا نام ”اقامت صلاة“ ہے ۔ ( مفردات الفاظ القرآن للراغب، ص:320)
صلوة کا شرعی مفہوم
شریعت میں صلوٰة ایک مخصوص عبادت کا نام ہے ۔ ( مفردات الفاظ القرآن للراغب، ص:320)
پرویز صاحب کے نزدیک صلوة کا مفہوم
پرویز صاحب اپنی کتاب ”نظامِ ربوبیت“ میں صلوٰة کا مفہوم لکھتے ہیں : ” اقامت صلوة کے معنی ہیں ایسا معاشرہ قائم کرنا جس میں تمام افراد قوانین خداوندی کے پیچھے پیچھے چلتے جائیں ۔(پرویز صاحب کی اصطلاح” ”قانون ربوبیت“” نظام ربوبیت“ پر تفصیلی بحث سورة النساء آیت نمبر59 کے تحت آئے گی۔)یہ سب نظام ربوبیت کا اتباع کریں۔ (نظام ربوبیت، آٹھواں باب، ص:148)
پرویز صاحب چوں کہ منکرِ حدیث ہونے کے ساتھ شریعت کے بنیادی علوم سے بھی کورے ہیں، اس لیے وہ اپنے ذہن میں قائم کردہ خود ساختہ رائے پر قرآن وشریعت کی اصطلاحات کو چسپاں کرتے چلے جاتے ہیں ، جن کی تائید نہ قرآن واحادیث سے ہوتی ہے، نہ صحابہ کرام کے اقوال سے۔
پرویز صاحب کی بنیادی غلط فہمی
پرویز صاحب بنیادی طور پر اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قرآن فہمی کے لیے حدیث رسول الله ا کو معیار نہیں بنایا جاسکتا ہے، کیوں کہ نبوت کا فریضہ فقط خدا کے کلام کو خدا کی مخلوق تک پہنچانے کا ہے۔ پرویز صاحب کا یہ موقف اس قدر بودا ہے کہ خود قرآنی آیات اسے باطل قرار دے رہی ہیں ۔ قرآن کریم میں ہے﴿ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ ﴾․ (الجمعة:2)
اس آیت کریمہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کو کتاب وحکمت کا معلم قرار دیا جارہا ہے، ایک دسرے مقام پر ارشاد ہے کہ ﴿ وَأَنزَلْنَا إِلَیْْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُون﴾․ (النحل:44)
یہاں آپ ا کو کتاب الله کی شرح وبیان کا حق دیا جارہا ہے﴿إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَیْْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاکَ اللّہُ﴾․(النساء:105)
یعنی ”ہم نے آپ پر کتاب اتاری، تاکہ آپ لوگوں کے درمیان اپنی سمجھ کے ذریعے فیصلے فرمائیں جو الله تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی “۔ اس سے معلوم ہوا کہ الله تعالیٰ نے نزول قرآن کے ساتھ اس کے معانی ومفاہیم سے بھی باخبر کیا ہے ۔ جس کا اظہار نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے الفاظ واعمال کے ذریعے کیا۔ اسی معنی و مفہوم کو امت حدیث رسول سے اور ائمہ مجتہدین وحی خفی یا وحی غیر متلو سے تعبیر کرتے ہیں۔
حدیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد قرآن فہمی کے لیے صحابہ کرام کے اقوال کو پیش نظر رکھنا بھی اس لیے ضروری ہے کہ وہ زندہ تفسیر (حیات مبارکہ) کے عینی شاہد اور ان احوال واسباب سے بھی بخوبی واقف تھے، جس میں نزول قرآن ہوا تھا، لہٰذا قرآن کریم کی درست تفسیر وہی ہو گی جس میں ان مذکورہ اصولوں کی رعایت کی گئی ہو۔ اگر کوئی شخص ان اصولوں سے صرف نظر کرکے تفسیر پر لب کشائی کرے گا تو وہ یقیناً جادہٴ حق سے بھٹک جائے گا اور اس کا ہر قدم کتنا ہی خیر خواہی اور خلوصِ نیت سے اٹھایا گیا ہو ، گم راہی ہی کی طرف بڑھے گا۔ (پرویز صاحب کے شبہات او راس کے اطمینان بخش جوابات مقدمے میں دیکھیے۔)
پرویز صاحب کا بے بنیاد شبہ
پرویز صاحب ” مفہوم القرآن“ میں لکھتے ہیں۔” کہا یہ جاتا ہے کہ قرآن کریم نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہوا او رحضور نے اسے صحابہ کی جماعت کو سمجھایا، ظاہر ہے کہ اس آسماں کے نیچے اس ذاتِ اقدس واعظم سے بہتر نہ تو کوئی قرآن کوسمجھانے والا ہو سکتا ہے اور نہ قدوسیوں کی اس جماعت سے بہتر سمجھنے والا اس لیے ہمیں قرآن فہمی کے سلسلے میں کسی اور طرف رخ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔“ یہ بالکل بجا اور درست ہے ۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ جو کچھ حضور نے سمجھایا تھا وہ اپنی اصلی اور حقیقی شکل میں ہم تک نہیں پہنچا۔“ (مفہوم القرآن، از پرویز، ص:16)
منکرین حدیث کا یہ شبہ بالفرض درست تسلیم کر لیں تو ان سے سوال یہ ہے کہ اگر حضور کی تعلیمات حقیقی شکل میں ہم تک نہیں پہنچی تو آپ کس بنیاد پر اپنے افکار کو اسلامی کہنے پر تُلے ہوئے ہیں؟ آپ تک یہ حقیقی تعلیمات کس واسطے سے پہنچی؟
﴿ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ﴾
تفسیر: رزق، لغت میں بخشش او رحصے کو کہتے ہیں، خواہ وہ حسی ہو یا معنوی۔ (تفسیر المنار، البقرہ، تحت آیة رقم:3)
یہاں لغوی معنی مراد ہیں ۔ یعنی متقین کی تیسری صفت یہ ہے کہ وہ الله تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ظاہری وباطنی نعمتوں کو خرچ کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے، مال دار اپنی دولت سے، علماء اپنے علم سے ، اہل معرفت اپنے انوار وفیوض سے طالبان رشد وہدایت کو فیض یاب کرتے ہیں۔
ایک شبہ
یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ مال تو کفار بھی خرچ کرتے ہیں، بالخصوص موجودہ دور میں تو ان کے بڑے بڑے فلاحی ادارے بظاہر شب وروز خدمتِ انسانیت میں مصروف ہیں، تو پھر یہ متقین ہی کی خصوصیت کیوں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ متقین رضائے الہٰی کی طلب میں رزقِ حلال راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں، جب کہ کافروں کے پیش نظر دنیا کا مفاد ہوتا ہے ، اس لیے یہ متقین کی خصوصیت قرار دی گئی۔
قرآن کریم میں جابجا الله تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ الله تعالیٰ کی راہ میں مال ایسا آدمی ہی خرچ کرے گا جو ذاتی وانفرادی حیثیت سے ما ل پر حق ملکیت بھی رکھتا ہو، اگر اسلام میں ذاتی ملکیت کا کوئی تصور نہ ہو تو راہِ خدا میں خرچ کرنے کی یہ ترغیب بے معنی رہ جائے گی ۔ لیکن پرویز صاحب چوں کہ سوشلزم کے نظریہ معیشت سے متاثر ہیں، اس لیے وہ ذاتی ملکیت کو ناجائز تصور کرتے ہیں ۔ ( ذاتی وانفرادی ملکیت کی مکمل بحث البقرہ:219، کے تحت آئے گی)
چناں چہ اس آیت میں انہوں نے نے ”انفاق“ کا معنی ومفہوم ہی بدل ڈالا۔ اس آیت کا مفہوم لکھتے ہیں۔
”اور جو سامانِ نشو ونما انہیں دیا جاتا ہے ، اس میں سے اپنی ضروریات کے بقدر لے کر باقی نوع انسان کی پرورش کے لیے کھلا رکھتے ہیں۔“ (مفہوم القرآن، البقرة، تحت ، آیة رقم:3)
پرویز صاحب کے نزدیک”انفاق“ کے بنیادی معنی
پرویز صاحب مطالب الفرقان میں لکھتے ہیں:” اس مادہ کے بنیادی معنی”خرچ کرنا“ نہیں بلکہ کھلا رکھنا ہے … واضح رہے کہ انفاق کے معنی”خرچ کرنا“ کے نہیں۔“ (مطالب الفرقان:106/1)
پرویز صاحب کے نرذیک”انفاق“ کی لغوی تحقیق
پرویز صاحب نے لفظ ”انفاق“ سے خرچ کرنے کے معنی ختم کرنے اور کھلے رکھنے کو ثابت کرنے کے لیے جو لغوی چھان بین کی ہے اسے بھی پڑھیے۔
”اب لفظ ینفقون کی طرف آئیے، جس کا مادہ (ن، ف، ق) ہے، نفق اس سرنگ کو کہتے ہیں جس کے داخل ہونے او رنکلنے کے دونوں راستے کھلے ہوں… بنابریں منافق اس کو کہتے ہیں جو کسی نظام میں داخل ہونے سے پہلے دل میں یہ سوچ لے مجھے اس سے باہر نکلنا پڑا تو اس کے لیے کون کون سے راستے اختیار کرنے ہوں گے ، بہرحال اس مادہ کے بنیادی معنی ” خرچ کرنا“ نہیں، بلکہ ”کھلا رکھنا“ ہیں ۔ ( مطالب الفرقان:105/1،106)
پرویز صاحب کی لغوی تحقیق پر ایک نظر
پرویزصاحب نے (ن،ف،ق) کے مادّے کے بنیادی معنی ایک ہی بتلا کر علمی خیانت اور مسلمانوں کو فریب دینے کی کوشش کی ہے، ”نفق“ کا مادہ بنیادی طو رپر دو جداگانہ معنی پر دلالت کرتا ہے ۔
کسی چیز کا کسی چیز سے کٹ کر جدا ہو جانا ، چلے جانا۔
کسی چیز کا پوشیدہ ہو جانا۔ ( معجم مقاییس اللغة:454/5)
پہلے معنی”کسی چیز کا کسی چیز سے کٹ کر جدا ہو جانا“ میں کم ہونے، ختم اور فنا ہونے یا مرجانے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے، جیسے: ”نفق مالہ ودرھمہ وطعامہ نفقاً ونفاقاً، ونِفق، کلاھما( أی نفَق ونِفق) نقص وقل، وقیل: فنی وذھب“․ ( لسان العرب، باب نفق:242/14، داراحیاء التراث العربی)
یعنی مال ودرھم اور کھانے میں ”نفق“ہوا (کم ہو گیا) ۔ یہ بھی مراد لیا جاتا ہے کہ یہ چیزیں ختم ہو گئیں یا ہاتھ سے نکل گئیں۔ یہی ”نفق“ جس کا تعلق اول الذکر بنیادی معنی سے ہے جب باب افعال سے ہو تو لازمی ہونے کی صورت میں تو اس کے معنی،مال کے ہاتھ سے نکل جانے اور فقیر ومحتاج ہو جانے کے ہیں، جیسے :”انفق الرجل: افتقرأی ذھب ماعندہ“․(معجم مقاییس اللغة:454/5، دارالفکر، بیروت)
او رمتعدی ہونے کی صورت میں اسی کے معنی کسی چیز کو کسی مصرف میں لاکر اور خرچ کرکے کم کر دینے کے ہیں، جیسے ”أنفق المال صرفہ“․ (معجم مقاییس اللغة، 242/14، داراحیاء التراث العربی)
اس نے ”انفاقِ مال“ کیا، یعنی مال خرچ کیا، کسی لغوی نے آج تک اس کا ترجمہ مال کھلا رکھنے کا نہیں کیا، سوائے پرویز صاحب کے، جو عجمی بھی ہیں او رعجمی سازش کو بامراد کرنے کے لیے یہ معنی گھڑ رہے ہیں۔
نفق کے دوسرے بنیادی معنی میں سرنگ کا مفہوم پایا جاتا ہے ۔ (معجم مقاییس اللغة:455/5، دارالفکر)
لیکن یہاں تمام ائمہ لغت کے نزدیک”نفق“ کا تعلق اول الذکر بنیادی معنی کے باب افعال سے ہے، جسے بہ تفصیل ہم نے ذکر کر دیا۔
تغافل جاہلانہ یا تجاہل عارفانہ؟
”انفاق“ کے معنی ”کھلے رکھنے“ پر اصرار کے باوجود پرویز صاحب نے مفہوم القرآن میں کئی آیات میں ”انفاق“ کے معنی خرچ کرنے کے کرکے اپنی ہی تحقیق پر پانی پھیر دیا، دیکھیے ذیل کی آیات، جن کا ترجمہ مفہوم القرآن سے لیا گیا۔
﴿وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ ﴾․ (البقرة:270)
ترجمہ: جو کچھ تم خرچ کرنے کی چیزوں سے خرچ کرتے ہو۔
﴿وَلاَ یُنفِقُونَ نَفَقَةً صَغِیْرَةً وَلاَ کَبِیْرَة﴾․ (التوبہ:121)
ترجمہ: یہ لوگ اس مقصد کے لیے جو کچھ بھی خرچ کرتے ہیں …
یہ صرف دو آیات کا ترجمہ بطور مثال دیا گیا ہے، جن میں ”انفاق“ کا ترجمہ خرچ کرنا خود پرویز صاحب نے کیا، حالاں کہ ان کی لغوی تحقیق یہ ہے کہ:
”انفاق کے بنیادی معنی خرچ کرنا نہیں بلکہ کھلا رکھنا ہیں۔“
مراد آبادی صاحب کا تفسیری نوٹ:
مراد آبادی صاحب﴿وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُون﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں ”صدقات نافلہ، اموات کے لیے ایصال ثواب، جیسے گیارہویں ، چالیسواں وغیرہ بھی اس میں داخل ہے ۔“ ( تفسیر خزائن العرفان، البقرة، تحت آیہ رقم:3)
ایصال ثواب کا صحیح طریقہ
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صدقات وخیرات، بلکہ کوئی بھی نیک عمل اس نیت سے کر لیا جائے کہ اس کا ثواب فلاں کو پہنچ جائے تو وہ اسے پہنچ جاتا ہے ، ایصال ثواب کے لیے یہی مسنون طریقہ ہے ۔ ( ردالمحتار، باب صلاة الجنازہ، 243/2، معید)
لیکن اگر ایصال ثواب کے لیے کسی تاریخ کا التزام کر لیا جائے (جیسے تیجہ، گیارھویں، چالسیواں) یا کوئی ایسی مخصوص ہیئت اختیار کر لی جائے جس کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو اور صحابہ کرام رضی الله عنہم وتابعین رحمہم الله نے، جو نیک کاموں پر سب سے زیادہ حریص تھے، انہوں نے اسے انجام نہ دیا ہو ( جیسے کھانا سامنے رکھ کر مخصوص آیات کی تلاوت کرنا) تو وہ بدعت شمار ہوتا ہے ۔ ( التعریفات للجرجانی، ص:33، قدیمی)
اس لیے فقہائے کرام نے ایصال ثواب کے اس طریقہ کو ممنوع قرار دیا ہے ۔ ( البنرازیة علی ھامش الھندیہ، کتاب الصلاة،81/4، رشیدیہ) (جاری)